خواجہ سراؤں کی مبینہ خرید و فروخت

خواجہ سراؤں کی لاکھوں روپے تک بولی لگائی جاتی ہے

فوٹو : فائل

پاکستان میں خواجہ سراؤں کی مبینہ خرید و فروخت کا دھندہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ خواجہ سراؤں کی لاکھوں روپے تک بولی لگائی جاتی ہے جبکہ گرو کا حکم نہ ماننے والے چیلوں کو جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ساڑھے تین ہزار کے قریب خواجہ سراؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ متعدد کو قتل کیا گیا ہے۔

پچیس سالہ خواجہ سرا نگاہیں کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ نگاہیں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں سیالکوٹ میں ایک پارٹی ڈانس کے دوران ان کے گرو عظیم ریاض نے اپنے دیگر چیلوں کے ساتھ مل کر بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور بری طرح سے زدو کوب کیا گیا۔

نگاہیں کے مطابق یہ واقعہ رواں سال 15 جون کو پیش آیا تھا۔ سیالکوٹ کے تھانہ صدر میں اس واقعہ کا مقدمہ درج ہے لیکن پولیس ابھی تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ مرکزی ملزم عظیم ریاض مفرور ہے۔ خواجہ سرا نگاہیں نے خود پر ہونے والے تشدد اور مارپیٹ کی تصاویر بھی ایکسپریس ٹربیون سے شیئر کی ہیں۔

نگاہیں نے دعویٰ کیا کہ عظیم ریاض سمیت متعدد خواجہ سرا گرو، اپنے چیلوں کی خرید و فروخت کا دھندہ کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ جنوبی پنجاب میں خواجہ سراؤں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ خواجہ سراؤں کی ویڈیوز وٹس ایپ گروپوں میں شیئر کرکے ان کی بولی لگائی جاتی ہے۔ 50 ہزار سے لیکر ایک کروڑ روپے تک میں خواجہ سراؤں کو فروخت کیا جاتا ہے۔

خواجہ سرا نگاہیں کے اس دعویٰ کی تصدیق راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی معروف خواجہ سرا گرو اور انڈس ہوم ویلفیئر فاؤنڈیشن کی سربراہ صبا گل نے بھی کی ہے۔

ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ خواجہ سراؤں کو غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ خواجہ سراؤں کو ان کے گرو چند ہزار روپے میں خریدتے اور پھر دگنا قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ خواجہ سراؤں سے ڈانس، جسم فروشی سمیت بھیک منگوائی جاتی ہے اور اگر کوئی خواجہ سرا انکار کر دے تو اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو خواجہ سراؤں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

صبا گل نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ملک بھر میں 3469 خواجہ سراؤں پر تشدد اور ہراسگی کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ کئی خواجہ سراؤں کو قتل بھی کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب اپریل دوہزاربائیس میں عمران خان کی حکومت ختم کی گئی تواس کے چند ہفتے بعد انہوں نے راولپنڈی میں احتجاج کیا تھا جس کے بعد چند نامعلوم افراد نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان کے پاس موجود تمام ریکارڈ بھی چھین کر لے گئے جو اسے واپس نہیں کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن اور پولیس تحفظ مرکز میں بطور وکٹم سپورٹ آفیسر کام کرنے والی ٹرانس جینڈر عنایا چوہدری بھی تسلیم کرتی ہیں کہ گورو اپنے چیلوں سے ان کی کمائی کا حصہ لیتے ہیں اور جب ایک خواجہ سرا اپنے گورو کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے پاس جاتا ہے تو اس وقت بھی رقم لی جاتی ہے لیکن وہ لوگ اس عمل کو خرید وفروخت نہیں کہتے ہیں۔


انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح گھرچلانے کے لیے گھر کے بڑے کام کرتے ہیں اسی طرح گوروکا ڈیرہ بھی ایک طرح سے خواجہ سراؤں کا گھر ہوتا ہے جس کو چلانے کے لیے تمام چیلے اپنی آمدن کا کچھ حصہ اپنے گورو کو دیتے ہیں۔

خواجہ سراؤں پر تشدد، ہراسگی اور انکے قتل سے متعلق درست اعدادوشمار کسی حکومتی ادارے اور این جی او کے پاس نہیں ہیں تاہم لاہور میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ساتھی فاؤنڈیشن کی سربراہ لیلیٰ ناز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک غیر ملکی این جی او کے اشتراک سے 2018 سے 2022 تک خواجہ سراؤں پر تشدد اوران کے قتل سے متعلق ایک اسٹڈی پروگرام کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس اسٹڈی کی حتمی رپورٹ تو شیئر نہیں کرسکتے تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا کے چند منتخب اضلاع میں تشدد کا شکار دو ہزار خواجہ سراؤں کے انٹرویوز کیے گئے تھے۔ سال دوہزار اکیس میں 20 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا۔

انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل عزت فاطمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق اور ان کی شناخت کے لیے گزشتہ چند برسوں میں کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں ان کو ووٹ کا حق اور وراثتی جائیداد میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔ جبکہ ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ 2018 میں بھی خواجہ سرا برادری کو عام شہریوں کی طرح بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے تاکہ ان کے خلاف امتیازی سلوک کو روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ ''جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔'' آرٹیکل 25 کے علاوہ قانون کا سیکشن 5 خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنے سے منع کرتا ہے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان قوانین کے باوجود، ٹرانس جینڈر افراد کو متعدد قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خواجہ سراؤں کی مبینہ خرید و فروخت کے عمل کو اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ آف پولیس لاہور سیدہ شہر بانو نقوی ایک اور زاویہ سے دیکھتی ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ کہنا درست نہیں کہ خواجہ سراؤں کی خرید وفروخت کی جاتی ہے۔ ہمیں خواجہ سرا کمیونٹی کے رہن سہن کے نطام کو سمجھنے کی ضرروت ہے۔ خواجہ سراؤں کو جب ان کے والدین اور قریبی رشتہ دار بھی قبول نہیں کرتے تو پھر وہ کسی گورو کے ڈیرے پر چلے جاتے ہیں۔ گورو ان کے لیے ان کی ماں اور باپ دونوں کا درجہ رکھتا ہے۔ گورو جب کسی چیلے کے سر پر پگڑی رکھتا ہے تو اس کے لیے ایک رقم مختص کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ جو چند سو روپے سے لیکر چند ہزار اور لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ لیکن جب وہ چیلا اپنے گورو کو چھوڑ کر کسی دوسرے گورو کے پاس جاتا ہے تو پھر دوسرے گورو کو دگنا رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس طرح ہم اپنے خاندان، دوستوں کی شادی، بیاہ پر نیوندرا، سلامی دیتے ہیں اسی طرح خواجہ سرا ایک دوسرے کی سالگرہ پر تحائف اور نقدی تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔

سیدہ شہربانو نے کہا کہ جہاں تک خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنے، ان پرتشدد، زیادتی کے واقعات کا تعلق ہے تو اس کے لیے پولیس تحفظ مرکز بنائے گئے ہیں جہاں خواجہ سرا 24 گھنٹے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ان مراکز پر خواجہ سراؤں سے بات چیت کے لیے خواجہ سرا وکٹم سپورٹ آفیسر رکھی گئی ہیں۔
Load Next Story