شعیب صادق کی تخلیقات ناول اور افسانے

مصنف کے افسانوں کی زبان سادہ اور دل نشیں ہے، یہ بیانیہ افسانے ہیں، کہیں جھول یا ابہام کا شائبہ نظر نہیں آتا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

مجھے شعیب صادق کی کتابیں (افسانوی مجموعہ) '' نئی راہیں'' اور ناول ''دائرے کا سفر'' نسیم احمد شاہ ایڈووکیٹ کے توسط سے موصول ہوئیں۔ آج ان کتابوں کی تقریب اجرا ہے، میں اس موقع پر سب سے پہلے انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں اور پھر اس کے بعد ان کے افسانوں اور ناول پر بات کرنے کی کوشش کروں گی۔

مذکورہ مجموعے میں 16 کہانیاں موجود ہیں اور یہ کہانیاں معاشرتی حالات کی عکاس ہیں، ان کے کردار ہمارے اردگرد ہی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ جن کرداروں کو شعیب صادق نے اپنے افسانوں میں ڈھالا ہے، زیادہ تر وہ سادہ لوح، شریف النفس ہیں۔

مجموعے کی پہلی کہانی ایسی ہی ایک کہانی ہے۔ اس کہانی میں ایک خاندان بستا ہے، شہناز نامی خاتون ان کی دو بچیاں اور اس کا شوہر جوکہ آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز ہے، ٹیکسی ڈرائیور علی اصغر بھی نیک خصلت کا مالک ہے، کہانی کار نے آج کے دور کی شہناز اور اس کے شوہر کی معمولی سی نوک جھونک اور لڑائی جھگڑے کو کہانی کی شکل دی ہے۔

اتفاق سے جو دوسری کہانی میرے مطالعے میں آئی اس کا عنوان ہی ٹیکسی ڈرائیور ہے، لگتا ہے مصنف کو ٹیکسی میں سفر کرنے کے زیادہ مواقع میسر آئے ہیں اسی لیے انھوں نے باریک بینی سے سماجی حالات کا جائزہ لیا ہے۔

بے شک یہ کہانی زیادہ موثر اور توجہ طلب ہے، شعیب صادق نے پاکستانی ان مرد حضرات کا المیہ بیان کیا ہے جو دوسرے ملکوں میں رزق کے حصول کے لیے مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتے ہیں، ان کی زندگی زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی تگ و دو میں بسر ہوتی ہے، دن کا چین اور نہ رات کا آرام اور المیہ کہ ان کی بیگمات کی فرمائشیں بڑھتی چلی جاتی ہیں، بیوی پر ہی کیا دوش گھر کے تمام افراد دیار غیر میں نوکری کرنیوالے سے بے شمار امیدیں باندھ لیتے ہیں، کسی کو اس بے چارے کی جو کولہو کے بیل کی طرح صبح و شام جتا ہوا ہے، ہرگز فکر نہیں ہوتی۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، جہاں اس کا کام محنت و مشقت کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا شکار افسانے کا کلیدی کردار صدیق ہے۔ جو کام کرتے کرتے اپنے آپ کو جانور سمجھنے لگتا ہے۔ وہ جانور جو سامان ڈھوتا ہے اور سڑکوں پر موسموں کی پرواہ کیے بغیر دوڑتا ہے۔ مجموعے کی آخری کہانی '' دس ڈالر'' ہے۔ اس افسانے میں مدد کرنے کا جذبہ کارفرما ہے۔

مصنف کے افسانوں کی زبان سادہ اور دل نشیں ہے، یہ بیانیہ افسانے ہیں، کہیں جھول یا ابہام کا شائبہ نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ پیچ و خم اور تجسس کی فضا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے افسانوں کے بارے میں ڈاکٹر شاہین مفتی نے کہا کہ '' اس کتاب میں شامل کہانیاں متنوع موضوعات لیے ہوئے ہیں، علامتی افسانے سے واپسی کے سفرکا وہ اہم افسانہ نگار ہے جس کے ہاں افسانے میں کہانی لوٹ آئی ہے۔''

اب آتے ہیں ان کے ناول ''دائرے کا سفر'' کی طرف۔ شعیب صادق کا یہ پہلا ناول ہے لیکن پہلا ہونے کے ناتے بہت کامیاب اور کردار نگاری کے اعتبار سے موثر ہے، ''دائرے کا سفر'' میں اتنی طاقت ہے کہ یہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ عموماً میں ناول اور بعض طویل افسانے قسطوں میں پڑھ لیا کرتی ہوں لیکن اس کے برعکس کچھ تحریریں اس قدر دل کش اور پرکشش ہوتی ہیں کہ وہ اپنی انفرادیت کے باعث مکمل طور پر توجہ مبذول کرا لیتی ہیں، مذکورہ ناول کا شمار بھی ایسی ہی یادگار کتب میں ہوتا ہے۔


مصنف کے بارے میں محمد نعیم طلعت ہفت روزہ ''نوائے پاکستان'' کی رائے کے مطابق ہمارے ہاں عموماً جنسی آزادی و بے راہ روی کو انتہائی برا خیال کیا جاتا ہے اور ہم اس معاملے میں خیال کرتے ہیں کہ یورپ اور امریکا کا معاشرہ بہت آزاد ہے مگر یہ ہماری خام خیالی ہے کہ آزادی صرف وہاں ہی ہے، ہمارے ہاں بھی کام بہت آگے نکل چکا ہے۔''شعیب صادق نے مندرجہ بالا رائے کے مطابق اس آگے نکل جانے والے معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ ناول کی کہانی اور اس کے کردار مربوط ہیں۔

ناول کا بنیادی کردار امان اور اس کی بیوی لیلیٰ ہے۔ دونوں کی پسند کی شادی ہے۔ دس سالہ ازدواجی زندگی میں وہ اولاد سے محروم ہیں، لیکن انھیں اس بات کا دکھ یا محرومی ہرگز نہیں ہے۔ دونوں میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی بھی ہے لیکن اس کے باوجود وہ خیرکے راستے سے بھٹک جاتے ہیں، امان کی زندگی تو شادی سے پہلے بھی آزاد خیالی اور مغربی تہذیب کی بھینٹ چڑھ چکی تھی، اسی لیے جائز و ناجائز کاموں میں تفریق ختم ہو چکی تھی، جب کہ لیلیٰ کا تعلق بھی ایسے گھرانے سے تھا جہاں رشتے ناتوں سے کہیں زیادہ اہمیت دولت کی تھی۔

یہی سوچ رکھنے والی لیلیٰ کی والدہ لمحوں اور منٹوں میں لیلیٰ کی منگنی توڑ دیتی ہیں اور امان سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور کامیابی سمجھتی ہیں، لیلیٰ کی والدہ کے کردار جیسے لوگ ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر موجود ہیں جو اپنے فائدے کے لیے کسی کی بھی خوشیوں اور آرزوؤں کا خون کر سکتے ہیں۔ ناول میں لیلیٰ کی دوست اجالا کا کردار بھی سامنے آتا ہے۔

اجالا ایک جوان بیٹی ریشم کی ماں بھی ہے لیکن اپنی ذمے داریوں سے بے پرواہ اسی وجہ سے ریشم نے بے جا آزادی کو اپنا کر اپنے لیے اس راستے کا انتخاب کیا جہاں بربادی اسے اپنی آغوش میں سمانے کے لیے بے چین تھی۔ ناول میں انسپکٹر کامران، گلاب بائی، حکیم صاحب، خیبر پختونخوا اور سرحدی علاقے کے دو نوجوان ڈرائیور جو امان کے گھر میں ملازم تھے، یہ سب کردار ایسے ہیں جن کی گھریلو زندگی نمایاں نہیں ہے۔

ان سب کی سوچ اور خیالات ایک سے ہی ہیں، یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی کا ایک ہی مسئلہ ہے، وہ ہے بے راہ روی۔ لیلیٰ، اجالا، امان، ریشم اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے '' دائرہ انسانیت'' سے دور نکل گئی ہیں اور شرافت و اقدار کی دیواروں کو اپنے ہاتھوں مسمار کر دیتی ہیں۔ اسی طرح امان اپنی سیکریٹری مینا کے بلانے پر کھنچا چلا جاتا ہے۔ ان کرداروں کے برعکس انکل سلیم جوکہ امان کے ابا کے جگری دوست ہیں، نیکی اور بھلائی کا استعارہ بن کر سامنے آئے ہیں۔

دونوں شادی اور خواتین کے مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست پر بھی گفتگو کرتے ہیں، اور اس کے ساتھ ناول کی فضا پروان چڑھتی ہے اور دائرے کے سفر میں انگوٹھی کا سفر بھی شامل ہو جاتا ہے جو ہاتھوں ہاتھوں گردش کرتی ہوئی ایک ہار میں تبدیل کردی جاتی ہے۔ اختتامی سطور میں ہار شامل ہو جاتا ہے جو لیلیٰ کے گلے میں ہے۔ '' دائرے کا سفر'' مصنف کی بے باک تحریر کا مظہر ہے۔

آخر میں ایک دو جملوں کے ساتھ آپ سب سے اجازت چاہوں گی، وہ یہ کہ قلم کار کی تحریر کا جادو قاری کے اذہان کو کئی دنوں تک سحر میں مبتلا رکھتا ہے۔ اب لکھنے والے پر منحصر ہے کہ اس کی تحریر روشنی کی مانند ہو یا تاریکی کی طرح، قاری پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ بہرحال میں شعیب صادق کو مبارک باد اس دعا کے ساتھ پیش کرتی ہوں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

(تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)
Load Next Story