پاکستان کی قومی ایئر لائن بند ہو جائے گی
آج یہ بات زبان زد عام اور چہ مگویاں کی جارہی ہیں کہ کیا پی آئی اے بند ہو جائے گی؟
پاکستان کی قومی ایئر لائن نے کئی دہائیوں تک ایوی ایشن کی دنیا پر راج کیا ، عالمی اور ملکی اہم ترین شخصیات پی آئی اے سے سفر کرنا باعث فخر سمجھتی تھیں جس ایئر لائن نے دنیا کی آج کی صف اول کی ایئر لائنوں کی بنیاد رکھی اور ان کو اپنی معاونت فراہم کی۔
آج یہ بات زبان زد عام اور چہ مگویاں کی جارہی ہیں کہ کیا پی آئی اے بند ہو جائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس نے پاکستانی مسافروں اور عملے کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے، یہ پاکستانی چاہے ملک میں رہتے ہوں یا بیرون ملک ۔ یہ خبریں یکایک میڈیا کی زینت کیوں بن گئیں؟ ان کی وجوہات کیا ہیں ؟ پی آئی اے زوال کا شکار کیسے ہوئی؟ ان وجوہات کی نشاندہی سے پہلے قومی ائرلائن کی چند بڑی کامیابیوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
پی آئی اے وہ پہلی بین الاقوامی ایئر لائن تھی جس کے طیارے نے بیجنگ ایئر پورٹ پر لینڈ کیا ۔ ایشیا میں جیٹ طیارے استعمال کرنے والی پہلی ایئر لائن بھی پی آئی اے ہی تھی۔ پاکستان میں کمپیوٹر متعارف کرانے کا سہرا بھی پی آئی اے کے سر ہی سجتا ہے۔
بوئنگ 777-LR کی پہلی خریدار بھی پی آئی اے ہی تھی۔ اس کے کیبن کریو کی یونیفارم پیرس سے ڈیزائن کرائی جاتی اور ڈیزانر اسے اپنے لیے قابل فخر سمجھتے تھے۔
دنیا کے تمام براعظموں کے قابل ذکر شہروں جن کی تعداد 80 کے قریب تھی کے لیے پی آئی اے کے طیارے روزانہ کی بنیاد پر اڑا ن بھرتے تھے۔اس وقت پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں پچاس طیارے شامل تھے۔ پھر کیا وجہ ہو ئی بلند پرواز ایئر لائن کا فضائی آپریشن سکڑ کر 25 بین الاقوامی مقامات تک محدود ہو گیا۔
تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے مگر اصل وجوہات تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ بدانتظامی، سرکاری عدم دلچسپی یا اس کی ترجیح نہ ہونا پی آئی اے کا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، پی آئی اے ہے نے اپنی کمائی سے پیرس اور نیویارک میں بڑے ہوٹل خریدے جو آج بھی اس کی ملکیت ہیں اور ان پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ پاکستان میں ہوٹل انڈسٹری کی بنیاد بھی پی آئی اے کی مرہون منت ہے ، پی آئی اے کے ملکیتی ہوٹلز کی ضیاء الحق دور میں نجکاری کی گئی۔
پاکستان کی مختلف حکومتوں نے پی آئی اے کو وسعت دینے کے بجائے غیر ملکی ایئر لائنزکو پاکستان کے لیے لامحدود پروازوں کی اجازت دے دی، پی آئی اے کو نئے طیارے خریدنے کے لیے سرکاری معاونت کرنے کے بجائے جہاز کرائے پر لینے کا راستہ اپنایا گیا۔
پی آئی اے پاکستان کے شمالی مغربی علاقہ جات اور مکران کوسٹ ایریاز کے لیے بھی پروازیں آپریٹ کر رہی ہے جہاں روڈ نہیں ہیں، اگر ہیں تو انتہائی خستہ حال ہیں ، یہ تمام فضائی آپریشن مکمل خسارے کا سودا ہے۔ نجی ایئر لائن بھی ان سیکٹرز کے لیے پروازیں نہیں چلاتی ۔ یہ تمام تر بوجھ بطور قومی ذمے داری پی آئی اے خود برداشت کرتی ہے۔
قومی ایئر لائن کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہے اور جس ملک کے ایک کروڑ سے زائد شہری بیرون ملک مقیم ہوں، اس ملک کی قومی ایئر لائن کے لیے ریونیو کا حصول کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن پی آئی اے کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ فضائی بیڑے میں طیاروں کے اضافے کے بجائے بتدریج کمی ہوتی گئی۔
طیاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے فضائی سروس بند کرنا پڑ گئی، یوں خلا غیر ملکی ایئر لائنوں نے پورا کردیا جب کہ پی آئی اے کے ذریعے جو زرمبادلہ قومی خزانے میں آتا تھا، وہ بند ہو گیا یا اس میں کمی ہو گئی۔
جن مقامات کے لیے پی آئی اے نے اپنی پروازیں بند کیں، وہاں کے لیے غیر ملکی ایئر لائنز نے اپنی پروازوں کے کرایوں میں ہوشرباء اضافہ کر دیا، دراصل کسی بھی ملک کی قومی ایئر لائن اس ملک کے لیے فضائی آپریشن کے کرایوں میں مسابقت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نجی ایئر لائنز بین الاقوامی پروازوں کی اجازت ملتی ہے تو وہ اندرون ملک پروازیں بند کر دیتی ہیں کیونکہ یہ فیزیبل نہیں ہوتی اور منافع بخش بین الاقوامی روٹس پر پروازیں شروع کر دیتی ہیں لیکن پی آئی اے بطور قومی ایئر لائن خسارے کے باوجود بھی اپنا اندرون ملک فضائی آپریشن جاری رکھتی ہے۔
اس وقت قومی ایئر لائن کومالی مشکلات کا سامنا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ فضائی بیڑے میں جدید طیاروں کی شمولیت کا نہ ہونا ہے، اگرماضی میں حکومتوں کی جانب سے طیاروں کی خریداری کے لیے بروقت فیصلے کر لیے جاتے تو یہ صورتحال نہ بنتی ۔ پی آئی اے کونئے طیاروں کی خریداری کے لیے حکومتی سپورٹ نہ مل سکی اور فضائی بیڑے میں موجود پرانے طیاروں سے ہی کام چلایا گیا۔
پرانے طیاروں کی مینٹینس کے اخراجات زیادہ ہیںلامحالہ جس کا بوجھ ادارے پر پڑتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں پی آئی اے پر یورپ اور امریکا کے لیے لگائی پابندیوں نے بھی پی آئی اے کی مشکلات میں اضافہ کیا جن کی وجہ سے ریونیو کا حصول بری طرح متاثر ہوا تاہم پی آئی اے انتظامیہ نے مارکیٹنگ کی موثر حکمت عملی سے نئے روٹ تلاش کیے اور اس کے نتیجہ میںگزشتہ ماہ میں چوبیس ارب روپے کا تاریخی ریونیو حاصل کیا گیا جو کہ ایئر لائن کا ریکارڈ ہے۔
پی آئی اے آپریشن کو رواں رکھنے کے لیے قرضہ جات کا حصول ایئر لائن پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ تقریباً چھ ارب روپے ماہانہ ایئر لائن کو سود کی مد میں ادائیگی کرنا پڑتا ہے لیکن پی آئی اے نے اپنی ادائیگیوں میں کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا۔ پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں شامل زیادہ طیارے پی آئی اے کی اپنی ملکیت ہیںکچھ طیارے لیز پر بھی حاصل کیے گئے جن کی لیز کی مد میں رقم باقاعدگی سے ادا کی جارہی ہے ۔
(جاری ہے)
آج یہ بات زبان زد عام اور چہ مگویاں کی جارہی ہیں کہ کیا پی آئی اے بند ہو جائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس نے پاکستانی مسافروں اور عملے کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے، یہ پاکستانی چاہے ملک میں رہتے ہوں یا بیرون ملک ۔ یہ خبریں یکایک میڈیا کی زینت کیوں بن گئیں؟ ان کی وجوہات کیا ہیں ؟ پی آئی اے زوال کا شکار کیسے ہوئی؟ ان وجوہات کی نشاندہی سے پہلے قومی ائرلائن کی چند بڑی کامیابیوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
پی آئی اے وہ پہلی بین الاقوامی ایئر لائن تھی جس کے طیارے نے بیجنگ ایئر پورٹ پر لینڈ کیا ۔ ایشیا میں جیٹ طیارے استعمال کرنے والی پہلی ایئر لائن بھی پی آئی اے ہی تھی۔ پاکستان میں کمپیوٹر متعارف کرانے کا سہرا بھی پی آئی اے کے سر ہی سجتا ہے۔
بوئنگ 777-LR کی پہلی خریدار بھی پی آئی اے ہی تھی۔ اس کے کیبن کریو کی یونیفارم پیرس سے ڈیزائن کرائی جاتی اور ڈیزانر اسے اپنے لیے قابل فخر سمجھتے تھے۔
دنیا کے تمام براعظموں کے قابل ذکر شہروں جن کی تعداد 80 کے قریب تھی کے لیے پی آئی اے کے طیارے روزانہ کی بنیاد پر اڑا ن بھرتے تھے۔اس وقت پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں پچاس طیارے شامل تھے۔ پھر کیا وجہ ہو ئی بلند پرواز ایئر لائن کا فضائی آپریشن سکڑ کر 25 بین الاقوامی مقامات تک محدود ہو گیا۔
تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے مگر اصل وجوہات تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ بدانتظامی، سرکاری عدم دلچسپی یا اس کی ترجیح نہ ہونا پی آئی اے کا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، پی آئی اے ہے نے اپنی کمائی سے پیرس اور نیویارک میں بڑے ہوٹل خریدے جو آج بھی اس کی ملکیت ہیں اور ان پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ پاکستان میں ہوٹل انڈسٹری کی بنیاد بھی پی آئی اے کی مرہون منت ہے ، پی آئی اے کے ملکیتی ہوٹلز کی ضیاء الحق دور میں نجکاری کی گئی۔
پاکستان کی مختلف حکومتوں نے پی آئی اے کو وسعت دینے کے بجائے غیر ملکی ایئر لائنزکو پاکستان کے لیے لامحدود پروازوں کی اجازت دے دی، پی آئی اے کو نئے طیارے خریدنے کے لیے سرکاری معاونت کرنے کے بجائے جہاز کرائے پر لینے کا راستہ اپنایا گیا۔
پی آئی اے پاکستان کے شمالی مغربی علاقہ جات اور مکران کوسٹ ایریاز کے لیے بھی پروازیں آپریٹ کر رہی ہے جہاں روڈ نہیں ہیں، اگر ہیں تو انتہائی خستہ حال ہیں ، یہ تمام فضائی آپریشن مکمل خسارے کا سودا ہے۔ نجی ایئر لائن بھی ان سیکٹرز کے لیے پروازیں نہیں چلاتی ۔ یہ تمام تر بوجھ بطور قومی ذمے داری پی آئی اے خود برداشت کرتی ہے۔
قومی ایئر لائن کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہے اور جس ملک کے ایک کروڑ سے زائد شہری بیرون ملک مقیم ہوں، اس ملک کی قومی ایئر لائن کے لیے ریونیو کا حصول کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن پی آئی اے کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ فضائی بیڑے میں طیاروں کے اضافے کے بجائے بتدریج کمی ہوتی گئی۔
طیاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے فضائی سروس بند کرنا پڑ گئی، یوں خلا غیر ملکی ایئر لائنوں نے پورا کردیا جب کہ پی آئی اے کے ذریعے جو زرمبادلہ قومی خزانے میں آتا تھا، وہ بند ہو گیا یا اس میں کمی ہو گئی۔
جن مقامات کے لیے پی آئی اے نے اپنی پروازیں بند کیں، وہاں کے لیے غیر ملکی ایئر لائنز نے اپنی پروازوں کے کرایوں میں ہوشرباء اضافہ کر دیا، دراصل کسی بھی ملک کی قومی ایئر لائن اس ملک کے لیے فضائی آپریشن کے کرایوں میں مسابقت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نجی ایئر لائنز بین الاقوامی پروازوں کی اجازت ملتی ہے تو وہ اندرون ملک پروازیں بند کر دیتی ہیں کیونکہ یہ فیزیبل نہیں ہوتی اور منافع بخش بین الاقوامی روٹس پر پروازیں شروع کر دیتی ہیں لیکن پی آئی اے بطور قومی ایئر لائن خسارے کے باوجود بھی اپنا اندرون ملک فضائی آپریشن جاری رکھتی ہے۔
اس وقت قومی ایئر لائن کومالی مشکلات کا سامنا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ فضائی بیڑے میں جدید طیاروں کی شمولیت کا نہ ہونا ہے، اگرماضی میں حکومتوں کی جانب سے طیاروں کی خریداری کے لیے بروقت فیصلے کر لیے جاتے تو یہ صورتحال نہ بنتی ۔ پی آئی اے کونئے طیاروں کی خریداری کے لیے حکومتی سپورٹ نہ مل سکی اور فضائی بیڑے میں موجود پرانے طیاروں سے ہی کام چلایا گیا۔
پرانے طیاروں کی مینٹینس کے اخراجات زیادہ ہیںلامحالہ جس کا بوجھ ادارے پر پڑتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں پی آئی اے پر یورپ اور امریکا کے لیے لگائی پابندیوں نے بھی پی آئی اے کی مشکلات میں اضافہ کیا جن کی وجہ سے ریونیو کا حصول بری طرح متاثر ہوا تاہم پی آئی اے انتظامیہ نے مارکیٹنگ کی موثر حکمت عملی سے نئے روٹ تلاش کیے اور اس کے نتیجہ میںگزشتہ ماہ میں چوبیس ارب روپے کا تاریخی ریونیو حاصل کیا گیا جو کہ ایئر لائن کا ریکارڈ ہے۔
پی آئی اے آپریشن کو رواں رکھنے کے لیے قرضہ جات کا حصول ایئر لائن پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ تقریباً چھ ارب روپے ماہانہ ایئر لائن کو سود کی مد میں ادائیگی کرنا پڑتا ہے لیکن پی آئی اے نے اپنی ادائیگیوں میں کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا۔ پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں شامل زیادہ طیارے پی آئی اے کی اپنی ملکیت ہیںکچھ طیارے لیز پر بھی حاصل کیے گئے جن کی لیز کی مد میں رقم باقاعدگی سے ادا کی جارہی ہے ۔
(جاری ہے)