واپسی کے سفر کا مزا اور ہے

کینیڈا تاریخی جغرافیائی تہذیبی اور تاریخی ہر لحاظ سے دیگر مغربی ممالک اور امریکا سے قدرے مختلف ہے ...


Amjad Islam Amjad May 15, 2014
[email protected]

24اپریل سے9 مئی تک کے سفر کینیڈا و امریکا کا احوال تو گزشتہ چار کالموں میں آپ پڑھ چکے ہیں۔ یہ اس سلسلے کا آخری کالم ہے جس کا مقصد ان تاثرات کو قلم بند کرنا ہے جو کینیڈا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی صورت حال کے حوالے سے مرتب ہوئے ہیں۔ ممکن ہے اس بیانیے میں آپ کو گزشتہ تیس برس میں کیے گئے اسفار کی بازگشت اور باز دید بھی سنائی اور دکھائی دے کہ اس کہانی کے بہت سے کردار اور مناظر اپنے اندر ایک اندرونی ربط رکھتے ہیں۔

اتفاق سے میرا قیام اس بار بھی مسس ساگا کے علاقے میں تھا جہاں میں تیس برس قبل مرحوم جمال زبیری کا اور اب کے ذکیہ غزل کا مہمان تھا۔ یہ علاقہ ایشین اور عرب لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور ٹورنٹو شہر سے متصل مگر اس سے علیحدہ ایک باقاعدہ شہر نما آبادی ہے، اس طرح کے دو تین اور علاقے بھی ٹورنٹو کے مضافات میں واقع ہیں جب کہ گریٹر ٹورنٹو اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا شہر ہے جس کی وسعت کا اندازہ آپ یوں کر سکتے ہیں کہ ٹورنٹو کی سرحد سے ڈاکٹر تقی عابدی کے گھر واقع نیو مارکیٹ تک تقریباً سوا گھنٹے اور ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ سب علاقے اگرچہ مرکزی شاہراہ 401 سے ملے ہوئے ہیں لیکن جس طرف بھی جائیں یوں لگتا تھا جیسے آپ کسی دوسرے شہر میں جا رہے ہیں اور قدم قدم پر منیر نیازی کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا' تو میں نے دیکھا

مثال کے طور پر ٹورنٹو سے نیاگرا فال کا فاصلہ 92 کلومیٹر درج تھا مگر اصل فاصلہ 127 کلومیٹر نکلا کہ آبشار کا محل وقوع شہر کے دوسرے کونے میں تھا، چودہ سو برس قبل یہ سبق ہمیں دیا گیا تھا کہ جب شہر ایک حد سے بڑھ جائیں تو انھیں مزید بڑا نہ کرو بلکہ اس کی جگہ نئے شہر بسائو تا کہ ان کا انتظام تمہارے قابو میں رہے لیکن اس پر عمل آج کی ترقی یافتہ قوموں نے کیا ہے کہ ان کے ہر بڑے شہر کے اندر کئی چھوٹے چھوٹے اور خود کفیل شہر آباد ہوتے ہیں اور شہری سہولیات سے متعلق ان کے تمام سسٹم ہمہ وقت ٹھیک کام کرتے رہتے ہیں، سو لندن ہو یا فرینک فرٹ' پیرس ہو یا نیو یارک' ٹورنٹو ہو یا ٹوکیو کسی بھی شہر میں آپ کو اس طرح کی افراتفری اور روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرنے والے مسائل نہیں ملیں گے جن کا سامنا کراچی' کول کتہ' ممبئی' لاہور یا ڈھاکہ کے باسیوں کو دن رات کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں سے کینیڈا میں تارکین وطن کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے کہ آسٹریلیا کے علاوہ یہ واحد علاقہ ہے جہاں زمین اور وسائل بہت زیادہ اور آبادی نسبتاً بہت کم ہے۔

کینیڈا تاریخی جغرافیائی تہذیبی اور تاریخی ہر لحاظ سے دیگر مغربی ممالک اور امریکا سے قدرے مختلف ہے، اس لیے وہاں پر مقیم مسلمانوں کو سانس لینے کے لیے نسبتاً بہتر اور کشادہ فضا حاصل ہے، یہ اور بات ہے کہ اولاد کی تعلیم اور بہتر مستقبل کا بہانہ کر کے جو لوگ اپنے ملک کے وسائل کو لوٹ کر وہاں منتقل ہوئے ہیں، انھیں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ نقل مکانی ایک Package Deal ہے اور اس Package کی شرائط وہ معاشرہ طے کرتا ہے جس کا ہاتھ اوپر ہے یعنی ایک انگریزی محاورے کے مطابق Beggers are no choosers کا سا معاملہ ہے۔ خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ اب وہاں بہت سے ایسے خاندان بھی آباد ہو رہے ہیں جن کے نہ صرف بچے لائق اور اپنی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ جن کے والدین بھی اپنی محنت سے حق حلال کی روزی کما اور ان بچوں کو کھلا رہے ہیں۔

اس سفر کے دوران مجھے ایسے کئی خاندانوں سے ملنے کا موقع ملا ہے جن کے بچے ذکیہ اور وسیم کے بچوں عمیر، اُزیر اور آمنہ کی طرح بیک وقت نئی دنیا کے باسی بھی ہیں اور اپنی اقدار کے علم بردار بھی۔ یہ لوگ اس معاشرے میں محنت اور صلاحیت کے باعث آگے بڑھ رہے ہیں کہ یہی وہاں کا سکہ رائج الوقت ہے۔ ذکیہ کی بیٹی آمنہ کی عنقریب گریجویشن ہونے والی ہے۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ مستقبل میں نہ صرف تعلیم و تدریس سے وابستہ ہونا چاہتی ہے بلکہ اس کام کے لیے پاکستان واپس جانا چاہتی ہے کہ اپنے وطن کا قرض اتارنے کا یہ خوب صورت اور تعمیری جذبہ وہاں کی نوجوان نسل میں تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اپنی ذمے داری کو محسوس کرے اور اس حقیقت سے آنکھیں نہ چرائے کہ اس وقت تقریباً چالیس لاکھ پاکستانی دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں، انھیں ہر وقت ڈرایا اور مایوس نہ کیا جائے۔ پاکستان میں بلاشبہ بہت سے کام ٹھیک نہیں ہو رہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو رہا۔ اگر ہمارا میڈیا پاکستانی عوام کی انفرادی کامیابیوں کو (جو بے شمار ہیں) بھی سامنے لاتا رہے اور ان اجتماعی اچھے کاموں پر (جو شاید تعداد میں بہت زیادہ نہ ہوں) بھی گاہے گاہے روشنی ڈالتا رہے تو یہ نوجوان ذہین تربیت یافتہ اور پر امید نسل پاکستان کی تقدیر کو اسی طرح سے بدل سکتی ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ تیس برس میں بیرون ملک مقیم چینیوں نے کیا ہے کہ آج کا چین ان کی وطن واپسی اور ترقی سے وابستہ ہنر مندیوں کی مدد کے بغیر کبھی وہ ترقی نہ کر سکتا جس نے آج اسے دنیا کی ایک عظیم معاشی قوت بنا دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں