یہ موئی ’ چھوئی موئی ‘ اسکرین …
اب جدید موبائل فون کے سارے کے سارے ’ کمالات ‘ اس کے شیشے پر انجام دیے جانے لگے ہیں
ہمیں بعض مقامات پر دنیا کی ترقی کے سفر کے حوالے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے کچھ مخصوص دائروں ہی میں چلے چلا جا رہا ہے، جیسے اہم دستاویزات پر انگوٹھے ثبت کرنے سے لے کر دستخط اور پھر اب جدید طریقے سے دوبارہ انگوٹھے اور انگلیوں کے نشان حاصل کرنے تک کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔
بہت سے ضروری کاموں کے لیے اب دستخط سے زیادہ انگلیوں کے نشانات لینے کے ' جدید طریقے' رائج ہو چکے ہیں اور شناخت کے لیے یہ دستخط سے زیادہ معتبر بھی تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ ہمارے ہاتھ میں سما جانے والے جدید سے جدید تر ہونے والے موبائل فون کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ اِسے مختلف بٹنوں سے استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے شیشے پر ہاتھ لگانا معیوب اور ایک عجیب سا عمل محسوس ہوتا تھا کہ فضول میں شیشے کو چھوکر اسے خراب کررہے ہیں، لیکن صاحب، پھر وقت بدلا اور اس کی نئی شکل میں بٹن کا کردار محدود تر ہوگیا اور وہ فقط فون کے کناروں پر ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔
اب جدید موبائل فون کے سارے کے سارے ' کمالات ' اس کے شیشے پر انجام دیے جانے لگے ہیں، یعنی شیشے پر روشن نشانات کو باقاعدہ انگلی سے چھو چھو کر اسے استعمال کرتے جائیے۔
سچ پوچھیے تو ہمیں یہ عمل اچھا خاصا ' زہر' لگتا ہے، سب سے پہلے تو اس کی منطقی بات کر لیتے ہیں۔ وہ یہ کہ آپ نے چھو کر چلنے والا موبائل کیا ننھے منے بچوں کے لیے بنایا ہے؟ اگر نہیں، تو موبائل فون کے اس مختصر سے شیشے پر ابھرنے والے بٹن کے 'نشانات' اتنے چھوٹے چھوٹے سے کیوں ہوتے ہیں کہ اچھا بھلا انسان الجھ کر رہ جاتا ہے کہ لکھنا کیا تھا اور لکھا کیا جا رہا ہے!
بالخصوص برابر، برابر موجود حروف یا علامات لکھتے ہوئے یہ امر موبائل صارفین کے لیے نہایت ہی کوفت کا باعث ہوتا ہے۔ یہی نہیں بٹن میں تو ہمیں یہ سہولت تھی کہ ہم اپنی ضرورت اور منشا کے مطابق کوئی بھی کام کرنا چاہیں، تو بہت آسانی سے قصداً وہ بٹن دبا سکتے ہیں، لیکن یہاں 'چھوئی اسکرین' ( ٹچ اسکرین) کے سبب معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کرکچھ رہے ہوتے ہیں اور ہو کچھ اور جاتا ہے۔
جیسے کسی کو نہ چاہتے ہوئے کال یا پیغام چلے جانا تو اب بہت عام سی بات ہوگئی ہے اور کچھ نہیں تو بے دھیانی میں ذرا سا آپ کا ہاتھ چُوکا اور اسکرین پرکسی جگہ چھو گیا، تو اسکرین نے اس کو آپ کی منشا جان لیا اور آپ کو معلوم بھی نہ ہوا کہ فون میں کیا عمل رونما ہوگیا، موبائل سے کوئی اہم چیز مٹ گئی، ضایع ہوگئی یا پھر کوئی ترتیب بدل گئی، جس سے آپ کو مزید پریشانی اٹھانی پڑی۔
بالخصوص جب آپ ایسی ' ٹچ اسکرین ' پر کسی کا ' فیس بک' یا ' ٹوئٹر ' وغیرہ ٹٹول رہے ہوں! یقین کیجیے کہ یہ آپ کے لیے 'خطرات' سے نہایت پُر مرحلہ ہوتا ہے، کیوں کہ آپ بہت 'دبے قدموں' وہاں کی ساری 'صورت حال' کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں، ( اب ضروری تو نہیں ہے کہ کسی کی جاسوسی ہی مقصود ہو، ہم تو یہ مانتے ہیں کہ بھلا جو چیز ' فیس بک' جیسی کھلی جگہ پر موجود ہے، اسے دیکھنا تو کوئی جاسوسی نہیں ہے) تو جناب، ایسے میں آپ کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اسکرین کے اوپر انگلی پِھراتے پھِراتے نہ جانے کب کوئی چیز آپ کی انگلی کی جنبش کے سبب ' لائک ' ہوگئی، یا کسی کو 'دوستی' کی عرضی بھی روانہ ہوگئی، یا پھر جو افراد پہلے ہی آپ کے ' احباب فہرست ' میں شامل تھے، ان پرکوئی قدغن وغیرہ لگ گئی یا وہ سرے سے آپ کی فہرست ہی سے نکال باہر ہوگئے اورآپ سٹپٹائے یا وہ بھی نہیں ہوا، کہ آپ کو توکچھ خبر ہی نہیں ہوئی کہ آپ کے موبائل میں آپ ہی کے ہاتھوں کیا ہو چکا ہے۔
آپ غور کیجیے تو پورے موبائل پر پھیلی ہوئی یہ کیسی عجیب اسکرین ہے کہ آپ ٹھیک سے موبائل تھام بھی نہیں سکتے، اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل 'روشن' ہے، یعنی اس کی اسکرین جل رہی ہے اور آپ کا ہاتھ کہیں لگ گیا، تو پتا چلا کہ کوئی چیز چلنے لگی، اورکچھ نہیں تو کسی کو 'واٹس ایپ ' پر صوتی پیغام ارسال ہو گیا۔ آپ اپنے گھر یا دفتر وغیرہ میں بیٹھے ہوئے کسی سے کوئی بات کر رہے ہیں اور پتا چلا کہ وہ سب خود بخود ریکارڈ ہو کر آپ کے گروپ میں سارے محلے تک پہنچ بھی گئی۔ یہ مرحلہ کسی بھی فرد کے لیے بہت ہی زیادہ شرمندگی کا ہوتا ہے۔
ہم چوں کہ کاغذ قلم سے لکھنے کے 'زمانے' سے لکھ لکھا رہے ہیں، لیکن پھر وقت بدلا تو کمپیوٹر کے 'کی بورڈ' سے شناسائی ہوگئی اور ہم بڑی سہولت سے اس پر 'حالِ دل' رقم کرنے لگے، لیکن پتا نہیں یار لوگ کیسے طویل طویل تحریریں اس چند سینٹی میٹرکے 'بلاخیز' شیشے پر ٹھونگیں مار مار کر لکھ ڈالتے ہیں، ہمیں تو کوئی بہت مجبوری نہ ہو تو ہم اس تحریرکوکمپیوٹر پر بیٹھنے کے وقت تک کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، کیوں کہ اس میں ہمیں ہزار درجہ سہولت رہتی ہے، پھر 'کی بورڈ' پر لکھنے اور اس میں تدوین کرنے میں بھی کافی آسانی رہتی ہے، لیکن یہ 'چھوئی موئی' اسکرین، اس سے تو اللہ ہی بچائے، کہاں لکھیے، کیا لکھیے، کچھ قابو میں ہوتا ہے اور نہ کوئی اتا پتا... اس لیے ہم نے ابھی تک تو کچھ لکھنے کے لیے بہت ہی کسی مجبوری میں ہی اس جدید موبائل کی 'چھوئی اسکرین' کو استعمال کیا ہے۔
آپ خود ہی بتائیے، کہ یہ چھوئی موئی اسکرین کوئی سہولت ہے یا سراسر وبال جان! اگر کوئی اب بھی اسے سہولت کہتا ہے، تو صاحب یہ کیا خاک سہولت ہے کہ اسکرین پر ٹھونگیں مارے جائیے، مارے جائیے اور موبائل بھی ''سوچ سوچ کر'' اپنا ردعمل دے رہا ہو، اور ہمیں پتا بھی نہ چلے کہ آیا ہماری یہ دانستہ ' ٹھونگ' اسے 'پڑی' بھی ہے کہ نہیں اور ہم اُسے بار بار ٹھونگیں مارے چلے جائیں، اس میں ہمارا وقت تو کیا خاک بچتا، الٹا مزید کچھ لمحے ضایع ہو جائیں اور کوفت اس کے علاوہ ہو۔
یہی نہیں ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نے انگشت شہادت سے موبائل پر ٹھونگ کہیں ماری تھی، لیکن ایک دم اسکرین بدل گئی اور اس کے نتیجے میں وہ ' ٹھونگ' پڑ کہیں اور گئی، لیجی ے اور اپنے وقت کے ضیاع کا اور ''لطف'' لیجیے۔ اس لیے بھیا، ہم تو صَفا کہتے ہیں کہ ہمارے لیے تو موبائل فون کے وہ پرانے بٹن ہی بھلے تھے۔ اس لیے موبائل فون جدید ضرور ہونے چاہئیں، لیکن اس کے استعمال کی عملی صورت اور کارکردگی پر بھی تو کچھ توجہ دینی چاہیے کہ یہ مشکل ہے یا سراسر زحمت...!
