ادب سخن آرائیاں
شعراء و ادباء کی حاضرجوابی، فقرے بازی، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی اور خوش کلامی کے واقعات
(قسط اول)
دنیا کی مختلف زبانوں میں تخلیق شدہ ادب اور ادب کی ہمہ جہت دنیا میں ہونے والی تخلیقات میں وہی شان دار، جان دار اور دیرپا تصور کی جاتی ہیں جو نہ صرف انسان کے فطری جذبات کی مکمل عکاس ہوں بلکہ ان کے مطالعے سے انسان کی لطف طبع کی تسکین کا سامان بھی بہم ہو سکے۔
اس اصول کے تناظر میں اگر اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو شعری و نثری دونوں حوالوں سے اسے کامل ادب کے نمونے کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ شعروسخن کی باکمال اور بے مثال اصناف کے علاوہ اردو کا نثری ادب بھی اپنی اعلی صنفی تنوع کے باعث قابل رشک اور لائق مطالعہ ہے۔
نثری ادب میں بھی آگے چل کر مزاح نگاری کی صنف کو دیگر اصناف کی نسبت زیادہ مقبولیت حاصل ہے، جس کی ایک بڑی وجہ انسان کا ''حیوان ظریف'' ہونا اور اور فطری طور پر اس کا مزاح پسند، مزاح جو، اور مزاح گو ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت انسان اپنی اسی خاصیت کے سبب اپنے مزاج کی دیگر کیفیتوں کے مقابل مزاح کی طرف جلد مائل ہوتا ہے۔
لہٰذا اس کے اس فطری ذوق کی تسکین کے لیے اردو مزاح کے نثری و شعری ادب میں لاجواب تحریری کاوشیں منظر عام پر آئیں جس میں ایک طرف مزاح نگاری کے شعری افق پر جعفرؔ زٹلی سے لے کر انورؔ مسعود تک معتبر ناموں کی حسین کہکشاں موجود ہے اور دوسری طرف اس کا نثری حصہ پنڈت رتن ناتھ سرشار ؔسے لے کر مشتاق احمد یوسفی جیسے جید قلم کاروں تک کتنے ہی ناموں سے فروزاں دکھائی دیتا ہے۔
مگر انہی اعزازات کے پہلو بہ پہلو یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اردو کے نثری مزاح میں تا حال کسی نئے عنوان یا نئے تحریری تجربے کے تحت کوئی نیا اضافہ نہیں کیا گیا، بلکہ سنجیدہ اردو نثری ادب کی اصناف کو ہی فکاہیہ رنگ میں ڈھال کر کام چلایا گیا اور عصر حاضر میں بھی یہ روش جوں کی توں برقرار ہے ۔
نیا تخلیقی تجربہ نہ سہی پھر بھی تحقیق و تدوین کی بدولت نئے عنوانات کے تحت اس میں تازگی کا احساس ضرور پیدا کیا جا سکتا تھا ،بقول شاعر:۔
؎مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
حتٰی کہ اردو کی معروف آپ بیتیوں، شخصی خاکوں، سوانحی مضامین اور ادبی یادداشتوں پر مبنی تحریروں میں موجود شعراء و ادباء کے فطری حس مزاح پر مشتمل واقعات کے وسیع اور وقیع ذخیرے کونظرانداز کیا گیا اور اس کو باقاعدہ الگ سے تحریری صورت میں محفوظ کرنے کی کوئی نمایاں کوشش نہیں کی گئی، جب کہ ان ''خوش گفتاریوں'' کے تحریری تحفظ کی صورت میں اردو نثری مزاح میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔
اسی نکتے کے پیش نظر ''سخن آرائیاں'' کے عنوان سے زیرنظر مضمون میں اردو کے نام ور شعراء و ادباء کی حاضر جوابی، فقرے بازی، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی اور خوش کلامی کے ان گنت قابل ذکر واقعات سے چند منتخب، منفرد اور مختصر واقعات کا یہ لطیف انتخاب پیش خدمت ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ یہ کاوش اردو کے نثری مزاح میں اضافے کے ساتھ ساتھ اردو مزاح کے قارئین کی ضیافت طبع کے لیے بھی توشۂ خاص ثابت ہو گی۔
میر انیسؔ کے بچپن کے زمانے میں ان کی کسی شرارت پر اہل محلہ نے ان کے شکایت ان کے والد میر خلیق ؔسے کی ۔ میر خلیق ؔان کی سرزنش کرنے کے لیے ان کو تلاش کرتے ہوئے گھر کی جانب آئے۔ میر انیس ؔاپنے والد کے ڈر سے گھر کے احاطے میں لگے مہندی کے درخت کی آڑ میں دیوار پر چڑھ گئے۔ اس وقت آٹھ نو سال کا سن تھا۔ میر خلیق ؔجب اس درخت کے نیچے پہنچے تو میرانیس ؔنے درج ذیل شعر پڑھا:
؎برگ ِ حنا پہ بیٹھ کے لکھتا ہوں دل کی بات
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ!!!
مفتی صدر الدین آزردہ ؔمرزا غالب ؔکے مکان کے سامنے سے گزرے مگر چوںکہ اس وقت جلدی میں تھے لہٰذا انہوں نے مرزا ؔ کے پاس ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ کہاروں سے تاکید کی کہ جلدی چلو، وہ کندھا بدلنے لگے مگر آزردہ ؔکو جلد گھر پہنچنا تھا سو ان کو کندھا نہ بدلنے دیا۔ غالبؔ یہ حال اپنے مکان کے غرفے سے دیکھ رہے تھے۔ فوراً یہ شعر کہہ کر رقعہ لکھا اور آدمی کے ہاتھ مفتی صاحب کے پاس بھیج دیا:
؎پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
آزردہؔ نے شعر پڑھا اور اسی وقت مرزا صاحب کے پاس آئے اور مجبوری کا اظہار کیا معذرت کی اور مرزا ؔصاحب کو رضامند کرکے آزردہ ؔگھر لوٹ آئے۔
شیخ ناسخؔ کے زمانے میں ایک مشاعرے میں طرح تھی ''تقدیر پس پشت، تصویر پسِ پشت۔'' اس میں لکھنؤ کے بڑے بڑے معاصر شعراء نے غزلیں پڑھیں۔ ناسخ ؔکے ساتھ ان کا ایک خادم بھی مشاعرے میں شریک تھا۔ عین مشاعرے کے دوران اس نے کہا ''ایک شعر خادم نے بھی موزوں کیا ہے اگر اجازت ہو!!'' کچھ لوگوں نے اس کی حرکت کو دیوانہ پن سمجھا مگر کچھ نے کہا کیا حرج ہے پڑھنے دیجیے۔ غرض بڑی دقت سے اسے اجازت ملی تو غلام نے یہ شعر پڑھا:
؎زلفوں نے تو پائی رُخ تاباں سے معافی
چوٹی کو ملی ہے تری جاگیر پسِ پشت
میر محمد علی حشمت ؔ خود تو فارسی غزل گو شاعر تھے مگر ریختہ میں انہوں نے کئی شاگرد بہم پہنچائے تھے جن میں میر عبدالحئی تاباںؔ کا نام ہر طرف مشہور تھا۔ استاد سے تاباں ؔکو ایسی محبت تھی کہ اسے ضرب المثل کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ استاد کے بارے میں ان کا شعر بہت مشہور ہوا تھا:
؎نہ مانے جو کوئی حشمت ؔکو تاباںؔ
وہ دشمن ہے محمدؐ اور علیؓ کا
استاد کا نام چوںکہ محمد علی تھا اور خود میر عبدالحئی موصوف سید تھے، اس وجہ سے شعر اور بھی بامزہ ہوگیا ہے۔
ایک مرتبہ مدرسہ الطب لکھنؤ کے چند طلباء بیٹھے اس طبی مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے کہ جب غذا داخل بدن ہوتی ہے تو جزوِبدن بن جاتی ہے۔ خواجہ عشرتؔ لکھنوی بھی پاس بیٹھے تھے۔ آپ نے فی البدیہہ کہا:
؎حکیم کہتے ہیں ہوتی ہے غذا جزوِبدن
ہم تو تحلیل ہوئے جاتے ہیں غم کھانے سے
آتشؔ و ناسخؔ کی معاصرانہ چشمک زوروں پر تھی۔ ایک روز بادشاہ کی طرف سے ایک خاص مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ اس میں آتشؔ کو دعوت دی گئی لیکن جان بوجھ کر ان کے شاگردوں کو نظرانداز کردیا گیا، جب کہ ناسخؔ اپنے تمام شاگردوں سمیت موجود تھے۔
مشاعرے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جب کوئی شاعر اپنا کلام سنا چکتا تو اٹھ کر چلا جاتا۔ جب آتش ؔکی باری آئی تو آثارِسحر نمودار ہو رہے تھے اور بزمِ مشاعرہ بالکل خالی تھی، جیسے ہی شمع ان کے آگے آئی تو انھوں نے اٹھتے اٹھتے یہ فی البدیہہ شعر پڑھا:
؎ رات کو تھا آسماں پہ ماہ و انجم کا ہجوم
صبح کو خورشید جب نکلا تو مطلع صاف تھا
حکیم دانش ؔلکھنوی عمرِآخر میں ضعفِ بصارت کے باعث اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ ایک مشاعرے میں اعزازی طور پر مدعو کیے گئے تو صرف ایک شعر پڑھ کے اٹھ آئے:
؎دیکھ سکتا ہوں نہ ساقی کو نہ میخانے کو
آخری عمر ہے بھر دے کوئی پیمانے کو
شیخ قلندر بخش جرأتؔ نابینا تھے۔ ان کے معاصر شاعر ظہور اللہ خان نوا ؔ نے ان کے بارے درج ذیل شعر لکھ کے ان پر پھبتی کسی:
؎رات کو کہنے لگے جورو کے منہ پر ہاتھ پھیر
قدرتِ حق سے لگی ہے ہاتھ اندھے کے بٹیر
منشی صاحب رائے عہدآصفی کے مؤرخ اور شاعر تھے۔ ایک دن آصف الدولہ عیش باغ کے پھاٹک سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ پھاٹک پہ نصب شیر کے مجسمے کے کھلے ہوئے منہ میں طوطے نے اپنا گھر بنایا ہوا ہے۔ نواب صاحب نے مسکرا کر صاحب رائے کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا:
؎قربان شہ کے صدقے کیا عدل کا نشاں ہے
جو شیر کے دہن میں طوطے کا آشیاں ہے
نواب آصف الدولہ نے جب سفید پوشوں کا بھرم رکھنے کے لیے ایک بے ضرورت امام باڑہ بنانا شروع کیا تو ایک صاحب مزدوری کو آئے جن کو کچھ بھی کرنا نہیں آتا تھا۔ ان سے پردے کی آواز لگانے کا کہا گیا۔ وہ ایک اونچی مچان پر چڑھے اور نواب آصفالدولہ کی محل سرا کی طرف رُخ کر کے یہ آواز لگائی:۔
؎خلدِ بریں کے رہنے والو، حوروں سے کہہ دو پردہ ہو
مہر چڑھا ہے بام ِ فلک پہ پردے دارو پردہ ہو
وہ صاحب معروف شاعر مہر لکھنوی تھے۔
شیخ بہادر علی شجاعت ؔلکھنوی فرماںروائے اودھ امجد علی شاہ کے عہد میں خزانہ شاہی سے دبیرالدولہ کی بدولت تنخواہ پاتے تھے۔ سعید الدولہ علی محمد خان بہادر شاہی خزانے کے وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے تو حکومتی خیرخواہی میں تنخواہ دارانِ خزانہ کی تنخواہوں میں کچھ کمی کردی۔ شجاعت لکھنوی نے سعید الداولہ کی ہجو میں ایک شعر کہہ ڈالا جو بہت مشہور ہوا:
؎کہ اس کے رہنے سے خلقت تمام روتی ہے
سرِ''سعید'' کو کاٹو تو ''عید'' ہوتی ہے
جلیلؔ مانک پوری دربارِعثمانی کے ملک الشعراء تھے۔ وہ شاعری میں نظامِ حیدرآباد کے استاد تھے۔ ایک بار جب شاہِ حیدرآباد پیمانہ لبریز کر رہے تھے تو استاد جلیل کو دیکھ کر بولے،''استاد! اس صورتِ حال پر کوئی شعر ہوجائے۔'' جلیل مانک پوری چند لمحات خاموش رہنے کے بعد بولے:
؎ موسمِ گُل میں عجب رنگ ہے مے خانے کا
شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا
کاظم ؔجاوید لکھنؤ کے مشہور شاعر تھے۔ ایک دفعہ اپنے کسی دوست کے گھر سے اٹھ کر جا رہے تھے کہ بارش نے آلیا۔ پاؤں جو کیچڑ میں پڑا تو پانی کے چھینٹے اُڑ کے لباس پر آپڑے۔ ناگوار گزرا تو حسبِ حال شعر موزوں کیا:
؎جو چھینٹ پاؤں سے اڑتی ہے سر پہ آتی ہے
فلک کی طرح زمیں بھی ہمیں ستاتی ہے
لکھنؤ کے رہنے والے آغاحیدر جو کہ آغاذہین کے نام سے معروف تھے، ان سے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا،''آغا صاحب! آپ ضعیف ہوگئے ہیں، خدا کو یاد کیا کریں، آخر آپ کو جان بھی دینی ہے،کبھی نماز بھی پڑھ لیا کریں۔'' یہ سُن کر آغا صاحب نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا:
؎جو یاد آتی ہے بے آبیِ حُسینؓ شہید
نماز کو نہیں جی چاہتا وضو کرکے
لوگوں نے کہا، ہیں ہیں! آغا صاحب! یہ کیا فرمایا؟ آغا صاحب نے فوراً سنبھلتے ہوئے کہا، ''میں تو یہ کہنا چاہ رہا تھا'':۔
؎جو یاد آتی ہے بے آبیِ حُسینِؓ شہید
نماز پڑھتے ہیں اشکوں سے ہم وضو کرکے
آفتا ب رائے رسوا شاعر تھے۔ ایک دفعہ میرٹھ جا رہے تھے کہ راستے میں دیکھا کہ ایک صاحبِ جمال لڑکا کوٹھے پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ رسوا نے اسے دیکھا تو لڑکے نے شرم سے اپنا چہرہ پتنگ کی اوٹ میں چھپالیا۔ رسوا نے فی البدیہہ شعر کہا:
؎کاغذ سے کیوں کرو ہو رخ اوپر حجاب تم
چھپتی نہیں ہے شمع پتنگوں کی اوٹ میں
شبلی نعمانی صاحب ذوق اور اردو تاریخ کے نامی گرامی کردار عطیہ فیضی بیگم کی صحبت کو خاصا پسند کرتے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ عطیہ نے ایک یہودی (رحمین) کو مسلمان کرنے کے بعد اس سے شادی کرلی ہے تو علامہ نے عطیہ کے نام ایک خط لکھا اور درج ذیل شعر لکھ کے بھیجا:
؎بتان ہند کافر کرلیا کرتے تھے مسلم کو
''عطیہ ''کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے
علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء میرحسن کے ایک عزیز احسان جو کہ وزنی تھے اس کو علامہ نے اٹھایا تو تھوڑی دور چلنے کے بعد تھک گئے۔ میر حسن پلٹے اور اقبال کی حالت دیکھ کے بولے، ''اقبال! اس کی برداشت بھی دشواری ہے''
تو علامہ کی زبان سے برجستہ نکل گیا،''تیرا احسان بہت بھاری ہے۔''
لکھنؤ اسمبلی کی جانب سے ایک مرتبہ آل انڈیا اردو ہندی مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ ایک ہندو مزاحیہ شاعر نے اپنے ایک شعر میں کہا کہ اردو شاعری میں سوائے چوما چاٹی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بات مشاعرے میں موجود اردو شعراء کو نا گوار گزری۔ بعد ازآں اردو کے ایک شاعر آفتاب ؔلکھنوی نے اپنی ایک غزل پڑھی جس میں اس ہندی شاعر کو منہ توڑ جواب دیا اور اس ہندی شاعر کو مخاطب کرکے کہا:
؎آپ کیا سمجھیں گے حضرت ہندی و اردو کا فرق
بھنگ کے کلھڑ کہاں صہبا کے پیمانے کہاں؟؟
ایک زمانے میں ولایتی شراب گولڈن ربن بیئر کی بوتل آٹھ آنے سے نو آنے کی ہوگئی تو اس اضافے پر کیفی ؔدہلوی نے یہ شعر لکھا:
؎مہنگی شراب ہوگئی کیفی ؔنے چھوڑ دی
کافر کو مفلسی نے مسلماں بنا دیا
حیدرآباددکن میں فانیؔ بدایونی کے گھر شعراء و ادباء کی ایک نجی محفل میں ہوش بلگرامی بھی موجود تھے۔ اسی اثناء میں جوش ؔبھی آپہنچے۔ فانی ؔنے استقبال کیا اور بتایاکہ ہوش ؔصاحب بھی موجود ہیں تو جوش صاحب نے فی البدیہہ مصرع کہا:
؎''ہوش'' سے کہہ دو چلا جائے کہ ''جوش'' آتا ہے