قدیم ناموں کو کیوں تبدیل اور مٹایا جارہا ہے

بھلا کون والدین اپنی اولادکو دوزخ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں؟


Rokhan Yousufzai September 24, 2023
بھلا کون والدین اپنی اولادکو دوزخ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

وہ منُہ بسورتا گھر آیا اور والدین سے شکایت کی کہ آپ لوگوں نے میرا یہ کیسا ہندووں والا نام رکھا ہے جس کی وجہ سے میں بعد ازمرگ ہندووں کے ساتھ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہوں گا۔

یہ سن کر ان کے والدین بھی پریشان ہو گئے اور بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو آپ کو یہ کس نے بتایا کہ تمہارا نام رام داد ہندووں کا نام ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ یہ بات آج مجھے اپنے سکول میں نئے آنے والے اسلامیات کے استاذ نے کہی کہ تمہارے نام میں رام کا لفظ آتا ہے اور رام ہندووں کی مقدس ہستی کا نام ہے۔ اس لیے اپنا نام رام داد سے تبدیل کر لو،کیوں کہ یہ غیراسلامی نام ہے اور اسی نام کی وجہ سے تم کو قیامت کے دن کڑی سزا ملے گی اور روز محشر میں ہندووں کے مشابہ اٹھو گے۔ یہ سن کر اس کے والدین کے بھی اوسان خطا ہوگئے۔

بھلا کون والدین اپنی اولادکو دوزخ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں؟ تاہم ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اورنہ انہیں رام داد کے معنی کا علم تھا کیوں کہ وہ دونوں ان پڑھ تھے، جب اپنے بیٹے کے منہ سے یہ بات سنی کہ رام داد توہندووانہ نام ہے تووہ بھی توبہ توبہ کرنے لگ گئے اور اپنے بیٹے کوکہا کہ استاد کی پسند سے اپنا نام بدل لواور یوں وہ رام داد سے رحیم داد بن گیا۔ مگرسکول اوراپنے گھر کے چندافراد کے علاوہ اسے اب بھی لوگ پرانے نام سے ہی پکارتے ہیں جس پرکبھی کبھی وہ سخت برہم بھی ہو جاتا ہے اور کئی لوگوں سے جھگڑا بھی کر چکا ہے، مگررام داد کے نام سے وہ اب بھی چھٹکارا پانے میں ناکام ہے۔

یہ اکیلے رام دادکی نہیں بل کہ ایسے بے شمارافراد کے علاوہ کئی مقامات کی کہانیاں بھی سننے میں آتی ہیں جن کے نام کچھ سے کچھ ہو گئے اور اس قسم کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور یہ کوئی آج سے نہیں بل کہ زمانہ قدیم سے ہوتا چلاآرہا ہے، تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی کوئی قوم دوسری قوم یا ملک کو اپنا مفتوح بنا لیتا تو وہاں کے اہم مقامات ، شاہراہوں، یادگاروںکے نام تبدیل کر کے اپنے نام رکھ دیتے۔

جس کا ثبوت اب بھی ملک کے بیش ترعلاقوں کے وہ قدیم نام ہیں جوآرین،ساکا،کشن،ہن،مغل،سکھ اورانگریزدورپر دلالت کرتے ہیں۔ جن میں سے بہت سے نام صرف اس لیے تبدیل کر دیے گئے کہ یہ غیر اقوام کے غیراسلامی نام ہیں۔ اس سلسلے میں خیبرپختون خوا کے بیش تر علاقوں سمیت صوبائی دارالحکومت پشاور کے کئی مقامات کے پرانے تاریخی خصوصاً ہندووانہ نام صرف اس لیے تبدیل کر دیے گئے کہ یہ ہندووں کے رکھے ہوئے ہیں اوراس سلسلے میں سب سے اہم کردار مذہبی انتہاپسندافراد اداکرتے رہتے ہیں ۔

چوں کہ ہندودشمنی کو ویسے بھی ضرورت سے زیادہ ہوا دی گئی ہے اس لیے جو نام ہندووں کے نام سے ملتا جلتا ہو اسے تبدیل کرنا اورمٹانا توسب سے بڑا ثواب گردانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پشاور اورصوبے کے دیگر علاقوں میں جہاں جہاں بھی ہمارے بعض مذہبی افراد کو ایسے نام ملتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے مشرف بہ اسلام کیا جائے حالاں کہ کسی یادگار یا مقام کا نام تبدیل کرنے سے یہ صرف نام کی تبدیلی نہیں بل کہ اس کے ساتھ اس دور کی ایک تاریخ،یادگار اور ثقافتی باقیات کو مٹانے کے مترادف عمل ہے۔

کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے سب سے پہلے اپنے دربار میں جو پانچ وقت اذان اورجماعت کے ساتھ نماز ہوتی تھی اسے موقوف کر دیا اور نام احمد و محمد جو باہر کے ہندووں اور گھر کی ہندوبیویوں کی خاطر بادشاہ کوگراں معلوم ہوئے تو اپنے مقبروں میں سے جو اس قسم کے ناموں سے موسوم تھے سب کے سب نام ہٹا دئیے۔ بعد میں بھی جتنے حکم ران، فاتحین آئے ان کے ادوار میں بھی مفتوح اقوام کی یادگاروں اوران کے مقامات کے ناموں کومٹا کر اپنے نام رکھے گئے۔

خیبرپختون خوا کا اپنا قدیم و تاریخی نام ''پختون خوا'' ہی تھا اور جس کا ذکر بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے بھی اپنی تاریخ میں کیا ہے یا آج سے پانچ سوسال قبل پختونوں کے مشہور ولی اللہ اخون درویزہ نے بھی اپنی مشہورکتاب''مخزن'' میں دس سے زیادہ مرتبہ اس خطے کو پختون خوا کے نام سے لکھا اور پکارا ہے۔

اس کے بعد خوش حال خان خٹک نے بھی پختونوں کے خطے کو اسی نام سے لکھا اور پکارا ہے اس کے بعدکلاسک شاعرمعزاللہ خان مومند،احمدشاہ ابدالی یہاں تک کہ انگریزمستشرق جیمزڈارمیسٹیٹر نے بھی قیام پاکستان سے پچاس سال قبل ایک کتاب لکھی ہے اور اس کا نام''دپختون خوا دشعرہار وبہار'' رکھا ہے مگر برطانوی سامراج نے اس تاریخی نام کی بجائے اسے شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام دیا تھا یہی وجہ تھی کہ تاریخ کے ہر دور میں ہر حکومت سے پختون اپنے اس قدیم تاریخی نام کا مطالبہ کرتے رہے تھے اور اسے اپنی قومی شناخت اور پہچان سے تعبیر کیا کرتے تھے اورجو لوگ اس نام کی تبدیلی کی مخالفت کیا کرتے تھے اور اسے ایک سیاسی مسئلہ یا ایک سیاسی پارٹی کی ذہنی اختراع سمجھتے تھے تو وہ غلطی پراس لیے تھے کہ ہیروڈوٹس، خوش حال خان خٹک، اخون درویزہ، معزاللہ خان مومند یا احمد شاہ ابدالی تو پاکستان بننے سے صدیوں پہلے گزرے ہیں توکیا ان کا تعلق بھی صوبے کی کسی خاص قوم پرست سیاسی جماعت سے تھا؟ اسی طرح پشاورکا پرانا نام باگرام تھا ، چارسدہ کا قدیم نام پشکلاوتی تھا جب کہ کچھ عرصہ تک اسے اشنغر بھی کہا جا رہا تھا، اوراب بھی اس پورے علاقے کو اشنغر کہا جاتا ہے۔ دورکیوں جائیں قیام پاکستان کے بعد کئی تاریخی اورقدیم یادگاروں،گلی کوچوں،باغات،دیہاتوں اور پارکس کے ناموں کوبھی تبدیل کیا جا چکا ہے۔

پشاور میں واقع مشہور پارک جو انگریز کے دور میں کننگم کے نام سے بنایا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اسے جناح پارک کا نام دیا گیا۔ اسی طرح پشاور میں پنج تیرۃ نامی ایک مقام ہے جو کسی زمانے میں ہندووں کا شمشان گھاٹ ہواکرتا تھا۔ بعد ازاں اس جگہ کا نام گڑُ منڈی رکھ دیا گیا اور آج تک اسے اسی نام سے لکھا اور پکارا جا رہا ہے ۔

جب کہ پشاور کے علاقے کریم پورہ میں ایک اور ایسا محلہ واقع ہے جس کا پرانا نام سوجان رائے تھا لیکن پاکستان کے وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد علماء اور لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ نام ہندووانہ ہے اور ہم چوں کہ مسلمان ہیں اس لیے اس کا کوئی اسلامی نام رکھا جائے جس پر متفقہ طور پر اس محلے کا نام محلہ سبحان رکھ دیا گیا اور اس اقدام کا اثر پشاور کے دوسرے علاقوں پر بھی پڑنا شروع ہوا اور لوگوں کو اپنے علاقوں کے نام بدلنے کا خیال آیا اور پھر ایک بھیڑ چال سی شروع ہو گئی۔

