کفایت شعاری کا مشورہ

حالیہ دور میں کم آمدنی والا کتنی ہی سادگی اختیار کرلے اس کےلیے حالات پریشان کن ہی رہتے ہیں


شیر محمد خان September 23, 2023
کم آمدنی میں خرچے ہی پورے نہیں ہوتے، بچت کا تو تصور بھی محال ہے۔ (فوٹو: فائل)

چند دن پہلے ایکسپریس اخبار میں ایک مشہور کالم نگار کی تحریر ''سادگی اور بچت'' نظر سے گزری، جس میں انھوں نے کفایت شعاری اپنانے کے ساتھ آمدنی کے اضافی ذرائع تلاش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔


فاضل کالم نگار کی نصیحتیں بجا، لیکن یوں لگتا ہے کہ محترم بہت سے حقائق دانستہ نظرانداز کرگئے، کیونکہ یہ وہ حقائق ہیں جن سے ہر آدمی واقف ہے، اس لیے کالم نگار کی بے خبری بھی نہیں کہہ سکتے۔ جب کہ مصنف نے سادگی کے حوالے سے جس دور کا تذکرہ کیا ہے، وہ حالات آج کے دور پر لاگو نہیں ہوسکتے، جبکہ مہنگائی کا تناسب حد درجہ تبدیل ہوچکا ہے۔


سادگی اور بچت دونوں ہی مثبت طرز زندگی کا حصہ ہیں لیکن حالیہ دور میں ایک کم آمدنی والا کتنی ہی سادگی اختیار کرلے اس کےلیے حالات پریشان کن ہی رہتے ہیں، اور بچت کا تو تصور ہی محال ہے۔ ایلیٹ کلاس کو چھوڑیے یہاں ہم متوسط طبقے کی ماہانہ آمدنی کی بات کرتے ہیں۔ روزانہ سات، آٹھ سو کی دیہاڑی پر مزدوری کرنے والے کو بھی چھوڑ دیجیے کیونکہ وہ پہلے ہی غربت کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔


کسی نجی ادارے میں چپڑاسی یا کلرک یا اسی طبقے کے کسی اور ملازم کی مثال لے لیجیے جو دس گھنٹے روزانہ سے زیادہ ڈیوٹی دیتا ہے، یا پھر کوئی چھوٹا دکاندار۔ اکثریت کی ماہانہ آمدنی یا تنخواہ بمشکل پچیس سے چالیس پچاس ہزار تک ہوتی ہے۔ دکانداروں اور اپنا کاروبار کرنے والوں کی آمدنی تو پھر بھی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے لیکن ملازمت پیشہ افراد کی ماہانہ آمدنی یکساں ہی رہتی ہے۔


اب ذرا بتائیے کہ ایک عام آدمی کے کچن کا خرچہ وہ بھی انتہائی کنجوسی اور ''کفایت شعاری'' کے ساتھ کم از کم بیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ تو بنتا ہی ہے۔ کھانے پکانے کے لیے گیس یا کسی اور ذریعے کا استعمال مزید خرچ بڑھاتا ہے۔ اس پر مستزاد اگر گھر کرائے کا ہو تو کم از کم دس ہزار روپے اسی مد میں درکار ہوتے ہیں، جبکہ شہر کے کچی آبادی والے علاقوں میں بھی اس سے کم کرایے پر گھر دستیاب نہیں۔ بجلی کا بل صرف ایک پنکھا اور دو بلب جلانے پر بھی کم از کم دو سے تین ہزار روپے آتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کرایوں کی مد میں پانچ ہزار الگ رکھ لیجیے، بچوں کے اسکول کی فیسیں الگ ہیں۔ بہت ہی زیادہ سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر کوئی صرف عید تہوار پر ہی اپنے اور بیوی بچوں کے کپڑے بناتا ہو، تب بھی سال میں صرف ایک بار کپڑے بنانے پر پندرہ، بیس ہزار خرچ ہوجاتے ہیں، اس طرح کپڑوں کی مد میں ہی ماہانہ اوسط دو ہزار رکھ لیجیے۔ کسی ناگہانی بیماری کی صورت میں ڈاکٹروں کی فیسیں اور دواؤں کا خرچ الگ ہے۔


خرچہ ساٹھ، ستر ہزار اور آمدن صرف تیس چالیس ہزار؟ غریب آدمی کہاں سے پورا کرے؟ آمدنی کے کون سے اضافی ذرائع تلاش کرے، جبکہ دن کے چوبیس گھنٹوں کا بیشتر حصہ وہ پہلے ہی محنت مزدوری کرنے اور جائے ملازمت تک پہنچنے کےلیے سفر میں خرچ کررہا ہے۔ یہ تخمینہ بھی ایسے گھرانے کا ہے جس میں صرف میاں بیوی اور دو بچے ہوں، جن گھرانوں میں افراد کی تعداد زیادہ اور کمانے والا صرف ایک ہو، تو سوچیے ان کا کیا حال ہوگا؟ ان کے اندر جو آتش فشاں اندر ہی اندر کھول رہا ہے اگر وہ ابل پڑا تو کیا ہوگا؟


مجھ کم عقل اور ناسمجھ نے تو اس پر بہت سوچا مگر کوئی جائز یا قانونی طریقہ نہیں سوجھ سکا، کیونکہ دس سے چودہ گھنٹے ایک کام کرنے کے بعد کوئی دوسرا کام یا ملازمت بھی کم از کم چار پانچ گھنٹے کی تو لازمی ہوگی۔ سولہ سے بیس گھنٹے کوئی ابتدا میں تو کام کر بھی لے گا لیکن مستقل ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ مستقل چلنے پر تو مشینیں بھی خراب ہوجاتی ہیں، یہ تو پھر بھی انسان ہیں۔


اب رہ گیا آمدنی بڑھانے کا صرف ایک طریقہ کہ دکاندار دو نمبر مال بیچے یا پھر کوئی اور غیر قانونی راہ اختیار کریں۔ فاضل کالم نگار کے پاس اگر کوئی مناسب راہ ہے تو لازمی ان لوگوں کی مدد کیجیے جو پاکستان کی آبادی کا نوے فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔


محترم کالم نگار کی ہدایت کے پیش نظر ہم نے اس تخمینے میں پٹرول کا خرچ شامل نہیں کیا کیونکہ پیدل چلنا چاہیے جو صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ اور پھر باہر جاکر چائے پینا یا کبھی کبھار دل کو بہلانے کےلیے باہر کھانا وغیرہ کھا لینا بھی شامل نہیں کیونکہ یہ بھی بے جا اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوگا۔ جب کہ یہ غریب تو بے چارے پھل وغیرہ بھی صرف دکانوں پر دیکھ کر فرض کرلیتے ہیں کہ کھا لیے، منہ سے نہ سہی آنکھوں سے ہی سہی۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں