شاعری میں مضمون اپنے ساتھ لفظیات بھی لاتا ہے حمیدہ شاہین

نظم مزاج کے زیادہ قریب ہے، لیکن غزل لکھے بغیر رہا نہیں جاتا، حمیدہ شاہین


Mehmood Ul Hassan May 15, 2014
معروف شاعرہ حمیدہ شاہین سے مکالمہ۔ فوٹو : فائل

ایک میان میں دوتلواریں اور ایک سلطنت میں دوسلطان بھلے نہ رہ سکتے ہوں، لیکن ایک چھت تلے دوشاعر رہ سکتے ہیں۔ اِس کی بہترین مثال ڈاکٹر ضیاء الحسن اورحمیدہ شاہین ہیں، جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے: ؎ خدا کے فضل سے بیوی میاں دونوں مہذب ہیں.

بات ہم کو کرنی ہے، حمیدہ شاہین کے بارے میں، جو اچھی نظم اور غزل کہہ کر سخن شناسوں سے داد لے رہی ہیں۔ ظفر اقبال اردو غزل کا معتبر حوالہ ہیں، وہ ان کی غزل کے قائل ہیں، تو نظموں کی تعریف محمد سلیم الرحمن جیسے نظم کے عمدہ شاعر اور بالغ نظر نقاد بھی کرتے ہیں۔ معروف نقاد وزیر آغا ''سمبل'' میں حمیدہ شاہین کی نظموں کو پڑھ کر متاثر ہوئے۔ شاعرہ کے بارے میں جاننے کے لیے انھوں نے ڈاکٹرضیاء الحسن سے رابطہ کیا۔ اب بھلا ان سے بہتر حمیدہ شاہین کے بارے میں کون بتا سکتا۔ اس زمانے میں''اوراق'' ٹھپ ہوگیا تھا، اس لیے ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کی نظموں کو ''کاغذی پیرہن'' میں جگہ دی۔

''دستک''، ''دشت وجود'' اور''زندہ ہوں'' کے عنوان سے خوب صورت شعری مجموعوں کی یہ خالق ہر چند کہ نظم کہنے میںسہولت محسوس کرتی ہیں، لیکن غزل میں بھی اُنھیں بڑی کشش محسوس ہوتی ہے۔ شاعری کی کسی صنف سے کد نہیں۔ نثری نظم بھی لکھی، پر طبیعت ادھر زیادہ نہ آئی۔ ان کے بہ قول:''وہ نظم کہنا اور پڑھنا اچھا لگتا ہے، جس میں شعریت زیادہ ہو۔ شاید میرا میلان ہی کچھ ایسا ہے کہ مجھے عروضی نظم اپنی طرف زیادہ کھینچتی ہے۔'' حمیدہ شاہین کے نقاد شوہر کا خیال ہے کہ ان کی نصف بہتر بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ ''نظم کہتے کہتے میں خود بہ خود غزل کی طرف آجاتی ہوں۔''

نظم اور غزل میں اظہار کے فرق کی وضاحت یوں کرتی ہیں:''نظم میں زیادہ کھل کر، بغیر روک ٹوک کے آپ اظہارکرسکتے ہیں۔ بہت سے ایسے مضامین جو آپ کے ذہن میں آتے ہیں، انھیں اگرآپ غزل کی فارم میں لے جاکر ان کی بار بار شکل بدلیں تواس کی اوریجنل صورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اس دورمیں معاشرے کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کے بارے میں لکھنے کے لیے نظم میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً کئی غیرمانوس الفاظ جنھیں ہم غزل میں استعمال کرنے سے جھجکتے ہیں، نظم میں برت لیتے ہیں۔ بہت سی باتوں کو غزل کے بجائے نظم میں زیادہ Crude فارم میں بیان کیا جاسکتا۔ ''

ان کی بعض نظموں میں تلخی اورشدت کا تناسب کچھ زیادہ ہے۔ ان نظموں میں سے ''تین سالہ بچی کا ریپ'' کا ذکر ہم نے کیا توجواب آیا: ''یہ غالباً 1999 کی بات ہے۔ میں نے اخبارمیں تین سالہ بچی سے ریپ کی خبر پڑھی ۔ اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا، جو میرے علم میں آیا۔ اس خبرکو پڑھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ اس وقت میری اپنی بچی دوڈھائی برس کی تھی۔ میں جب اسے دیکھتی تو ذہن میں آتا کہ اس عمر کی پھول سی بچی کے ساتھ کوئی کیسے اس قدرظلم کرسکتا ہے۔ اب تو ایسے واقعات اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ واقعات تواتر سے ہونے لگے، تواس حساب سے بے حسی بھی بڑھ جاتی ہے۔کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ نظم بہت سخت ہے، تو میں نے کہا کہ اس بربریت پر اگر میرا بس چلتاتو اور بھی زیادہ سخت لکھتی۔''

ان کی شخصیت میں توازن کا جو عنصر ہے، وہ نظم کے حق میں کچھ کہنے کے بعد انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ غزل کے بارے میں تاثرات بیان کریں مبادا یہ تاثر لیا جائے کہ وہ غزل کو نظم سے کم ترصنف جانتی ہیں۔ اس بات کی تردید ان کے کلام سے بھی ہو جاتی ہے، اور ''دشت وجود'' تو مجموعہ ہی غزلوں کا ہے۔ مگر پھر بھی زبان سے غزل کے حق میں اپنا موقف یوں بیان کرتی ہیں: ''غزل ہمارے مزاج کا حصہ ہے، اس کا سفر رک نہیں سکتا۔ بھلے میں خود بھی قائل ہو جاؤں کہ نظم میرے مزاج کے قریب ہے، لیکن غزل لکھے بغیر رہا نہیں جاتا۔''

شاعری میں ڈکشن کے بارے میں بتاتی ہیں: ''مضمون اپنے ساتھ لفظیات بھی لاتا ہے۔ اس کو بعد میں آپ تھوڑا سنوارلیتے ہیں۔ بعض دفعہ لفظ جیسے آتا ہے، لکھ لیتے ہیں، اور بعد میں اسے بدل دیا۔ بعضے یہ بھی ہے کہ لفظ خود کو ہٹانے کی اجازت نہیں دیتا۔ میری غزلوں میں بعض نامانوس الفاظ آئے تو لوگوں نے کہا کہ میں ظفر اقبال سے متاثر ہوکر ایسا کر رہی ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ لفظ تو مضمون کے ساتھ آرہے ہیں، انھیں کیسے بدلوں۔''

شعری ابہام پر بھی بات ہوئی۔ کہنا تھا،''اس کی ایک خاص حد ہوتی ہے، جس کو پارکرتے ہی الجھن، پیچیدگی اور اس سے آگے بے معنویت ہے۔ استعارہ، علامت کا استعمال یا کہی ان کہی کا جھٹپٹا معنی ومفہوم کے حسن ترسیل کے لیے ہوتا ہے۔ اس سے معنوی جہات اور تہ داری پیدا ہوتی ہے۔ یہ جس قدر پہلودار ہوگی، اسی قدر لطف سخن میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ تربیت یافتہ قاری اس کے مختلف پہلوؤں سے ہر سطح پر حظ اٹھاتا ہے اگر معنی آفرینی اورجمالیاتی ترفع کا حصول نہیں ہوپاتا، توان کہی یا ابہام قاری کو محض ذہنی انتشارکا تحفہ دیتا ہے جواسے ہرگز درکار نہیں ہوتا۔''

شاعر پرانے ہو ں یا نئے، وہ ان کے درمیان کسی نوع کے موازنے کو صحیح خیال نہیں کرتیں۔ ہم نے پسند کے شاعروں کے بارے میں پوچھا تو یوں لگا، جیسے جواب دینے سے کنی کترا رہی ہیں، پھر بھی اس ضمن میں کچھ نہ کچھ بات ہم سے ہو ہی گئی۔ کلاسیکی روایت کے تمام اہم شعرا کو پڑھا۔ میر نے سب سے بڑھ کرمتاثر کیا۔ غالب اور اقبال بھی پسندیدہ شاعر ہیں۔ جدید شاعروں میں راشد نے پہلے تو متاثر نہ کیا، لیکن جب دیکھا کہ ضیاء الحسن جو اس قدر مداح ہے تو پھرسے پڑھ کردیکھتے ہیں، اب جو دوبارہ پڑھا تو شاعر کے قدوقامت کا اندازہ ہوگیا۔

ان کا کہنا ہے ، راشد کی بڑی نظمیں اردو میں بڑی شاعری کی بہترین مثال ہیں۔ میرا جی کی نظموں کو تفہیم کے لحاظ سے مشکل گردانتی ہیں۔ ''ہرنظم گتھی ہے، جو بھی کھولتا ہے، اس کے ہاتھ مختلف لگتا ہے، ان کی نظموں کے تجزیے میں ہرایک نے الگ بات کی ہے۔'' مجید امجد کا وہ کلام جس میں روانی اور غنائت ہے، زیادہ اچھا لگا۔ جیلانی کامران کی شاعری کو پڑھ کرلطف آیا۔ ذیشان ساحل کی شاعری بھی اچھی لگی۔ اب کچھ بات ان کی زندگی کے بارے میں۔

حمیدہ شاہین نے 26 جنوری 1963 کو سرگودھا میں آنکھ کھولی۔ والد محمد ابراہیم کی غلہ منڈی میں دکان تھی۔ ادب سے ان کو بہت شغف تھا۔ پنجابی صوفی شعرا کا کلام ان کے ورد زبان رہتا۔ گھر میں علم پرور ماحول میں پروان چڑھیں۔ اسکول میں بھی فضا موافق تھی۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتیں۔ اسکول کے لیے کئی انعام جیتے۔ آٹھویں جماعت میں فارسی کا انتخاب صرف اس لیے کیا کہ اقبال کا فارسی کلام پڑھ سکیں۔ ان کی اردو شاعری سے تعارف تو اس لیے ہوگیا تھا کہ کلام اقبال کو صحیح تلفظ وآہنگ کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں جو مقابلے ہوتے، ان کا حصہ بنتیں۔ بیت بازی کے مقابلے شعر سے تعارف کا ذریعہ بنے۔ نویں جماعت میں غزل لکھی۔ ٹیچر کو دکھائی تو انھوں نے کہا؛ یہ تو وزن اور بحر میں ہے، اس لیے وہ شاعری کرسکتی ہیں۔

وہ اپنے میں ادبی ذوق کی آب یاری کے سلسلے میں اپنی ٹیچر مس شمیم عزیز کا ذکربڑی محبت سے کرتی ہیں، جنھوں نے ان میں ادب کی صحیح معنوں میں جوت جگائی۔ کالج کے زمانے میں انھوں نے اردوکے کلاسیک شعرا کو پڑھناشروع کردیا۔ سب سے بڑھ کر میر پسند آئے۔ لائبریری میں کلیات میر کا نسخہ تھا، جس کو ایشو کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن ٹیچرکی سفارش کام آئی۔ یہ کلیات ڈیڑھ دوسال ان کے پاس رہا۔ انعام میں ملے کلیات اقبال اردو اور فارسی البتہ ان کی اپنی ملکیت تھے۔ یہ دونوں کلیات انھوں نے برسوں سینت کر رکھے، لیکن پھرکوئی کرم فرما لے گیا اور اسے واپس کرنے کی توفیق نہ ہوئی جب کہ اس پر لکھا بھی تھا ''یہ میری زندگی کا پہلا انعام ہے!'' کالج کے زمانے میں ایک بارگجرات میں تین مقابلوں میں انعام ملا، تو''امروز'' کے نمائندے نے اُن کا انٹرویوکیا۔

اِس دور میں ان کی غزل پہلی بار ''مشرق'' کے ادبی ایڈیشن میں چھپی۔ وہاڑی میں مشاعرہ ہوا تو انھیں مدعو کیا گیا۔ وہیں انھوں نے پہلی بارمعروف شاعروں کو قریب سے دیکھا۔ قومی سطح کے مشاعرے بھی پڑھے، لیکن جلد طبیعت اوب گئی۔ شاعری سے ہٹ کر فکشن میں گہری دل چسپی رہی، کالج کے زمانے میں افسانے رسالوں میں چھپے۔ ''حور'' میں مسلسل تین برس بہترین افسانے کا انعام پایا۔ اس سے ہٹ کر بھی بارہ تیرہ افسانے مختلف رسالوں میں چھپے۔ مستقبل میں افسانوں کا مجموعہ سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ حمیدہ شاہین کو اپنی بڑی بہن سے بے حد محبت تھی۔ ان کی بے وقت موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ غم غلط کرنے کے لیے بہن کے ساتھ بیتے ایام کا قصّہ لکھنا شروع کیا اور پرنم آنکھوں کے ساتھ اسے قلم بند کرڈالا۔''میری آپی '' کے عنوان سے چھپنے والی یہ تحریر عام قاری تک نہیں پہنچی اور احباب میں تقسیم ہوکر رہ گئی۔ ضیاء الحسن نے انھیں تجویز کیا ہے کہ ان کے انداز بیان میں افسانوی ٹچ پہلے سے موجود ہے، اس لیے اگر وہ اسے تھوڑا فکشن کا تڑکا لگادیں، تو یہ تحریرباقاعدہ ناول کا روپ دھار سکتی ہے۔

حمیدہ شاہین کی علمی شخصیت کا دوسرا حوالہ تدریس ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کے بعد لیکچرارکے طور پر پہلی تقرری 1988 میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ہوئی، جہاں سے اُنھوں نے گریجویشن کیا تھا۔ چار سال ادھر پڑھایا۔ اگلے پانچ برس گوجرانوالا میں تدریسی ذمہ داریاں انجام دیں۔ دو برس اسلامیہ کالج کو پر روڈ میں علم کا نور بانٹا۔ 2004 میں گورنمنٹ کلیات البنات کالج سے جڑ گئیں۔ گذشتہ پانچ برس سے وائس پرنسپل کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ تدریس سے انہیں گویا عشق ہے۔ کہتی ہیں، رات کو شعرکہتی ہوں، تو دن میں کردار سازی کرتی ہوں۔ طالبات سے رابطے میں رہنا انھیں اچھا لگتا ہے اور ان کے ہاں ایسے وقت میں ذمے داری کا احساس اور بھی بڑھ گیا ہے، جب والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں رہا۔ سراج الحسن، سماویہ اورازکیٰ بچوں کا نام ہے۔ تینوں میں مطالعہ کا رجحان موجود ہے۔ اور آخر میں ان کا یہ شعر:

نگاہ بھرکے تری کائنات دیکھ سکوں
مرے وجود سے باہر کبھی اچھال مجھے
اک بے دھیانی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں