درویشِ کُتب پرور
فروغِ کتاب کے لیے کام کرنے والوں کا جب بھی تذکرہ کیا جائے گا تو اُن میں صوفی صاحب کا ذکر نمایاں ہوگا
عشق جب حد سے گزر جاتا ہے تو جنون میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہمارے ممدوح صوفی مقصود حسین اویسی کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا۔ کتاب کے ساتھ دوستی کے رشتہ نے اُن کی کایا ہی پلٹ دی۔صوفی مقصود حسین اویسی نوشاہی 12 مئی 1956 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔
1965 تک ابتدائی بنیادی تعلیم ملتان ہی میں حاصل کی۔ آپ کے والد حاجی محمد شریف کا تعلق ہوشیار پور انڈیا سے تھا، جو پیشہ کے اعتبار سے کشیدہ کار تھے، وہ 1965 میں اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے مستقل طور پر کراچی شفٹ ہو گئے۔
صوفی صاحب نے بھی والد کی سرپرستی میں کشیدہ کاری کا کام سیکھا اور اسے ہی ذریعہ معاش بنایا۔ اس کے بعد وہ پروف ریڈنگ کے شعبہ سے وابستہ ہوگئے، کچھ کتب اور مجلے بھی شائع کیے۔ آج کل کراچی کے ایک مشہور دینی ادارے کے انتظامی معاملات کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
اُن کا اپنا ذاتی دارالمطالعہ ہے جس میں ہزار ہا نادرونایاب کتب ورسائل شامل ہیں جس کو انھوں نے ''فیض رضا لائبریری''کے نام سے موسوم کیا ہوا ہے۔ وہ ملک بھر کے علما و مشائخ، محققین اور ریسرچرزکو مطلوبہ کتب بلا معاوضہ تحفتاً فراہم کرتے ہیں۔ نعتیہ کتب سے صوفی صاحب کو قلبی لگاؤ ہے۔
2010 میں انھوں نے سید صبیح الدین صبیح رحمانی کے قائم کردہ ادارے ''نعت ریسرچ سینٹر '' کو 167 گراں قدر کتب کا عطیہ دیا۔کتابوں کے ساتھ اُن کے جنون کی حد تک عشق کی وجہ سے اُنہیں '' سفیرِ کُتب'' اور ''جہانیاں جہاں گشت'' کے القاب سے نوازا گیا ہے۔صوفی صاحب اخلاص کا پیکر ہیں اور لوگوں سے بے لوث ملتے ہیں۔کتابوں کا منوں بوجھ اُٹھا کر اہلِ ذوق علماء کے کُتب خانوں میں پہنچاتے ہیں، بعض اوقات قیمتی کُتب خود خرید کر پیش کرتے ہیں۔
اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر سید محمد عارف (بہاولپور) نے 2012 میں ''جہانیاں جہاں گشت'' کے عنوان سے صوفی صاحب پر لکھی گئی تحریروں کو یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا۔
صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ سال میں دو تین بار کراچی سے لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، حسن ابدال، جہلم، گجرات، شرق پور، ساہن پال، ہری پور، اوچ شریف، ایبٹ آباد، کشمیر، حویلیاں، سوات، مینگورہ، جہانیاں، علی پور سیداں، کوٹلی، نارو وال، بصیر پور سے کوئٹہ اور پشاور تک سفر کرتے ہیں، علماء و مشائخ سے ملتے ہیں اور اُنہیں نایاب کتب پیش کرتے ہیں۔
1997 سے اُن کا یہ سفر اللہ رب العزت کے کرم سے تا حال جاری ہے اور آج یہی اُن کی شناخت و پہچان ہے۔صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ انھوںنے ہزاروں مذہبی کتب کے ساتھ دیگر علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کی فراہمی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا اور اپنی پوری کوشش کی کہ ضرورت مند کو اُس کی مطلوبہ کتاب بلامعاوضہ مل جائے۔ صوفی صاحب اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد کتب تقسیم کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر سید محمد عارف نے آپ کے تعارف اور خدمات کو ایک مختصر کتابچہ '' جہانیاں جہاں گشت'' میں یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔
'' جہانیاں جہاں گشت'' کی پہلی تقریبِ رونمائی دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں علامہ جمیل احمد نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی جہاں علامہ نعیمی نے فرمایا تھا کہ صوفی صاحب نے فروغِ کُتب میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔انھوںنے اپنے خرچے سے ہزاروں دینی، اصلاحی اور ادبی کتب نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک کے اہلِ علم حضرات کو تحفتاً پیش کیں۔
صوفی صاحب کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب حضرت ابراہیم شاہ وارثی ٹرسٹ کے تحت آرٹس کونسل کراچی میں بھی منعقد ہوئی تھی جس میں اکادمی ادبیات پاکستان کے آغا نور محمد پٹھان، شیخ زید اسلامک ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر نور احمد شاہتاز، پروفیسر دلاور خان نوری، ڈاکٹر شہزاد احمد، حاجی حنیف طیب، مولانا جاوید اقبال مظہری و دیگر نے شرکت کی تھی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کی جانب سے اُنہیں یادگاری ایوارڈ 2012 سے بھی نوازا گیا۔
صوفی صاحب کی خدمات کے پیشِ نظر پاکستان اسلامک فورم کے سرپرستِ اعلیٰ سابق قائم مقام وزیرِ اعلیٰ سندھ مرحوم الحاج شمیم الدین نے پاکستان ہاؤس میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا تھا جس کی صدارت تحریکِ پاکستان کے رہنما مرحوم آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ نے کی تھی اور کہا تھا کہ صوفی صاحب کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اہلِ علم کو مفت کتابیں تقسیم کرنے میں گزارا ہے۔صوفی صاحب کتابوں کی خدمت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اُن کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔اِس کے علاوہ صوفی صاحب کی کتاب دوستی اور بے لوث خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں اور بھی بہت سے اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کتابوں کی اہمیت اور اُن کی حیثیت، عظمت اور افادیت ہر زمانہ میں مسلم رہی ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے کتابوں کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور جن کے عظیم کارناموں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
آج ہمارے معاشرے میں کتاب کلچر ختم ہورہا ہے۔ کتاب کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے مگر اِس کے باوجود اہمیت کتاب کو ہی حاصل ہے وہ کم نہیں ہوئی۔
فروغِ کتاب کے لیے کام کرنے والوں کا جب بھی تذکرہ کیا جائے گا تو اُن میں صوفی صاحب کا ذکر نمایاں ہوگا بالکل اِسی طرح جس طرح ماضی کی دہلی میں خواجہ حسن نظامی کا ہوتا ہے جو سر پر کتابوں کی گٹھری رکھ کر ہر دروازے پر دستک دیتے اور لوگوں کو کتابوں کی طرف راغب کرتے تھے۔
صوفی مقصود حسین اویسی درویش صفت اور حلیم الطبع ہی نہیں بلکہ درویش صورت انسان بھی ہیں۔ آپ کی علم دوستی کا یہ حال ہے جہاں خود نہیں پہنچ سکتے وہاں ڈاک سے کتب بھجوا کر اپنی کتاب دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔
1965 تک ابتدائی بنیادی تعلیم ملتان ہی میں حاصل کی۔ آپ کے والد حاجی محمد شریف کا تعلق ہوشیار پور انڈیا سے تھا، جو پیشہ کے اعتبار سے کشیدہ کار تھے، وہ 1965 میں اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے مستقل طور پر کراچی شفٹ ہو گئے۔
صوفی صاحب نے بھی والد کی سرپرستی میں کشیدہ کاری کا کام سیکھا اور اسے ہی ذریعہ معاش بنایا۔ اس کے بعد وہ پروف ریڈنگ کے شعبہ سے وابستہ ہوگئے، کچھ کتب اور مجلے بھی شائع کیے۔ آج کل کراچی کے ایک مشہور دینی ادارے کے انتظامی معاملات کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
اُن کا اپنا ذاتی دارالمطالعہ ہے جس میں ہزار ہا نادرونایاب کتب ورسائل شامل ہیں جس کو انھوں نے ''فیض رضا لائبریری''کے نام سے موسوم کیا ہوا ہے۔ وہ ملک بھر کے علما و مشائخ، محققین اور ریسرچرزکو مطلوبہ کتب بلا معاوضہ تحفتاً فراہم کرتے ہیں۔ نعتیہ کتب سے صوفی صاحب کو قلبی لگاؤ ہے۔
2010 میں انھوں نے سید صبیح الدین صبیح رحمانی کے قائم کردہ ادارے ''نعت ریسرچ سینٹر '' کو 167 گراں قدر کتب کا عطیہ دیا۔کتابوں کے ساتھ اُن کے جنون کی حد تک عشق کی وجہ سے اُنہیں '' سفیرِ کُتب'' اور ''جہانیاں جہاں گشت'' کے القاب سے نوازا گیا ہے۔صوفی صاحب اخلاص کا پیکر ہیں اور لوگوں سے بے لوث ملتے ہیں۔کتابوں کا منوں بوجھ اُٹھا کر اہلِ ذوق علماء کے کُتب خانوں میں پہنچاتے ہیں، بعض اوقات قیمتی کُتب خود خرید کر پیش کرتے ہیں۔
اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر سید محمد عارف (بہاولپور) نے 2012 میں ''جہانیاں جہاں گشت'' کے عنوان سے صوفی صاحب پر لکھی گئی تحریروں کو یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا۔
صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ سال میں دو تین بار کراچی سے لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، حسن ابدال، جہلم، گجرات، شرق پور، ساہن پال، ہری پور، اوچ شریف، ایبٹ آباد، کشمیر، حویلیاں، سوات، مینگورہ، جہانیاں، علی پور سیداں، کوٹلی، نارو وال، بصیر پور سے کوئٹہ اور پشاور تک سفر کرتے ہیں، علماء و مشائخ سے ملتے ہیں اور اُنہیں نایاب کتب پیش کرتے ہیں۔
1997 سے اُن کا یہ سفر اللہ رب العزت کے کرم سے تا حال جاری ہے اور آج یہی اُن کی شناخت و پہچان ہے۔صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ انھوںنے ہزاروں مذہبی کتب کے ساتھ دیگر علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کی فراہمی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا اور اپنی پوری کوشش کی کہ ضرورت مند کو اُس کی مطلوبہ کتاب بلامعاوضہ مل جائے۔ صوفی صاحب اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد کتب تقسیم کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر سید محمد عارف نے آپ کے تعارف اور خدمات کو ایک مختصر کتابچہ '' جہانیاں جہاں گشت'' میں یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔
'' جہانیاں جہاں گشت'' کی پہلی تقریبِ رونمائی دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں علامہ جمیل احمد نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی جہاں علامہ نعیمی نے فرمایا تھا کہ صوفی صاحب نے فروغِ کُتب میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔انھوںنے اپنے خرچے سے ہزاروں دینی، اصلاحی اور ادبی کتب نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک کے اہلِ علم حضرات کو تحفتاً پیش کیں۔
صوفی صاحب کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب حضرت ابراہیم شاہ وارثی ٹرسٹ کے تحت آرٹس کونسل کراچی میں بھی منعقد ہوئی تھی جس میں اکادمی ادبیات پاکستان کے آغا نور محمد پٹھان، شیخ زید اسلامک ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر نور احمد شاہتاز، پروفیسر دلاور خان نوری، ڈاکٹر شہزاد احمد، حاجی حنیف طیب، مولانا جاوید اقبال مظہری و دیگر نے شرکت کی تھی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کی جانب سے اُنہیں یادگاری ایوارڈ 2012 سے بھی نوازا گیا۔
صوفی صاحب کی خدمات کے پیشِ نظر پاکستان اسلامک فورم کے سرپرستِ اعلیٰ سابق قائم مقام وزیرِ اعلیٰ سندھ مرحوم الحاج شمیم الدین نے پاکستان ہاؤس میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا تھا جس کی صدارت تحریکِ پاکستان کے رہنما مرحوم آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ نے کی تھی اور کہا تھا کہ صوفی صاحب کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اہلِ علم کو مفت کتابیں تقسیم کرنے میں گزارا ہے۔صوفی صاحب کتابوں کی خدمت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اُن کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔اِس کے علاوہ صوفی صاحب کی کتاب دوستی اور بے لوث خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں اور بھی بہت سے اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کتابوں کی اہمیت اور اُن کی حیثیت، عظمت اور افادیت ہر زمانہ میں مسلم رہی ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے کتابوں کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور جن کے عظیم کارناموں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
آج ہمارے معاشرے میں کتاب کلچر ختم ہورہا ہے۔ کتاب کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے مگر اِس کے باوجود اہمیت کتاب کو ہی حاصل ہے وہ کم نہیں ہوئی۔
فروغِ کتاب کے لیے کام کرنے والوں کا جب بھی تذکرہ کیا جائے گا تو اُن میں صوفی صاحب کا ذکر نمایاں ہوگا بالکل اِسی طرح جس طرح ماضی کی دہلی میں خواجہ حسن نظامی کا ہوتا ہے جو سر پر کتابوں کی گٹھری رکھ کر ہر دروازے پر دستک دیتے اور لوگوں کو کتابوں کی طرف راغب کرتے تھے۔
صوفی مقصود حسین اویسی درویش صفت اور حلیم الطبع ہی نہیں بلکہ درویش صورت انسان بھی ہیں۔ آپ کی علم دوستی کا یہ حال ہے جہاں خود نہیں پہنچ سکتے وہاں ڈاک سے کتب بھجوا کر اپنی کتاب دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