پاک بھارت جنگ 1965…
آج 58 برسوں کے بعد بھی اسی پاک بھارت جنگ کا رعب و دبدبہ اور ضرب مومن کے نشان باقی ہیں
گزشتہ 5 ہزار برسوں میں کوئی 14500 ہزار جنگوں نے اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور ان جنگوں میں کوئی 4 بلین کے قریب انسان لقمہ اجل بنے، ان جنگوں میں سب سے لمبی جنگ برطانیہ اور فرانس کے درمیان 1337، 1952 لڑی گئی، اسی جنگ کو صد سالہ جنگ بھی کہا جاتا ہے اس کے بعد جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم بھی ہوئیں اور اسی طرح عرب اسرائیل جنگ بھی ہوئی مگر جس جنگ نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا وہ پاک بھارت جنگ تھی جو کہ 1965 میں ہوئی یہ جنگ بین الاقوامی سطح پر بڑی حیرت انگیز اور خوفناک جنگ تھی۔
یہ جنگ پیر کے دن 6 ستمبر کو بھارت نے طاقت کے گھمنڈ میں آ کر اچانک حملہ کرکے شروع کر دی تھی اس جنگ میں بھارت نے پاکستانی گاؤں اعوان شریف ( گجرات) پر سب سے پہلے جارحیت کی۔
جنرل فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے ریڈیو پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ کر پاک افواج کے حوصلے کو بڑھایا کہ '' کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو، اسے یہ پتا نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے'' اس جنگ میں سب سے پہلے جو شہید ہوئے، اس کا نام نائیک محمد شریف شہید ہے اور اس جنگ میں جو خاتون سب سے پہلے شہید ہوئیں اس کا نام عابدہ طوسی ہے۔
6 ستمبر 1965 کو جوں ہی بھارت نے اچانک پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستانی افواج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پہلے ہی دن بھارت کے 800 آٹھ سو فوجیوں کو جہنم واصل کیا اور یہی وہ جنگ ہے جس میں پاکستان کے نامور پائلٹ ایم ایم عالم نے صرف 2 منٹ میں 5 بھارتی طیارے مار گرائے، یہ ایم ایم عالم کا بین الاقوامی ریکارڈ تھا جو کہ آج تک قائم ہے۔ ایم ایم عالم نے اس جنگ میں کل گیارہ طیارے مار گرائے تھے۔
بھارت نے اچانک حملہ کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اس طرح پاکستان کو تگنی کا ناچ نچانے میں کامیاب ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہوا اور ہر محاذ پر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی رات میں دوسری طرف پاکستان بحریہ نے بھی زبردست حملہ کر کے بھارت کی ایک بڑی بندرگاہ دوارکا کو بالکل تباہ و برباد کردیا پھر اسی طرح پاک فوج کے بریگیڈیئر رشید شامی نے کھیم کرن کے محاذ پر بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کو خوب سبق پڑھایا اور انھیں تگنی کا ناچ نچایا۔
12 ستمبر 1965 کو بھارت نے 600 بھاری ٹینکوں کے ساتھ چونڈہ ( سیالکوٹ) کے محاذ پر اچانک زبردست حملہ کردیا تھا مگر چونڈہ کے محاذ کو پاکستانی فوج کے مجاہدین نے بھارتی ٹینکوں کا تاریخی اور عالمی قبرستان بنا دیا تھا۔ اس جنگ میں جنرل محمد موسیٰ بری فوج کی سربراہی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جن کا دامن آج تلک صاف و شفاف دکھائی دیتا ہے جب کہ ایئر مارشل نور خان فضائیہ کی سربراہی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے اور یوں وائس ایڈمرل اے آر خان بحریہ کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔
اس جنگ نے جس میں بھارت نے اپنے بے شمار سیکڑوں جدید ترین ٹینکوں سے پاکستان پر حملہ کرکے جنگ عظیم کی یاد تازہ کردی تھی اور پاکستان کے نوجوانوں نے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انھیں تباہ کرکے یہ ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان کو فتح کرنا بالکل ناممکن ہے اور یہ ساری دنیا میں ایک انوکھا کارنامہ تھا کہ پاک فوج کے مجاہدوں نے اپنے سینے سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کو نیست و نابود کر دیا تھا اور یوں ساری دنیا حیران اور پریشان ہو کے دیکھ رہی تھی کہ کمال ہے یہ انسان ہیں یا کیا ہیں۔
پاکستان کے اس کارنامے کو دیکھ کر ہی تو آج تک ساری دنیا کے جرنیل اور سربراہان کے دل میں یہ بات گھر کر چکی ہے کہ ہم لڑ کر پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔ اس لیے آج ساری دنیا کے کفار مل کر ہماری مملکت خداداد کی معاشی حالت پر کچوکے لگا رہے ہیں یہ جنگ ایسی صورتحال اختیار کر چکی تھی کہ اقوام متحدہ اور ساری دنیا کے کفار ممالک کے سربراہان حیرت زدہ ہوکر رہ گئے تھے کیونکہ بھارت نے تو یہ کہہ کر پاکستان پر حملے کی جسارت کی تھی کہ ہم ناشتہ لاہور میں کریں گے اور ڈنر پاکستان کی چھاؤنیوں میں کریں گے مگر یہ تو نقشہ ہی الٹا ہوتا نظر آ رہا تھا۔
اس دوران کئی برادر اسلامی ممالک نے بھی پاکستان کی نہ صرف مدد کی بلکہ پاکستان کی پشت پر کھڑے دکھائی دیے اور یوں ایران کے وزیر اعظم اور ترکی کے وزیر خارجہ پاکستان پہنچ گئے پھر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اوتھانٹ نے بھی انگڑائی لی اور اس نے محسوس کیا کہ اگر جنگ فوراً نہ روکی گئی تو پاکستان بھارت کا بھرکس نکال دے گا، لہٰذا اقوام متحدہ نے کفار والی شاطرانہ چال چلتے ہوئے جنگ بندی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا اور یوں 17 روزہ جنگ کو 23 ستمبر 1965 کو جنگ زبردستی بند کرا دی گئی کیونکہ اسی میں بھارت کی خیر تھی ورنہ پاکستانی فوج کے مجاہدین کا جنگی جذبہ اور جوش اور ولولہ قابل دید تھا۔
اس جنگ میں جو آخری فوجی شہید ہوا اس کا نام کیپٹن جرجیس ناگی تھا اس پاک بھارت جنگ میں بھارت کے 9500 فوجی جہنم واصل ہوئے اور پاکستان کے صرف 1033 سپاہی شہید ہوئے جب کہ ہمارے زخمیوں کی تعداد 2171 تھی جب کہ بھارت کے 11000 فوجی شدید زخمی ہوئے، 1700 سے زائد لاپتہ ہوگئے تھے اب یہ معلوم نہیں کہ وہ لاپتا کہاں گئے کہیں بھاگ گئے یا کہیں جان بچا کر چھپ گئے۔ اس پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے 165 ٹینک اور 14 طیارے تباہ ہوئے جب کہ بھارت کے 475 ٹینک اور 110 طیارے تباہ ہوئے۔
بھارت نے کثرت افواج و مال و زر کے نشے میں آ کر پاکستان پر حملہ کرنے کی جو غلطی کی تھی اس جنگ نے ساری عمر کے لیے بھارت کا نشہ ہرن کر دیا اور اب یہ پاکستان پر حملہ کرنے کی دوبارہ غلطی نہیں کرے گا، البتہ یہ بھارت اپنی ہندوانہ مکارانہ اور شاطرانہ سوچ سے باز نہیں آئے گا اور نت نئی سازشیں کرتا دکھائی دے گا کیونکہ یہ ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے کیونکہ ہندو مکاری اور شاطرانہ چال میں ہمیشہ شیش ناگ کی طرح ہمیں ڈستا رہے گا اور ہم اس کا مقابلہ صرف اور صرف صبر و تحمل، بردباری اور اپنے ایمان کے بھروسے سے کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا اور پکا اور کھرا مسلمان بنا کر اپنے تقویٰ سے اور اسی 6 ستمبر 1965 والے ایمانی جذبے سے مقابلہ کر سکتے ہیں جب بھارت کو اس جنگ میں ساری دنیا نے مار کھاتے ہوئے دیکھا تو روس جیسے ملک کے وزیر اعظم کوسیگن نے اپنے چہرے کے داغ کو دھونے کے لیے بھارت اور پاکستان کے سربراہوں کو روس بلایا اور یوں صدر محمد ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے مابین یکم جون تا 10 جنوری 1966 کو کھل کر وسیع پیمانے پر مذاکرات ہوئے 10 جنوری 1966 رات کے وقت تاشقند میں ایک مشترکہ اعلان پر دستخط ہوئے، اس مشترکہ اعلان کو ہی اعلان تاشقند کہا جاتا ہے دستخط کے بعد رات کو ہی لال بہادر شاستری کا اچانک انتقال ہوگیا۔
شنید ہے کہ بھارت سے بہت سے دیگر قومی رہنماؤں نے فون پر ان سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کر دیا بلکہ یہ بھی ہے کہ لال بہادر شاستری کی اپنی بیٹی نے ان سے فون پر بات کرنے سے بھی انکار کردیا تھا یوں ان پر دل کا دورہ پڑا بہرحال یہ پاک بھارت جنگ آج تک تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی ہوئی ہے اور اس جنگ نے تاریخ پر اور بھارت پر اور دنیائے کفار کے سربراہوں پر یہ تاریخ رقم کردی ہے کہ '' پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہیں جاسکتا'' اس جنگ میں میجر عزیز بھٹی شہید کو بھی ان کی خدمات پر نشان حیدر دیا گیا.
آج 58 برسوں کے بعد بھی اسی پاک بھارت جنگ کا رعب و دبدبہ اور ضرب مومن کے نشان باقی ہیں اور پاک بھارت جنگ آج بھی یہ کہہ رہی ہے کہ ہم اپنے اندر ایمانی جذبہ اور تقویٰ سے ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں اور اتحاد اور باہمی محبت کے چراغ روشن کرکے قومی جذبے کے ساتھ ساری دنیا سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