بہت سے ضروری کاموں کے لیے اب دستخط سے زیادہ انگلیوں کے نشانات لینے کے ' جدید طریقے' رائج ہو چکے ہیں اور شناخت کے لیے یہ دستخط سے زیادہ معتبر بھی تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ ہمارے ہاتھ میں سما جانے والے جدید سے جدید تر ہونے والے موبائل فون کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ اِسے مختلف بٹنوں سے استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے شیشے پر ہاتھ لگانا معیوب اور ایک عجیب سا عمل محسوس ہوتا تھا کہ فضول میں شیشے کو چھوکر اسے خراب کررہے ہیں، لیکن صاحب، پھر وقت بدلا اور اس کی نئی شکل میں بٹن کا کردار محدود تر ہوگیا اور وہ فقط فون کے کناروں پر ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔
اب جدید موبائل فون کے سارے کے سارے ' کمالات ' اس کے شیشے پر انجام دیے جانے لگے ہیں، یعنی شیشے پر روشن نشانات کو باقاعدہ انگلی سے چھو چھو کر اسے استعمال کرتے جائیے۔
سچ پوچھیے تو ہمیں یہ عمل اچھا خاصا ' زہر' لگتا ہے، سب سے پہلے تو اس کی منطقی بات کر لیتے ہیں۔ وہ یہ کہ آپ نے چھو کر چلنے والا موبائل کیا ننھے منے بچوں کے لیے بنایا ہے؟ اگر نہیں، تو موبائل فون کے اس مختصر سے شیشے پر ابھرنے والے بٹن کے 'نشانات' اتنے چھوٹے چھوٹے سے کیوں ہوتے ہیں کہ اچھا بھلا انسان الجھ کر رہ جاتا ہے کہ لکھنا کیا تھا اور لکھا کیا جا رہا ہے!
بالخصوص برابر، برابر موجود حروف یا علامات لکھتے ہوئے یہ امر موبائل صارفین کے لیے نہایت ہی کوفت کا باعث ہوتا ہے۔ یہی نہیں بٹن میں تو ہمیں یہ سہولت تھی کہ ہم اپنی ضرورت اور منشا کے مطابق کوئی بھی کام کرنا چاہیں، تو بہت آسانی سے قصداً وہ بٹن دبا سکتے ہیں، لیکن یہاں 'چھوئی اسکرین' ( ٹچ اسکرین) کے سبب معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کرکچھ رہے ہوتے ہیں اور ہو کچھ اور جاتا ہے۔
جیسے کسی کو نہ چاہتے ہوئے کال یا پیغام چلے جانا تو اب بہت عام سی بات ہوگئی ہے اور کچھ نہیں تو بے دھیانی میں ذرا سا آپ کا ہاتھ چُوکا اور اسکرین پرکسی جگہ چھو گیا، تو اسکرین نے اس کو آپ کی منشا جان لیا اور آپ کو معلوم بھی نہ ہوا کہ فون میں کیا عمل رونما ہوگیا، موبائل سے کوئی اہم چیز مٹ گئی، ضایع ہوگئی یا پھر کوئی ترتیب بدل گئی، جس سے آپ کو مزید پریشانی اٹھانی پڑی۔
بالخصوص جب آپ ایسی ' ٹچ اسکرین ' پر کسی کا ' فیس بک' یا ' ٹوئٹر ' وغیرہ ٹٹول رہے ہوں! یقین کیجیے کہ یہ آپ کے لیے 'خطرات' سے نہایت پُر مرحلہ ہوتا ہے، کیوں کہ آپ بہت 'دبے قدموں' وہاں کی ساری 'صورت حال' کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں، ( اب ضروری تو نہیں ہے کہ کسی کی جاسوسی ہی مقصود ہو، ہم تو یہ مانتے ہیں کہ بھلا جو چیز ' فیس بک' جیسی کھلی جگہ پر موجود ہے، اسے دیکھنا تو کوئی جاسوسی نہیں ہے) تو جناب، ایسے میں آپ کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اسکرین کے اوپر انگلی پِھراتے پھِراتے نہ جانے کب کوئی چیز آپ کی انگلی کی جنبش کے سبب ' لائک ' ہوگئی، یا کسی کو 'دوستی' کی عرضی بھی روانہ ہوگئی، یا پھر جو افراد پہلے ہی آپ کے ' احباب فہرست ' میں شامل تھے، ان پرکوئی قدغن وغیرہ لگ گئی یا وہ سرے سے آپ کی فہرست ہی سے نکال باہر ہوگئے اورآپ سٹپٹائے یا وہ بھی نہیں ہوا، کہ آپ کو توکچھ خبر ہی نہیں ہوئی کہ آپ کے موبائل میں آپ ہی کے ہاتھوں کیا ہو چکا ہے۔
آپ غور کیجیے تو پورے موبائل پر پھیلی ہوئی یہ کیسی عجیب اسکرین ہے کہ آپ ٹھیک سے موبائل تھام بھی نہیں سکتے، اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل 'روشن' ہے، یعنی اس کی اسکرین جل رہی ہے اور آپ کا ہاتھ کہیں لگ گیا، تو پتا چلا کہ کوئی چیز چلنے لگی، اورکچھ نہیں تو کسی کو 'واٹس ایپ ' پر صوتی پیغام ارسال ہو گیا۔ آپ اپنے گھر یا دفتر وغیرہ میں بیٹھے ہوئے کسی سے کوئی بات کر رہے ہیں اور پتا چلا کہ وہ سب خود بخود ریکارڈ ہو کر آپ کے گروپ میں سارے محلے تک پہنچ بھی گئی۔ یہ مرحلہ کسی بھی فرد کے لیے بہت ہی زیادہ شرمندگی کا ہوتا ہے۔
ہم چوں کہ کاغذ قلم سے لکھنے کے 'زمانے' سے لکھ لکھا رہے ہیں، لیکن پھر وقت بدلا تو کمپیوٹر کے 'کی بورڈ' سے شناسائی ہوگئی اور ہم بڑی سہولت سے اس پر 'حالِ دل' رقم کرنے لگے، لیکن پتا نہیں یار لوگ کیسے طویل طویل تحریریں اس چند سینٹی میٹرکے 'بلاخیز' شیشے پر ٹھونگیں مار مار کر لکھ ڈالتے ہیں، ہمیں تو کوئی بہت مجبوری نہ ہو تو ہم اس تحریرکوکمپیوٹر پر بیٹھنے کے وقت تک کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، کیوں کہ اس میں ہمیں ہزار درجہ سہولت رہتی ہے، پھر 'کی بورڈ' پر لکھنے اور اس میں تدوین کرنے میں بھی کافی آسانی رہتی ہے، لیکن یہ 'چھوئی موئی' اسکرین، اس سے تو اللہ ہی بچائے، کہاں لکھیے، کیا لکھیے، کچھ قابو میں ہوتا ہے اور نہ کوئی اتا پتا... اس لیے ہم نے ابھی تک تو کچھ لکھنے کے لیے بہت ہی کسی مجبوری میں ہی اس جدید موبائل کی 'چھوئی اسکرین' کو استعمال کیا ہے۔
آپ خود ہی بتائیے، کہ یہ چھوئی موئی اسکرین کوئی سہولت ہے یا سراسر وبال جان! اگر کوئی اب بھی اسے سہولت کہتا ہے، تو صاحب یہ کیا خاک سہولت ہے کہ اسکرین پر ٹھونگیں مارے جائیے، مارے جائیے اور موبائل بھی ''سوچ سوچ کر'' اپنا ردعمل دے رہا ہو، اور ہمیں پتا بھی نہ چلے کہ آیا ہماری یہ دانستہ ' ٹھونگ' اسے 'پڑی' بھی ہے کہ نہیں اور ہم اُسے بار بار ٹھونگیں مارے چلے جائیں، اس میں ہمارا وقت تو کیا خاک بچتا، الٹا مزید کچھ لمحے ضایع ہو جائیں اور کوفت اس کے علاوہ ہو۔
یہی نہیں ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نے انگشت شہادت سے موبائل پر ٹھونگ کہیں ماری تھی، لیکن ایک دم اسکرین بدل گئی اور اس کے نتیجے میں وہ ' ٹھونگ' پڑ کہیں اور گئی، لیجی ے اور اپنے وقت کے ضیاع کا اور ''لطف'' لیجیے۔ اس لیے بھیا، ہم تو صَفا کہتے ہیں کہ ہمارے لیے تو موبائل فون کے وہ پرانے بٹن ہی بھلے تھے۔ اس لیے موبائل فون جدید ضرور ہونے چاہئیں، لیکن اس کے استعمال کی عملی صورت اور کارکردگی پر بھی تو کچھ توجہ دینی چاہیے کہ یہ مشکل ہے یا سراسر زحمت...!