این ای ڈی انٹری ٹیسٹ کے نتائج نے سندھ میں معیارتعلیم کی قلعی کھول دی

رواں سال 10882 امیدواروں میں سے صرف 6533 کامیاب ہوئے

فوٹو: فائل

این ای ڈی یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ نے صوبے کے معیار تعلیم اور تعلیمی بورڈز میں اسسمنٹ کے معیارات کی ایک بار پھر قلعی کھول دی، رواں سال 10882 امیدواروں میں سے صرف 6533 کامیاب ہوئے۔

"ایکسپریس" نے حالیہ سال 2023 اور گزشتہ سال 2022 کے این ای ڈی یونیورسٹی کے رجحان ٹیسٹ کے نتائج میں تعلیمی بورڈز کی کارکردگی کی تفصیلات حاصل کی جس میں سندھ کے تعلیمی بورڈز کی کارکردگی کا گراف تنزلی جبکہ ملک کے دیگر تعلیمی بورڈز اور معروف نجی بورڈز کی کارکردگی کا گراف بلندی کی جانب گامزن ہے، تاہم نتائج میں سندھ میں انٹر بورڈ کراچی کی کارکردگی صوبے کے دیگر بورڈز کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔

اس سلسلے میں یونیورسٹی سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق حال ہی میں منعقدہ سال 2023 کے رجحان ٹیسٹ میں میں کل 10882 امیدوار شریک اور 6533 کامیاب ہوئے ہیں، کامیابی کا کل تناسب 60 فیصد رہا۔

ٹیسٹ میں شریک فیڈرل بورڈ، آغاخان بورڈ اور کیمبرج کے طلبا کے نتائج 66 فیصد سے کم نہیں ہیں جبکہ سوائے کراچی کے سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز 33 فیصد سے اوپر نتائج نہیں دے سکے جبکہ ان کے انفرادی نتائج کی شرح انتہائی مایوس کن ہے۔

حیدرآباد بورڈ سے انٹر کرکے ٹیسٹ میں شریک کل 959 امیدواروں میں سے صرف 33 فیصد امیدواروں نے یہ ٹیسٹ پاس کیا ہے، اسی طرح سکھر بورڈ کے 25 فیصد ،لاڑکانہ بورڈ کے 19 ، میرپورخاص بورڈ کے 32 فیصد اور نواب شاہ بورڈ کے 25 فیصد امیدواروں نے یہ ٹیسٹ پاس کیا ہے۔

البتہ ٹیسٹ میں شریک کراچی بورڈ کے 70 فیصد امیدوار کامیاب رہے، رواں سال کے ٹیسٹ میں فیڈرل بورڈ کے طلبہ کی کامیابی کی شرح 66 فیصد، کیمبرج کے طلبہ کہ پاسنگ شرح 84 فیصد اور آغا خان بورڈ کی 80 فیصد ہے۔

سال 2022 کے نتائج

علاوہ ازیں سال 2022 میں بھی سندھ کے تعلیمی بورڈز کی کارکردگی ابتری اور دیگر تعلیمی بورڈ کی کارکردگی بہتر تھی۔

گزشتہ سال حیدرآباد بورڈ سے شریک طلبا میں سے 25 فیصد ، سکھر سے 23 فیصد لاڑکانہ بورڈ سے 21فیصد ، میرپورخاص بورڈ سے 20 فیصد اور نواب شاہ کے 23 فیصد طلبہ ہی این ای ڈی کا ٹیسٹ پاس کرسکے تھے۔ جبکہ کراچی بورڈ کے نتائج 63 فیصد تھے، فیڈرل بورڈ کے نتائج 78 فیصد، کیمبرج کے90 فیصد اور آغاخان بورڈ کے 81 فیصد تھے اور گزشتہ برس کا مجموعی نتیجہ 55 فیصد تھا۔

سندھ میں گزشتہ 5 برسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی بلا شرکت غیر برسر اقتدار رہی اس دوران محکمہ اسکول ایجوکیشن دو بار سابق وزیر تعلیم سردار شاہ اور ایک بار سعید غنی کے پاس رہا جبکہ محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اسماعیل راہو کے سپرد کیا گیا اور تعلیمی بورڈز مسلسل ٹرانسفر پوسٹنگ کی زد میں رہے اور کلیدی عہدے مستقل افسران سے محروم رہے۔

اس کے اثرات ان بورڈز کے امتحانی نتائج میں اعلی گریڈز سے پاس ہونے والے طلبا اور ان ہی طلبا کے جامعات کے داخلہ اور رجحان ٹیسٹ کے نتائج میں عدم مطابقت کے طور پر سامنے آتے رہے۔


"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی سے رابطہ کیا اور ان سے معیار تعلیم اور اسسمنٹ کے معیارات پر بات چیت کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں اصل مسئلہ implementation کا ہے ، نصاب بہتر ہے فیصلے بھی بہتر کیے جاتے ہیں لیکن ان فیصلوں کے اطلاق میں توجہ کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ اسکولوں میں ہم کیا ڈیلیور کررہے ہیں اور بچے امتحانات میں کیا کرکے آرہے ہیں، ڈاکٹر سروش لودھی کا کہنا تھا کہ اگر میرٹ پر اداروں کے سربراہوں کا تقرر کیا جائے تو مسائل جلد حل ہوسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ میں معیار تعلیم کی بدترین صورتحال کے ساتھ ساتھ امتحانی بورڈز میں ابتر انتظامی صورتحال کو اس صورتحال کی وجہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ 5 سال تک سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے دور میں امتحانی بورڈز بدترین ایڈہاک ازم کا شکار رہے۔

حال ہی میں سبکدوش ہونے والی حکومت کے وزیر اعلیٰ نے جب تقریبا 3 سال قبل تعلیمی بورڈز کے انتظامی اختیارات محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے وزیر کے سپرد کیے تو اس کے بعد تعلیمی بورڈز میں انتظامی بنیادوں پر کی جانے والی بہتری کی تمام کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔

بورڈز میں مستقل چیئرمینز کی تقرری کا معاملہ جو تقریبا حتمی مراحل میں تھا اسے پہلے تو غیرضروری تاخیر کا نشانہ بنایا گیا اور ازاں بعد معاملہ کورٹ میں چلا گیا جس کے سبب یہ تقرریاں نہیں ہوسکیں۔

بورڈز کے سیکریٹریز اور ناظمین امتحانات بھی مستقل کی جگہ ایڈہاک پر ہی تعینات کیے جاتے رہے۔ ایک چیئرمین بورڈ خو اپنی تقرری کا آرڈر کورٹ سے لانے میں کامیاب ہوئے، محض انھیں لاڑکانہ بورڈ میں تعینات کیا گیا تاہم ان کے اقدامات پر لاڑکانہ بورڈ کے افسران و ملازمین ان کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے دفتری کام گھر سے شروع کردیا۔

حال ہی میں جاتے جاتے وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اسماعیل راہو کے احکامات پر ان کا تبادلہ انٹر بورڈ کراچی میں کیا گیا۔ "ایکسپریس " نے ان سے رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کافی عرصے لاڑکانہ بورڈ میں تعینات رہے ان بہتر اقدامات کرنے کے لیے کن مشکلات کا سامنا رہا اور لاڑکانہ بورڈ بھی ان تعلیمی بورڈز کی فہرست میں اب تک کیوں شامل رہا جس کے طلبا امتحان تو بہتر مارکس لے کر پاس کرتے ہیں لیکن رجحان ٹیسٹ میں ناکام رہتے ہیں۔

ان تمام سوالات کے لیے جب پروفیسر نسیم میمن سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس معاملے پر بات چیت سے اجتناب کیا اور بعد میں رابطہ کرنے کی گزارش کی تاہم بعد میں بھی رابطہ کرنے پر وہ بات چیت سے گریزاں رہے۔

ادھر حکومت کی سبکدوشی کے ساتھ ہی سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو بھی اپنا تبادلہ کرا گئے، ان سے جب پوچھا گیا کہ محکمہ کی جانب سے بھی اس طرح کے اقدامات نظر نہیں آئے جس سے اداروں میں بہتری کی توقع کی جاتی جس پر ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹری کی ایک انتظامی حدود ہیں اس میں رہتے ہوئے میں نے بہتری کی بہت کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ کئی بار میں نے بہتری کے لیے کوششیں کی لیکن اوپر سے ویٹو ہوگیا ، سمریز بھجوائی جو منسٹر یا چیف منسٹر کی سطح پر رکی رہیں، نواب شاہ بورڈ میں کسی ایسے شخص کو پوزیشن دی گئی جو سسٹم میں تھا ہی نہیں لیکن سمری گئی کچھ ہوا نہیں، ایک بورڈ میں 8 سال سے ناظم امتحانات خود ہی بیٹھا ہوا ہے، میں نے ہٹایا تو کورٹ نے مجھے ہی بلالیا۔

واضح رہے کہ اس حکومت کے جاتے جاتے وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے احکامات پر مسلسل تبادلے کیے جاتے رہے ، ایک ایڈہاک چیئرمین کو ہٹایا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا بھی ایڈہاک ہی لگادیا جاتا اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔
Load Next Story