انوکھی سیاست انوکھی کہانی

یہ ملک ایک مفاد گاہ بن چکا ہے، جہاں اگر کسی کے مفاد کو ذرا بھی ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ سڑکوں پر نکل جاتا ہے ۔


یہ ملک ایک مفاد گاہ بن چکا ہے، جہاں اگر کسی کے مفاد کو ذرا بھی ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ سڑکوں پر نکل جاتا ہے۔ فوٹو فائل

حضرت جی! یہ پاکستان ہے جہاں آج کی بڑی بر ینکنگ نیوز یہ ہے کہ کرکٹر عمر اکمل نے اپنی شیروانی 50 ہزار میں بنوائی ، الطاف بھائی نے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کا مطالبہ کر دیا،زرداری بلاول سے ناراض ہو گئے، سائیں قائم علی شاہ 80 برس کے ہوگئے ، بڑے میاں چھوٹے میاں پر برس پڑے ۔ ابھی خبریں اور بھی ہیں اچھو قصائی کا کٹا مر گیا تو اس نے گوشت کی ہڑتال کر دی۔ مو دھے دودھی کی نئی نویلی بھینس مر گئی تو اس نے احتجاج کے طور پر دودھ میں پانی کی مقدار زیادہ کر دی۔ بائو مرغیوں والے کی مرغی چوری ہو گئی ہے تو اس نے انڈوں کی سپلائی بند کردی۔ پٹھان کی نسوار گم ہو گئی اور اس نے الزام پنجابی پر لگا دیا۔

حضور ! اس ملک میں وہ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو کبھی کسی دوسرے ملک میں نہ سنی اور نہ دیکھی گئیں۔ اب لفظ احتجاج کو ہی لے لیں آپ اس کے بارے میں سنتے ہی ہوں گے لیکن ہمارے ملک میں احتجاج ذرا ہٹ کر ہوتا ہے۔ مثلا ہمارے ملک میں ہر 6 ماہ بعد خان صاحب کی سونامی آجاتی ہے ۔اور وہ مہنگائی ، کرپشن اور لوڈشیڈنگ کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کا وعدہ کرتی ہے لیکن کچھ وقت کے بعد یہ سونامی خود ہی غائب ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد قادری صاحب کا کنٹینر کینیڈا سے آتا ہے اس کے اندر سے ہی جناب قادری صاحب انقلاب، انقلاب کا شور مچا تے ہوئے برآمد ہوتے ہیں ۔ ایک دو مہینے اسی طرح گرما گرم گزرتے ہیں پھر یہ کنٹینر گلی ،محلوں کے بچوں لیے ایک کھلونا بن جاتا ہے اور انقلاب صر ف دیواروں پر ہی لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اور قادری صاحب خاموشی سے انقلابی ٹوپی کے اندر چندہ جمع کر پاکستان سے رخصت ہو کر کینڈا چلے جا تے ہیں اورپھر وڈیو لنک کے ذریعے ہی خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

سرکا ر یہ ملک دراصل ا حتجاج گاہ بن چکا ہے۔ اپوزیشن حکومت کے خلاف، وکیل ججوں کیخلاف، ملازم مہنگائی کے خلاف، کبھی مذہبی جماعتیں انڈیا کے خلاف تو کبھی امریکہ کے خلاف،کبھی ہم افغانستان کیخلاف اور کبھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے خلاف یا پھر کسی اور کے خلاف۔

سب کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ۔

آؤ سب مل کر دن رات کام کریں ،آنے والی نسلوں پر احسان کریں، اس ملک کی خاطر احتجاج کریں، اس ملک کو مہنگائی اور کرپشن سے پاک کریں، نا انصافی اور ظلم کے خلاف جنگ کریں اور پاکستانی ہونے کو حق ادا کریں۔ اور پاک فوج کو پیش سلام کریں۔

لیکن دل میں کچھ اور ہی کہتے ہیں۔

آؤ ذرا اس ملک کو بدنام کریں، بے چاری عوام کا سکون برباد کریں اور اپنے ہی لوگوں کا نقصان کریں۔ اور کسی اور کے مشن کو عام کریں۔

کنٹینرقادری صاحب کوہی دیکھیے!

