معاہدوں کے پار
اس وقت جب سعودی عرب سمیت مسلم ممالک ایک اتحاد کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اسرائیل شیطان کی مانند پھر آ کھڑا ہوا
اسرائیل اور سعودی عرب میں اس وقت تناؤ سا پیدا ہوگیا تھا جب سعودی عرب نے اسرائیل کے وجود کو یکسر مسترد کر دیا تھا، یہاں تک کہ نقشے سے اسرائیل کی مملکت ہی جیسے غائب سی ہوگئی تھی، کیونکہ سعودی عرب مسلم ممالک سے اپنے تعلقات کو مضبوط تر کرنا چاہتا تھا۔
ایران، سعودی عرب کے اس اقدام سے خوش تھا کہ اس طرح فلسطین جلد ہی اپنے وجود کی آزادی کے لیے آگے بڑھ سکے گا پھر امریکا اور سعودی عرب کی ملاقات کیا ہوئی کہ پھر سے اسرائیل کے لیے ہموار راستے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات میں بڑے معاہدوں کے ساتھ یوں تو سب کچھ اچھا ہی جا رہا تھا لیکن امریکا نے بڑے بڑے معاہدوں کے ساتھ سعودی عرب اور اسرائیل کے بیچ دوریوں کو ختم کرنے اور تعلقات بڑھانے کی شرط رکھ دی۔ یہ عجیب بات بھی ہے کہ اس وقت جب سعودی عرب سمیت مسلم ممالک ایک اتحاد کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اسرائیل شیطان کی مانند پھر آ کھڑا ہوا۔
یقیناً یہ عجیب صورت حال تھی، بڑے بڑے معاہدے پکے اور ان پکے وعدوں کے بیچ ولن سے ہاتھ ملانا ضروری قرار دیا گیا اور ایک بار پھر فلسطین کے وجود پر سوال اٹھتے اٹھتے رہ گئے۔
ایران کے لیے امریکا کی یہ شرط بہت کٹھن ہے، گو فلسطین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف، ایران اور اسرائیل کے درمیان اختلافات تو ایک طویل عرصے سے چل ہی رہے تھے، یہاں تک کہ ایرانی سائنس دانوں کے قتل تک پر ایران اسرائیل کو کسی صورت معاف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، ایسے میں اسے اسرائیل اور سعودی عرب ایک مفاہمت کی صورت میں گوارا کیسے ہو سکتا ہے۔
گو سعودی عرب کا کہنا ہے کہ دنیا ایک اور ہیروشیما کا واقعہ نہیں دیکھ سکتی لیکن ایران کے بپھرے ہوئے جذبات کو سنبھالنا بھی آسان نہیں جو اسرائیل کو اس کے کیے کا مزہ چکھانا چاہتا ہے۔ ہتھیاروں اور اس کے پیچھے برباد ہونے والی قوموں کی داستانیں اب جیسے نیوز چینلز کی روزمرہ کی کہانیاں بن گئی ہیں لیکن حقیقت میں یہ کس قدر خوف ناک ہے کہ اس کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے۔
نیوکلیائی ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلے میں ایران کے بارے میں اندازے، مفروضات اور خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں لیکن اب سعودی عرب بھی ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی لے رہا ہے یہ اس کی ضرورت ہے یا مجبوری لیکن دنیا کے مختلف خطوں سے جنگی اطلاعات کرہ ارض کو قدرتی آفات کے علاوہ بھی دہکانے میں پیش پیش ہیں۔
سعودی حکام کے ہتھیاروں کے حوالے سے اس بیان کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس میں وہ واضح طور پر نیو کلیائی ہتھیاروں کو حاصل کرنے کو سیکیورٹی اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو سعودی عرب یا ایران ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے جوہری ہتھیاروں کو اپنے فوجی شو کیس میں سجانا کیا واقعی سیکیورٹی کی علامت ہے؟
نیو یارک ٹائمز اخبار کے مطابق امریکی اور سعودی حکام ایک باہمی دفاعی معاہدے کی شرائط پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں جو امریکا کے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اتحادیوں کے ساتھ فوجی معاہدوں کی طرح ہوگا۔ اخبار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے تحت فریقین خطے میں یا سعودی سرزمین پر کسی دوسرے ملک کے حملہ کرنے کی صورت میں فوجی مدد فراہم کرنے کا عہد کریں گے۔
اخبار کی اس رپورٹ کے علاوہ بھی ان معاہدوں کی دھوم دور دور تک پھیل چکی ہے لیکن اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی سوچ نے سعودی عرب کو ایک اندازے کے مطابق محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
نئی سوچ کے حامل ترقی پسند نوجوان شہزادہ سلمان اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کے لیے یقیناً بہت اچھا سوچ رہے ہیں جب کہ حقیقتاً سعودی عرب جیسے ملک کے لیے اس طرح سوچنا جو تیل کی دولت سے پہلے ہی مالا مال ہے کچھ ہم جیسے مسائل میں گھرے لوگوں کے لیے حیران کن ہے، اور سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا یا اس کی کوششیں کرنا اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے اور مشرقی وسطیٰ کے لیے ایک بڑی تبدیلی یا قیامت کی نشانی ہی ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کے لیے اپنے مطالبات پورے کروانا بھی امریکا کے لیے آسان ہدف نہیں ہے کیونکہ اس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کروانے کا مطالبہ امریکا اور خود اسرائیل کے لیے خاصا دشوار ثابت ہو سکتا ہے۔ اب اگر سعودی عرب کی جانب سے یہ کہا بھی جائے کہ وہ '' روزانہ کی بنیاد پر قریب آ رہے ہیں'' محتاط رویہ ہی نظر آتا ہے۔
ادھر امریکا سفید جھنڈا لہراتے یہ کہتا نظر آتا ہے کہ اس طرح سعودی اور اسرائیلی تعلقات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا اس طرح طویل عرصے کے لیے فلسطین کا مسئلہ کٹھائی میں پڑ جائے گا؟