اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس اور غربت کے خلاف جنگ
ایک رپورٹ میں یہ تازہ تازہ انکشاف ہوا ہے کہ مزید دوکروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں
نئی صدی کا آغاز ہوچکا تھا اور اس آغاز کے فوراً بعد جلد ہی ستمبر 2000 کے اقوام متحدہ کے اجلاس میں یہ نقارہ بجا دیا گیا، دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا، اعلانات ہوتے رہے۔
اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقاریر ہوتی رہیں، جی سیون ممبران ممالک کے سربراہان اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے غربت کو للکارتے رہے، کتنے ہی لیڈروں نے اس بات کو یاد کیا جب 1974 میں، منیلا میں دنیا بھر کے وزرائے خوراک نے اکٹھے ہو کر دنیا کو یہ وعدہ دیا کہ ''آیندہ 10 سالوں میں کوئی بچہ بھوکا نہیں سوئے گا'' 20 سال بعد کوئی دنیا کے لیڈروں کی اس ناکامی کا اعتراف کرے یا نہ کرے لیکن بھوک کی جڑ غربت نے دنیا بھر میں اپنے شکنجے مضبوط کر دیے ہیں۔
مہنگائی نے اسے طاقتور بنا دیا ہے۔ لہٰذا نئی صدی کے آغاز پر ستمبر کے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں اس عزم و ارادے پالیسی کا متفقہ اعلان کر دیا گیا کہ '' غربت کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔'' ہر ملک اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ 2000 کا میلینیم گولزکی پالیسی واضح کر دی گئی۔ 2015 تک اہداف کے حصول کا تخمینہ لگا لیا گیا تھا۔ لیکن ستمبر 2001 سے دنیا نے کچھ اور ہی منظر دیکھا۔ یہ جنگ غریب مسلمان ملکوں کے خلاف ہونے لگی۔
افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور دیگر کئی مسلمان ملکوں کے غریب مسلمان مرنے لگے۔ فلسطین ہو یا کشمیر یا کوئی اور اسلامی ملک، بس وہاں کے مسلمان ہی مارے جانے لگے۔ پاکستان میں ہزاروں افراد دہشت گردی کے باعث شہید ہوتے چلے گئے۔
قصہ مختصر غربت تو نہ ماری جا سکی، غریب مسلمان ہی مارے جاتے رہے۔ پاکستان میں غریبوں کو مزید تنگ دست، مفلوک الحال، بھوک سے نڈھال کرنے کے لیے کچھ پاکستان دشمن طاقتوں نے آئی ایم ایف کی ڈھال کا استعمال کر ڈالا۔
اب یہ حال ہے کہ دنیا کے امیر ممالک میں پہلے بھی غربت تو نہ تھی البتہ کچھ غریب افراد تو تھے، لیکن مسلمان ملکوں کی اکثریت کی غربت ابھی تک ختم نہ ہو سکی۔ ان میں پاکستان اب سرفہرست آ چکا ہے کیونکہ ایک رپورٹ میں یہ تازہ تازہ انکشاف ہوا ہے کہ مزید دوکروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے بجلی، گیس کو نشانے پر لے لیا۔ بجلی کے نرخوں اور گیس نرخوں نے کارخانے بند کرانے شروع کر دیے لوگ بے روزگار ہوتے چلے گئے اور پاکستان میں غربت پروان چڑھتی رہی۔ لاکھوں افراد غربت کی کھائی میں گرتے چلے گئے۔
ملک میں معاشی ترقی کی رفتار سست ترین ہوکر رہ گئی۔ گھٹتے گھٹتے ملکی معاشی ترقی کی شرح کبھی ایک فی صد اور کبھی اس سے کم اور کبھی کچھ زیادہ پر آ کر رہ گئی۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے مہنگائی کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔
جہاں تک بجلی بلوں کی بات ہے گزشتہ دو ماہ سے اتنے بل آنے لگے ہیں کہ اب گھروں کے برتن بک رہے ہیں اور بل ادا ہو رہے ہیں۔ فرنیچر بیچے جا رہے ہیں اور بل ادا ہو رہے ہیں۔ لاہور سے لیے گئے ایک انٹرویو میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ بوڑھی اماں نے انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ میں نے محلے والوں سے چندہ اکٹھا کرکے اس ماہ کا بل ادا کیا ہے۔
میں نے کراچی پانی کے بل دیکھے ہیں جوکہ کچھ عرصہ قبل 700 روپے فی گھر آتا تھا اب وہ بل 1330 روپے کا آ رہا ہے۔ اس پر بھی بعض علاقوں سے پانی کے بل وصول کیے جا رہے ہیں لیکن کہیں پانی نہیں آتا اور واٹر ٹینکروں کی چاندی ہو رہی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اشیائے خوراک ادویات حتیٰ کہ ڈالر تک کے معاملے میں ملک میں ایسا کرپٹ سسٹم رائج ہو چکا تھا جسے توڑنے کے بارے میں کچھ عملی اقدامات نظر آ رہے ہیں۔
چھاپے مارے جا رہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ پہلے تو بے لگام ڈالر کی اونچی اڑان کو روکا گیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو ماہ سے چینی دو سو روپے کلو سے زائد پر فروخت ہو رہی تھی۔ گزشتہ حکومت نے خیال ظاہر کیا تھا کہ چونکہ چینی ایکسپورٹ کی گئی ہے تو دام بڑھ گئے۔ ملک میں آٹا، چاول، دال، گھی اور دیگر اشیائے خوراک و کپاس غرض یہ کہ ہر شے کے دام بڑھ گئے ہیں۔
ماہ جولائی میں فی کلو چاول 140 روپے سے 180 روپے تک دستیاب تھا، اب گزشتہ ماہ سے قیمت میں اضافہ ہوکر 180 روپے سے 240 روپے تک اور اس سے بھی زیادہ مہنگا بھی فروخت ہو رہا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایکسپورٹ آئٹم ہے۔ لہٰذا بڑی مقدار میں چاول برآمد کردیا جاتا ہے اور ملک میں قیمت بڑھ جاتی ہے۔ چاول وہ جنس ہے جسے طویل عرصے کے لیے ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ پرانے چاول اچھے ہوتے ہیں۔
حکومت وقت دیگر اشیا کے ساتھ چاول کی قیمتوں میں اضافے پر نظر رکھے اور اسی طرح دیگر اشیا اور چاول وغیرہ کی ذخیرہ گاہوں تک پہنچنے کی تگ و دو کو مزید تیز سے تیز تر کرے۔ اس طرح مہنگائی میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب کہا جا رہا ہے کہ مزید دو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں۔
آیندہ دو ماہ کے بعد پھر آئی ایم ایف کی طرف سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط، سوال پوچھنے کے طریقہ کار اور معیشت کے لیے کیے گئے فیصلوں سے مہنگائی کا عفریت آگ بگولا ہو جاتا ہے جس کی دھاڑ سے سہم کر لاکھوں افراد خوف زدہ ہوکر غربت کی کھائی میں گر جاتے ہیں۔ ماہرین نوحہ کناں ہیں کہ مزید دو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں، لہٰذا بات تو نہایت ہی قابل غور ہے کہ غربت کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے۔
اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقاریر ہوتی رہیں، جی سیون ممبران ممالک کے سربراہان اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے غربت کو للکارتے رہے، کتنے ہی لیڈروں نے اس بات کو یاد کیا جب 1974 میں، منیلا میں دنیا بھر کے وزرائے خوراک نے اکٹھے ہو کر دنیا کو یہ وعدہ دیا کہ ''آیندہ 10 سالوں میں کوئی بچہ بھوکا نہیں سوئے گا'' 20 سال بعد کوئی دنیا کے لیڈروں کی اس ناکامی کا اعتراف کرے یا نہ کرے لیکن بھوک کی جڑ غربت نے دنیا بھر میں اپنے شکنجے مضبوط کر دیے ہیں۔
مہنگائی نے اسے طاقتور بنا دیا ہے۔ لہٰذا نئی صدی کے آغاز پر ستمبر کے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں اس عزم و ارادے پالیسی کا متفقہ اعلان کر دیا گیا کہ '' غربت کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔'' ہر ملک اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ 2000 کا میلینیم گولزکی پالیسی واضح کر دی گئی۔ 2015 تک اہداف کے حصول کا تخمینہ لگا لیا گیا تھا۔ لیکن ستمبر 2001 سے دنیا نے کچھ اور ہی منظر دیکھا۔ یہ جنگ غریب مسلمان ملکوں کے خلاف ہونے لگی۔
افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور دیگر کئی مسلمان ملکوں کے غریب مسلمان مرنے لگے۔ فلسطین ہو یا کشمیر یا کوئی اور اسلامی ملک، بس وہاں کے مسلمان ہی مارے جانے لگے۔ پاکستان میں ہزاروں افراد دہشت گردی کے باعث شہید ہوتے چلے گئے۔
قصہ مختصر غربت تو نہ ماری جا سکی، غریب مسلمان ہی مارے جاتے رہے۔ پاکستان میں غریبوں کو مزید تنگ دست، مفلوک الحال، بھوک سے نڈھال کرنے کے لیے کچھ پاکستان دشمن طاقتوں نے آئی ایم ایف کی ڈھال کا استعمال کر ڈالا۔
اب یہ حال ہے کہ دنیا کے امیر ممالک میں پہلے بھی غربت تو نہ تھی البتہ کچھ غریب افراد تو تھے، لیکن مسلمان ملکوں کی اکثریت کی غربت ابھی تک ختم نہ ہو سکی۔ ان میں پاکستان اب سرفہرست آ چکا ہے کیونکہ ایک رپورٹ میں یہ تازہ تازہ انکشاف ہوا ہے کہ مزید دوکروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے بجلی، گیس کو نشانے پر لے لیا۔ بجلی کے نرخوں اور گیس نرخوں نے کارخانے بند کرانے شروع کر دیے لوگ بے روزگار ہوتے چلے گئے اور پاکستان میں غربت پروان چڑھتی رہی۔ لاکھوں افراد غربت کی کھائی میں گرتے چلے گئے۔
ملک میں معاشی ترقی کی رفتار سست ترین ہوکر رہ گئی۔ گھٹتے گھٹتے ملکی معاشی ترقی کی شرح کبھی ایک فی صد اور کبھی اس سے کم اور کبھی کچھ زیادہ پر آ کر رہ گئی۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے مہنگائی کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔
جہاں تک بجلی بلوں کی بات ہے گزشتہ دو ماہ سے اتنے بل آنے لگے ہیں کہ اب گھروں کے برتن بک رہے ہیں اور بل ادا ہو رہے ہیں۔ فرنیچر بیچے جا رہے ہیں اور بل ادا ہو رہے ہیں۔ لاہور سے لیے گئے ایک انٹرویو میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ بوڑھی اماں نے انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ میں نے محلے والوں سے چندہ اکٹھا کرکے اس ماہ کا بل ادا کیا ہے۔
میں نے کراچی پانی کے بل دیکھے ہیں جوکہ کچھ عرصہ قبل 700 روپے فی گھر آتا تھا اب وہ بل 1330 روپے کا آ رہا ہے۔ اس پر بھی بعض علاقوں سے پانی کے بل وصول کیے جا رہے ہیں لیکن کہیں پانی نہیں آتا اور واٹر ٹینکروں کی چاندی ہو رہی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اشیائے خوراک ادویات حتیٰ کہ ڈالر تک کے معاملے میں ملک میں ایسا کرپٹ سسٹم رائج ہو چکا تھا جسے توڑنے کے بارے میں کچھ عملی اقدامات نظر آ رہے ہیں۔
چھاپے مارے جا رہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ پہلے تو بے لگام ڈالر کی اونچی اڑان کو روکا گیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو ماہ سے چینی دو سو روپے کلو سے زائد پر فروخت ہو رہی تھی۔ گزشتہ حکومت نے خیال ظاہر کیا تھا کہ چونکہ چینی ایکسپورٹ کی گئی ہے تو دام بڑھ گئے۔ ملک میں آٹا، چاول، دال، گھی اور دیگر اشیائے خوراک و کپاس غرض یہ کہ ہر شے کے دام بڑھ گئے ہیں۔
ماہ جولائی میں فی کلو چاول 140 روپے سے 180 روپے تک دستیاب تھا، اب گزشتہ ماہ سے قیمت میں اضافہ ہوکر 180 روپے سے 240 روپے تک اور اس سے بھی زیادہ مہنگا بھی فروخت ہو رہا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایکسپورٹ آئٹم ہے۔ لہٰذا بڑی مقدار میں چاول برآمد کردیا جاتا ہے اور ملک میں قیمت بڑھ جاتی ہے۔ چاول وہ جنس ہے جسے طویل عرصے کے لیے ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ پرانے چاول اچھے ہوتے ہیں۔
حکومت وقت دیگر اشیا کے ساتھ چاول کی قیمتوں میں اضافے پر نظر رکھے اور اسی طرح دیگر اشیا اور چاول وغیرہ کی ذخیرہ گاہوں تک پہنچنے کی تگ و دو کو مزید تیز سے تیز تر کرے۔ اس طرح مہنگائی میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب کہا جا رہا ہے کہ مزید دو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں۔
آیندہ دو ماہ کے بعد پھر آئی ایم ایف کی طرف سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط، سوال پوچھنے کے طریقہ کار اور معیشت کے لیے کیے گئے فیصلوں سے مہنگائی کا عفریت آگ بگولا ہو جاتا ہے جس کی دھاڑ سے سہم کر لاکھوں افراد خوف زدہ ہوکر غربت کی کھائی میں گر جاتے ہیں۔ ماہرین نوحہ کناں ہیں کہ مزید دو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں، لہٰذا بات تو نہایت ہی قابل غور ہے کہ غربت کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے۔