بہت ہوگیا
مہذب ، شائستہ اور جمہوری طریقہ ہے کہ کسی ایڈونچر کا حصہ بننے کے بجائے اصلاحِ احوال کے تمام مراحل پارلیمان کے ذریعہ
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کھیل شروع ہوگیا ہے ، جس کے لیے طویل عرصے سے میدان سجایا جا رہا تھا جب کہ دیگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشاکش کے فطری مظاہر ہیں،جو اب کھل کر سامنے آرہے ہیں جس میں پسپائی غیر جمہوری قوتوں کا مقدر ہوچکی ہے۔
اس کے برعکس بعض اہل دانش کا کہنا ہے کہ یہ کھیل اتنا سہل نہیں ہے جتنا سمجھاجا رہا ہے۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ معاشرہ کئی دہائیوں سے جس فکری تقطیب (Polarization) کا شکار چلا آ رہا ہے، حالیہ کشمکش اس کاکھلا اظہار ہے، اس لیے یہ توقع کرنا کہ یہ کشمکش جلد ختم ہوجائے گی ، خام خیالی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کھیل کے Beneficiaries کے بارے میںمکمل جانکاری حاصل کیے بغیر اس کے منطقی انجام کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی ۔
گزشتہ اتوار دو مختلف دنگل سجے ۔ دونوں ہی میں سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ کس حد تک کامیاب رہے اور ان میں کس حد تک عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی گئی؟ اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس سے قبل ان دونوں جلسوں کے مزاج اور نوعیت پر بھی گفتگو ضروری ہے ۔ گو کہ حکومتی حلقے دونوں جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن دونوں قائدین کے فکری رجحانات میں مماثلت کے باوجود ان کی خواہشات اور عزائم ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ برس جنوری میں بھی عمران خان نے علامہ طاہر القادری کے دھرنے میں شرکت سے گریز کرتے ہوئے انتخابی عمل میں شرکت کو ترجیح دی تھی ۔ اس وقت بھی عمران خان بہت سے امور پر علامہ طاہر القادری کے نقطہ نظر سے متفق ہونے کے باوجود اپنی تحریک کو انتخابی اصلاحات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں ۔ جب کہ مہنگائی، کرپشن اور خراب حکمرانی کو انھوں نے ضمناً مطالبات کی فہرست میں شامل کیا ہے ۔ اس کے برعکس علامہ طاہر القادری اور ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک پورے سیاسی و انتظامی ڈھانچے ہی کو فرسودہ سمجھتی ہے اور اسے ختم کرنے کی خواہش مند ہے۔ لہٰذا دونوں تحاریک کا جائزہ لیتے ہوئے سوچ کے اس فرق کو بہر حال ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔
اب جہاں تک نظم حکمرانی میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور خامیوں کا تعلق ہے، تو اس بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ ملک کا پورا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے ۔ مگر یہ سوال پاکستان کے ہر متوشش شہری کے ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ آیا اس صورتحال کا حل غیر سیاسی ایڈونچر ہے یا انتخابی عمل کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا ہے؟ جہاں تک علامہ طاہر القادری کی قانون فہمی اور قومی مسائل کے باریک بیں ادراک کا تعلق ہے، تو عوام کی اکثریت ان کے جائزے سے متفق ہے ۔ مگران مسائل کے حل کا جو طریقہ وہ پیش کر رہے ہیں ، عوام کی اجتماعی دانش اسے قومی خود کشی تصور کرتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ اس مرتبہ انھیں وہ عوامی پذیرائی نہیں مل سکی ، جس کی انھیں توقع تھی ۔ دراصل عوامی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ 1958ء،1969ء ،1977ء اور1999ء میں بھی کرپشن، بدعنوانی اور بری حکمرانی کو بنیاد بناکر سیاسی جماعتوں کی حکمرانی سے چھٹکارا حاصل کیا گیا تھا۔مگر اس ایڈونچر کے نتیجے میںنہ تو وہ اہداف حاصل ہوسکے ، جن کے لیے یہ اقدامات کیے گئے تھے اور نہ ہی سیاسی استحکام پیدا ہوسکا بلکہ ریاست کے ہر ادارے میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے نظمِ حکمرانی مزیدابتری کا شکار ہوئی ہے جس کے اثرات آج تک باقی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہر ذی شعور شہری سمجھتا ہے کہ آج وہ جن مسائل ومصائب سے دوچار ہے، اس کا سبب ماضی کے یہی چار ایڈونچر ہیں ۔ اس لیے مسائل ومصائب کے بوجھ تلے دبے عوام اگر ایک طرف حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی سے مایوس ہیں ، تو دوسری طرف علامہ اور کپتان کے حالیہ ایڈونچر پر اعتبار کرنے پر بھی زیادہ آمادہ نظر نہیں آرہے ۔ بلکہ ان کے دعوئوں کو تشکیک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جس کا اظہار گزشتہ اتوار کو ہونے والی ریلیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا جن میں دونوں جماعتوں کی توقع کے برخلاف عوام کاResponse خاصا سرد مہری کا تھا اور اس تعداد میں لوگ جمع نہیں ہوسکے، جس کی ان رہنمائوں کو توقع تھی ۔
اب جہاں تک تحریک انصاف کا گزشتہ انتخابات اورالیکشن کمیشن کی کارکردگی پر تحفظات کا تعلق ہے ، تو اس میں بھی خاصا وزن ہے ۔ پاکستان میں سیاسی وسماجی سوجھ بوجھ رکھنے والے مختلف عوامی حلقے کافی عرصے سے نظام حکمرانی،سیاسی عمل میں پائی جانے والی بے راہ روی اور انتخابی طریقہ کار کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں بلکہ سول سوسائٹی کی مختلف تنظیمیں تو کافی عرصے سے الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے مختلف نوعیت کی تجاویزبھی دیتی چلی آرہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ احتجاجی سیاست جمہوری کلچر کا حصہ ہوتی ہے اور ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے ۔
لیکن تحریک انصاف نے اس مقصد کے لیے احتجاجی سیاست کا جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ اس لیے مناسب نہیں ہے،کیونکہ دنیا بھر میں اس قسم کے اہم اور حساس قومی امور کو حل کرنے کے لیے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کی جاتی ہے۔ وطنِ عزیز میںہمارے سامنے گزشتہ دورِ حکومت کا تجربہ بھی موجود ہے، جب سیاسی جماعتوں نے سیاسی عزم وبصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم منظور کیں اور قوم کومتفقہ اور قابلِ قبول NFCایوارڈ دیا۔جن کی وجہ سے کئی دہائیوں سے اٹکے ہوئے بیشتر مسائل کی سبیل پیدا ہوئی۔ انھیں میں ایک اہم اور پیچیدہ معاملہ صوبائی خود مختاری کا بھی تھا، جو چار دہائیوں سے اٹکا چلا آ رہا تھا ۔ گو کہ اس سمت میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن18ویںآئینی ترمیم کے نتیجے میںاس مسئلے کے حل میں ایک صحتمند پیش قدمی ضرور ہوئی ہے ۔
مہذب ، شائستہ اور جمہوری طریقہ بھی یہی ہے کہ کسی نئے ایڈونچر کا حصہ بننے کے بجائے اصلاحِ احوال کے تمام مراحل پارلیمان کے ذریعہ طے کیے جائیں، تاکہ ان کے اثرات دیرپا ہوں اور یہ عوام کے لیے قابل قبول ہوسکیں ۔ لہٰذا سیاسی جماعتیںاگرسنجیدگی کے ساتھ الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو اورانتخابی طریقہ کار میں تبدیلیوں کی خواہشمند ہیں ، تو انھیں اس سلسلے میں پارلیمان میں آئینی ترامیم کا بل پیش کرنا چاہیے ۔ چونکہ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ دھاندلی اس کے ساتھ ہوئی ہے ۔
اس لیے یہ ذمے داری خود اس پر عائد ہوتی ہے کہ قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت ہونے کے ناتے وہ خود اس سلسلے میں پہل کرے اور اس کی منظوری کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرے ۔ تاکہ الیکشن کمیشن کی عوامی امنگوں کے مطابق ایک آزاد،غیر جانبدار اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جاسکے، جوشفاف انتخابات کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں انتخابی عمل پر کام کرنے والی تنظیموں PILDAT اور FAFEN سے ماہرانہ تجاویز حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان سیاسی تجزیہ نگاروں اور قلمکاروں کا تعاون بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے انتخابی عمل کا انتہائی قریب سے جائزہ لیتے ہوئے ان کا باریک بینی سے مشاہدہ اور مطالعہ کرتے رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص پڑوسی ملک بھارت کے الیکشن کمیشن کی تشکیل ، طریقہ کار اور اسے حاصل اختیارات کا مطالعہ بھی خاصا سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نظمِ حکمرانی، سیاسی عمل اور انتخابی طریقہ کار میں خاصے بڑے پیمانے پر خرابیاں اور اسقام پائے جاتے ہیں۔ ان خرابیوں کو رفتہ رفتہ آئینی طریقہ سے دورکیا جانا چاہیے ۔ کیونکہ ماورائے آئین وپارلیمان اقدامات مزید الجھائوں کا سبب بنتے ہیں جن سے گریز کی ضرورت ہے ۔ ہماری خواہش ہے کہ علامہ طاہر القادری جیسا جید عالم ، ماہرِ قانون اور دیانت دار رہنماء اور ان کے زیر تربیت رہنے والے کارکن انتخابی عمل کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچ کر اس نظام کو درست سمت دینے کے لیے فعال قانون سازی کریں ، تواس سے ملک کو بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے ۔
کیونکہ ہمیں اپنی پارلیمان میں نیک سیرت، ایماندار اور باصلاحیت نمایندوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم جو دودھ کے جلے ہیں، چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ کسی نئے ایڈونچر کا شکار ہونے سے اب ڈرنے لگے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیت اوراچھی شہرت کو پارلیمانی کارروائیوں کی فعالیت میں اضافہ کے لیے استعمال کریںگے۔ کیونکہ اب ملک میں ہر تبدیلی پارلیمان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔تہمتیں، الزام تراشیاں اور بلاجواز دشنام طرازیاں ان جیسی بلند قامت شخصیت کو زیب نہیں دیتیں۔اس لیے ان سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ ٹھوس تجاویز کے ساتھ پارلیمان کو درست سمت دینے کی کوشش کریں۔ ہم یہ بھی توقع کرتے ہیںکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے قائدین جلسوںاور جلوسوں میں لاف و گزاف کرنے کے بجائے اسمبلیوں میں سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو مختلف النوع سنگین بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کریں۔