اس حوالے سے کرشن پورہ کا نام بھی تبدیلی کی زد میں آیا اس سے قبل یہ ہندووں کا ایک اہم مقام تھا، مگر ان کے چلے جانے کے بعد اس علاقے کا نام دارالسلام رکھ دیا گیا۔اسی طرح نانک پورہ بھی ایک ایسا نام تھا جو قیام پاکستان سے قبل چلا آرہا تھا، لیکن بعد ازاں لوگوں نے اپنے طور پر ہی اس کا نام تبدیل کر کے بلال ٹاؤن رکھ دیا۔ پشاور کے مشہور باغ کمپنی باغ کا پرانا نام بھی بدل کر خالد بن ولید پارک رکھا گیا۔ صدر میں واقع ایک مشہور بازار گورا بازار کے نام سے جانا جاتا تھا، جب کہ بعد میں اس کا نام لیاقت سٹریٹ رکھ دیا گیا ہے لیکن پھر بھی اس کو زیادہ لوگ گورا بازار کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔

جب کہ لیاقت سٹریٹ کے نام سے جاننے والوں کی تعداد کافی کم ہے۔ اسی طرح بازارکلاں میں ایک محلہ چک سازاں کے نام سے منسوب تھا اور اس کا نام کافی عرصہ بعد محلہ شریف حسین رکھ دیا گیا اور آج بھی اس کا یہی نام چل رہا ہے۔ پجگی روڈ پر ایک مقام واقع ہے جس کو آج کل مسکین آباد کے نام سے پکارا جاتا ہے حالاں کہ ماضی میں اس کا نام مچانو گڑھی تھا جسے بعد میں تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح شہر کا ایک علاقہ شاہ ڈھنڈ کے نام سے مشہور تھا، لیکن کچھ عرصہ قبل اس کے نام کو تبدیل کرتے ہوئے شاہین مسلم ٹاؤن کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح صدر میں باڑہ روڈ پر واقع پشاور سٹیڈیم کا نام بھی سابق وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے قیوم سٹیڈیم رکھ دیا گیا ہے۔ شہر کے مشہور بازار ڈبگری میں واقع محلہ چاندو گلی کا نام بھی تبدیل کر کے ابوبکر صدیق اور ڈبگری کا نام ایک بزرگ شاہ قبول کے نام پر رکھ دیا گیا ہے ۔ اسی طرح پشاور کے قریب واقع ایک گاؤں کا نام پشونگڑو کلے تھا ۔ جس کو اب پشتون گڑھی کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب کہ شہر کے قریب بدھو کے نام سے ایک علاقہ ہے جو بدھ مت کے دور سے اسی نام سے چلا آرہا تھا، کا نام ثمر باغ رکھ دیا گیا ہے ۔ سوات میں بھی بت کدہ نامی ایک مقام تھا جو گوتم بدھ کی وجہ سے کافی تاریخی اہمیت بھی رکھتا تھا اور یہاں پر بتوں کی کچھ تعداد بھی موجود ہے۔ اس کا نام بعد میں تبدیل کر کے گل کدہ رکھ دیا گیا۔

اسی طرح چارسدہ کے ایک علاقے کلیاس کے ایک گاؤں کا نام بنگلہ دیش تھا لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد اس نام پر اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے اور کافی عرصہ بعد اس کا نام تبدیل کرکے حیات آباد رکھ دیا گیا، لیکن آج بھی اس کو بنگلہ دیش کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔اسلام آباد نامی ایک محلہ کافی عرصہ سے چلا آرہا ہے، جب کہ ایک اور علاقے کے لوگوں نے بھی اپنے علاقے کا نام اسلام آباد رکھ لیا ہے جس پر پہلے والے محلے والے لوگوں نے اعتراض کیا اور بات بڑھ گئی اور نوبت جرگے تک پہنچی لہذا آخر میں اسلام آباد نمبر ایک اور اسلام آباد نمبر دو کے ناموں سے ان کو منسوب کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ مردان میں ڈمانو کلے کے نام سے ایک گاؤں تھا اور یہاں رہنے والوں کا کام گانا بجانا تھا۔ ڈمانو کلے کے معنی ڈموں یعنی''میراثیوں کا گاؤں'' کے ہیں ۔ چوں کہ اس گاؤں میں دوسرے لوگ بھی رہتے تھے اس لیے انہوں نے اس نام پر اعتراض کیا اور اس نام کو اپنی بدنامی کا باعث قرار دیتے ہوئے اس کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور کافی لے دے کے بعد اس نام کو تبدیل کرکے ڈپٹی آباد رکھ دیا گیا۔

اسی طرح اکوڑہ خٹک کے قریب ایک علاقے کا نام خٹک سردار ڈنگرزے کے نام پر رکھا گیا تھا لیکن بعد میں اس کا نام تبدیل کرتے ہوئے آدم زئی رکھ دیا گیا جس سے متاثر ہوکرضلع صوابی کے گاؤں موضوع جلسئی اور جلبئی میں بھی اسی نام سے دو محلے منسوب کیے گئے ۔ساتھ اسی علاقے میں واقع کمہ جلبئی کا نام بھی شیر آباد رکھا گیا۔

اسی طرح پشاور کے ایک علاقے قُلمہ کا نام بھی شیرآباد کر دیا گیا ہے، پشاور کے قریب ایک اور علاقے کانام سوٹ مارا تھا جس کو تبدیل کر کے اسلام آباد رکھ دیا گیا ہے۔ اور جس زمانے میں سوات میں مقامی طالبان کی تحریک سرگرم ہوئی اس نے بھی کئی علاقوں کے نام تبدیل کر دئیے ہیں۔ اس تحریک کے سربراہ مولانا فضل اللہ نے بھی اپنے علاقے امام ڈھیری کا نام تبدیل کرکے ایمان ڈھیری رکھ دیا تھا ۔ اسی طرح کوزہ بانڈی کو شریعت بانڈہ اور برہ بانڈی کے علاقے کا نام تبدیل کر کے مجاہد بانڈہ رکھ دیا تھا۔ مگر لوگ آج بھی ان علاقوں کو اپنے پرانے ناموں سے ہی جانتے اور پکارتے ہیں۔

اگر خدانخواستہ خیبرپختون خوا میں مذہی شدت پسندی اسی طرح جاری رہی تو ہو سکتا ہے کہ بدھ مت ، ہندومت، مغلیہ دور، سکھ راج، اور انگریز دور کی قدیم یادگاروں اورعلاقوں ، بازاروں اور محلوں کے نام بھی بدل کر رکھ دیے جائیں۔ یا جن لوگوں کے نام ہندووں کے ناموں سے مماثلت رکھتے ہیں ان کو بھی شاید اپنے نام تبدیل کرنا پڑیں مگر سوال یہ ہے کہ الفاظ کا اپنا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خاص خطہ اور جغرافیہ ہوتا ہے۔

لفظ چاہے جس زبان کا بھی ہو مقدس ہوتا ہے۔ اس لیے لفظ کی حرمت اور تقدس کا خیال رکھنا ہی انسانیت اور رواداری ہے اس طرح نام چاہے جس زبان کا بھی ہو خصوصاً قدیم یادگاروں،شہروں، محلوں، دیہاتوں، باغات اور پارکوں کے اس کے ساتھ اپنے اپنے دور کی ایک تاریخ ،تہذیب اورثقافت وابستہ ہوتی ہے پھر جس طرح ہم اپنی زبان میں اپنی قوم کے اسلاف ،ہیروز، قدیم یادگاروں اور اوران کے رکھے ہوئے ناموں سے عقیدت رکھتے ہیں اس طرح کسی دوسری قوم کے افراد کے جذبات بھی ویسے ہوتے ہیں۔

اس لیے کسی دوسری زبان یا کسی دوسرے مذہب کی باقیات کومٹانے یا انہیں مٹانے اور تبدیل کرنے سے نہ تومذہب کی خدمت کی جا سکتی ہے اورنہ ہی ملک وقوم اور معاشرے پر اس کے کوئی اچھے ثرات مرتب ہوسکتے ہیں الٹا اس قسم کے اعمال اور رویوں سے معاشرے میں عدم رواداری،فرقہ پرستی،انتہاپسندی،اورتنگ نظری میں مزید اضافہ ہوتا ہے جس کا ہم پہلے ہی سے شکار چلے آرہے ہیں، اس لیے ،

لفظ کی حرمت کے لیے حرف کی عظمت کے لیے

آؤ سچائیوں کے ہاتھ پہ بیعت کرلیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں