پی آئی اے اڑتی رہے گی
یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پی آئی اے کے قرضہ جات صرف پی آئی اے کے اثاثہ جات فروخت کر کے اتارے جا سکتے ہیں
پی آئی اے کی مالی مشکلات پر تبصرہ کرتے ہوئے نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے پاکستانی قوم کو یہ یقین اور امید دلائی ہے کہ قومی ائر لائن اڑتی رہے گی، نجکاری کے عمل میں کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔
نگران وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر نے بھی یہ کہا کہ پی آئی اے کو آسمان کی بلندیوں پر رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کاجو بھی تعاون درکار ہو گا، وہ فراہم کیا جائے گا۔ یہ بیانات حوصلہ افزاء ہیں۔
تاہم اس وقت ضرورت یہ ہے کہ پی آئی اے کے اندرونی قرضہ جات کی ادائیگی موخر کرا نے کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔ اس عمل سے پی آئی اے کو اپنے وسائل سے اکٹھا ہونے والے ریونیو سے فضائی آپریشن رواں رکھنے میں آسانی ہو گی اورمزید قرضہ جات کی ضرورت نہیں رہے گی، طیاروں کی مینٹینس کے لیے ضروری اخراجات اس کے اپنے ہی ریونیو سے پورے کیے جا سکیں گے۔
پی آئی اے کا شعبہ انجینئرنگ ہمہ وقت کام کر رہا ہوتا ہے تا کہ ائر لائن کے فضائی بیڑے میں شامل طیارے پرواز کرتے رہیں ۔ پی آئی اے کی بنیادی ضرورت جدید طیاروں کا حصول ہے جو موجودہ مالی مشکلات میں ممکن نہیں ہوپا رہا، حکومت پاکستان کو تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا ، اگرفضائی بیڑے میں مزید طیاروں کی شمولیت کے لیے فنڈز دستیاب ہو جاتے ہیں تو پی آئی اے مالی بحران سے با آسانی نکل سکتی ہے ۔
ایک امید افزاء خبر یہ بھی ہے کہ یورپی یونین سیفٹی کی ٹیم آڈٹ کے لیے پاکستان آرہی ہے، امید اور توقع کی جارہی ہے کہ اگر یورپی یونین اور برطانوی ایجنسی کا آڈٹ کامیابی سے مکمل ہو جاتا ہے تو پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی ممکن ہو جائے گی اور پی آئی اے کی آمدن بڑھ جانے سے کیش فلو میں ریلیف مل سکے گا۔
پی آئی اے کے پاس مسافروں کی کمی ہر گز نہیں ہے لیکن طیاروں کی کمی ضرور ہے، اگر مزید طیارے مل جائیں اور قرضہ جات کے بوجھ سے چھٹکارے کا نجکاری سے قبل کوئی مربوط لائحہ عمل مرتب کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پی آئی اے کی منافع بخش بحالی ممکن نہ ہو سکے ۔
دنیا بھر کے اہم شہروں میں پی آئی اے کی پروازیں اترنے کے اجازت نامے( سلاٹس) اس کا اصل سرمایہ ہیں اور آج اگر ان سلاٹس کے حصول کی کوشش کی جائے تو یہ ملنے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہیں اور نئے سلاٹس کے حصول میں کئی برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ پی آئی اے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ماضی میں اس کی قابل اور مستقبل شناس انتظامیہ نے مختلف ممالک کے اہم شہروں کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کے اجازت نامہ کو ممکن بنایا اور آج بھی پی آئی اے ان اجازت ناموں کی بدولت اپنی پروازیں آپریٹ کر رہی ہے اور جن مقامات کے لیے پی آئی اے کی پروازیں معطل ہیں وہاں پر بھی سلاٹس کو ایوی ایشن کے قوانین کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔
دنیا کے مختلف شہروں میں پی آئی اے کی پروازوں کی اجازت نامے کئی سو ملین ڈالر کی مالیت کے حامل ہیںان کے علاوہ پی آئی اے کا نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل، پیرس میں سکرائب ہوٹل، ہالینڈ، نیویارک، تاشقند، ممبئی، تہران، کے علاوہ پاکستان میں پی آئی اے کے دفاتر اور دیگر جائیدادیں جو مختلف شہروں میں قیمتی ترین جگہوں پر ہیں۔یہ اثاثے پی آئی اے کا اصل سرمایہ ہیں ۔ اس وقت پی آئی اے میں مستقل ملازمین کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار ہے ۔ پی آئی اے کے محنت کش ملازمین کی ٹریننگ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پرانی مشینری کو قابل استعمال بنا کر ائر لائن کے آپریشن کو رواں رکھنے میں کامیاب ہیں۔
سخت انتظامی کنٹرول اور حکومت کی مکمل سپورٹ سے ہی پی آئی اے کی بحالی ممکن ہے اس کے لیے جتنی جلد فیصلہ کر لیا جائے وہ بہتر ہو گا مگر اس کے لیے حکومت کو شفاف طریقہ کار اور کسی دبائو کے بغیر یہ کام سر انجام دینا ہوگا ۔ موجودہ مالی بحران کے بوجھ کے ساتھ پی آئی اے میں بیرونی سرمایہ کاری کا عمل مشکل نظر آتا ہے اور نہ ہی ائر لائن کو مکمل طور پر بند کر دینا اس کا حل ہے۔
نجکاری کے عمل میں قانونی تقاضوں کو مکمل کرنے کے لیے بھی وقت درکار ہے اور بیرونی سرمایہ کاری اسی صورت میں ممکن ہے کہ پی آئی اے کے قرضہ جات کا بوجھ ختم ہوجائے اور صاف بیلنس شیٹ کے ساتھ پی آئی اے میں سرمایہ کار ی کے لیے کوشش کی جائے۔ ایک چلتی ہوئی ائر لائن جس کے اثاثے دنیا بھر میں موجود ہیں وہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے ہاں مگران اثاثوں کی مارکیٹ قیمت لگائی جانی چاہیے جو ایک محتاط اندازے کے مطابق کئی سو ارب روپوں میں ہے۔
یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پی آئی اے کے قرضہ جات صرف پی آئی اے کے اثاثہ جات فروخت کر کے اتارے جا سکتے ہیں۔ جب قرضہ جات کا بوجھ پی آئی اے سے اتر جائے گا تو سالانہ دو سو ارب روپے سے زیادہ ریونیو کمانے والا ادارہ نقصان میں کیسے جا سکتا ہے۔ حکومت کو قومی ائر لائن کی بحالی کی ایک آخری کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
نگران وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر نے بھی یہ کہا کہ پی آئی اے کو آسمان کی بلندیوں پر رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کاجو بھی تعاون درکار ہو گا، وہ فراہم کیا جائے گا۔ یہ بیانات حوصلہ افزاء ہیں۔
تاہم اس وقت ضرورت یہ ہے کہ پی آئی اے کے اندرونی قرضہ جات کی ادائیگی موخر کرا نے کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔ اس عمل سے پی آئی اے کو اپنے وسائل سے اکٹھا ہونے والے ریونیو سے فضائی آپریشن رواں رکھنے میں آسانی ہو گی اورمزید قرضہ جات کی ضرورت نہیں رہے گی، طیاروں کی مینٹینس کے لیے ضروری اخراجات اس کے اپنے ہی ریونیو سے پورے کیے جا سکیں گے۔
پی آئی اے کا شعبہ انجینئرنگ ہمہ وقت کام کر رہا ہوتا ہے تا کہ ائر لائن کے فضائی بیڑے میں شامل طیارے پرواز کرتے رہیں ۔ پی آئی اے کی بنیادی ضرورت جدید طیاروں کا حصول ہے جو موجودہ مالی مشکلات میں ممکن نہیں ہوپا رہا، حکومت پاکستان کو تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا ، اگرفضائی بیڑے میں مزید طیاروں کی شمولیت کے لیے فنڈز دستیاب ہو جاتے ہیں تو پی آئی اے مالی بحران سے با آسانی نکل سکتی ہے ۔
ایک امید افزاء خبر یہ بھی ہے کہ یورپی یونین سیفٹی کی ٹیم آڈٹ کے لیے پاکستان آرہی ہے، امید اور توقع کی جارہی ہے کہ اگر یورپی یونین اور برطانوی ایجنسی کا آڈٹ کامیابی سے مکمل ہو جاتا ہے تو پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی ممکن ہو جائے گی اور پی آئی اے کی آمدن بڑھ جانے سے کیش فلو میں ریلیف مل سکے گا۔
پی آئی اے کے پاس مسافروں کی کمی ہر گز نہیں ہے لیکن طیاروں کی کمی ضرور ہے، اگر مزید طیارے مل جائیں اور قرضہ جات کے بوجھ سے چھٹکارے کا نجکاری سے قبل کوئی مربوط لائحہ عمل مرتب کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پی آئی اے کی منافع بخش بحالی ممکن نہ ہو سکے ۔
دنیا بھر کے اہم شہروں میں پی آئی اے کی پروازیں اترنے کے اجازت نامے( سلاٹس) اس کا اصل سرمایہ ہیں اور آج اگر ان سلاٹس کے حصول کی کوشش کی جائے تو یہ ملنے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہیں اور نئے سلاٹس کے حصول میں کئی برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ پی آئی اے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ماضی میں اس کی قابل اور مستقبل شناس انتظامیہ نے مختلف ممالک کے اہم شہروں کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کے اجازت نامہ کو ممکن بنایا اور آج بھی پی آئی اے ان اجازت ناموں کی بدولت اپنی پروازیں آپریٹ کر رہی ہے اور جن مقامات کے لیے پی آئی اے کی پروازیں معطل ہیں وہاں پر بھی سلاٹس کو ایوی ایشن کے قوانین کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔
دنیا کے مختلف شہروں میں پی آئی اے کی پروازوں کی اجازت نامے کئی سو ملین ڈالر کی مالیت کے حامل ہیںان کے علاوہ پی آئی اے کا نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل، پیرس میں سکرائب ہوٹل، ہالینڈ، نیویارک، تاشقند، ممبئی، تہران، کے علاوہ پاکستان میں پی آئی اے کے دفاتر اور دیگر جائیدادیں جو مختلف شہروں میں قیمتی ترین جگہوں پر ہیں۔یہ اثاثے پی آئی اے کا اصل سرمایہ ہیں ۔ اس وقت پی آئی اے میں مستقل ملازمین کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار ہے ۔ پی آئی اے کے محنت کش ملازمین کی ٹریننگ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پرانی مشینری کو قابل استعمال بنا کر ائر لائن کے آپریشن کو رواں رکھنے میں کامیاب ہیں۔
سخت انتظامی کنٹرول اور حکومت کی مکمل سپورٹ سے ہی پی آئی اے کی بحالی ممکن ہے اس کے لیے جتنی جلد فیصلہ کر لیا جائے وہ بہتر ہو گا مگر اس کے لیے حکومت کو شفاف طریقہ کار اور کسی دبائو کے بغیر یہ کام سر انجام دینا ہوگا ۔ موجودہ مالی بحران کے بوجھ کے ساتھ پی آئی اے میں بیرونی سرمایہ کاری کا عمل مشکل نظر آتا ہے اور نہ ہی ائر لائن کو مکمل طور پر بند کر دینا اس کا حل ہے۔
نجکاری کے عمل میں قانونی تقاضوں کو مکمل کرنے کے لیے بھی وقت درکار ہے اور بیرونی سرمایہ کاری اسی صورت میں ممکن ہے کہ پی آئی اے کے قرضہ جات کا بوجھ ختم ہوجائے اور صاف بیلنس شیٹ کے ساتھ پی آئی اے میں سرمایہ کار ی کے لیے کوشش کی جائے۔ ایک چلتی ہوئی ائر لائن جس کے اثاثے دنیا بھر میں موجود ہیں وہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے ہاں مگران اثاثوں کی مارکیٹ قیمت لگائی جانی چاہیے جو ایک محتاط اندازے کے مطابق کئی سو ارب روپوں میں ہے۔
یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پی آئی اے کے قرضہ جات صرف پی آئی اے کے اثاثہ جات فروخت کر کے اتارے جا سکتے ہیں۔ جب قرضہ جات کا بوجھ پی آئی اے سے اتر جائے گا تو سالانہ دو سو ارب روپے سے زیادہ ریونیو کمانے والا ادارہ نقصان میں کیسے جا سکتا ہے۔ حکومت کو قومی ائر لائن کی بحالی کی ایک آخری کوشش ضرور کرنی چاہیے۔