آپ کہتے ہیں کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے ۔ ہمارے سب سے بڑے جمہوری ہمسایہ ملک بھارت میں بھی احتجاج ہوتا ہے ۔ٹھیک ہے اگر ہم اس کو مان بھی لیتے ہیں تو جناب قادری صاحب اگر آپکو کرپشن اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنا ہے توحضور آپ انا ہزارے سے ہی ذرا سبق سیکھیے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی اور بھوک ہڑتال کا کیمپ لگا کر حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ کرپشن کے خلاف قانون سازی کریں جبکہ وہ ایک سماجی کارکن تھا نہ کہ کوئی مذہبی رہنما یا سیاستدان۔ مگر سرکا ر آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ تو کبھی بند اور آرام دہ کنٹینر میں بیٹھ کر احتجاج کرتے ہیں کبھی کینیڈا کی ٹھنڈک میں بیٹھ کر عوام سے خطاب کرتے ہیں اورعوام بیچاری کو کبھی سردی اور کبھی گرمی میں ذلیل و خوار کرتے ہیں ۔ آپ تو نیک بندے ہیں کیا پتہ ہے آپ کو الہام ہو تا ہو کہ انقلاب کا کوئی موسم بھی ہو سکتا ہے گرمی بھی ہو سکتی ہے اور سردی بھی۔ لیکن علامہ صاحب انقلاب نہیں آیا ویسے بھی حضرت آپ نے انقلاب کا کرنا بھی کیا ہے آپکو رہنا تو کینیڈا میں ہی ہے نا۔

اب اپنے سونم خان صاحب کو ہی دیکھیے !

معاف کیجیے میرا مطلب ہے سونامی خان صاحب کو ہی دیکھیے جو بھارت کے اروند کیجر یوال کی طرح باربار نا انصافی اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتے ہیںاور حکومت کو سونامی سے ڈڑاتے ہیں۔ مگر سرکار جب اروند کیجریوال نے دیکھا کہ کانگرس اور بی جے پی کرپشن کے خلاف ان کے بل کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے تو انہوں نے وزارت اعلی سے ہی استعفی دے دیا ۔ اور اب ایک بار پھر وہ پورے جوش و خروش سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔عام عوام کی خاطر انہوں نے جوتے بھی کھائے اور گھونسے بھی مگر ہمت نہیں ہاری۔ لیکن محترم خان صاحب آپ کو ہر چیز میں دھاندلی ہی نظر آتی ہے کبھی کوئی آپ سے کہتا ہے کہ خان صاحب ڈرون نہیں رک رہے تو آپ کہتے اچھا سپر پاور کی سپلائی روک لیتے ہیں۔خان صاحب مجھے تو آپ کو دیکھ کر اپنے محلے کا بخشو یاد آگیا جو ہر کسی کے کہنے میں آگر کبھی کسی کا بھی رستہ روک لیتا ہے اور کبھی کسی کے گھر کے شیشے توڑ دیتا ہے ۔ اپنے گھر میں کچھ نہیں کرتا صرف دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔خان صاحب جن چیزوں کے خلاف آپ احتجاج کرنے نکلے ہیں پہلے وہ اپنی صوبائی حکومت میں تو دور کر یں ، اس کو مثال بنا کر پیش کریںاور بتا ئیں واقعی آپ کچھ کر سکتے ہیں محض نعروں و دھرنوں اور احتجاج کرنے سے تبدیلی نہیں آتی۔

دراصل یہ ملک ایک مفاد گاہ بن چکا ہے جہاں ہر کوئی اپنے اپنے مفاد ، مطلب اور فائدہ کے لیے کام کررہا۔ جس کے مفاد کو ذرا بھی ٹھیس پہنچتی ہے وہ سڑکوں پرآجاتا ہے ۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کے اس اقدام سے اس ملک کو کیا نقصان پہنچے گا، اس کی عزت دوسرے ملکوں کے سامنے بڑے گی یا کم ہو گی۔ فائدہ اپنا ہو گا یا دشمن کا۔ بہرحال یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا یہ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ ایک نا سمجھی اور نادانی ہے جس سے کسی کو کچھ حاصل نہ ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں