مطلق العنانی
ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب ضرور ہوگا مگر یہ احتساب سیاسی حکمران نہیں متعلقہ ادارے کریں گے
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو برے دن دکھانے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، بعض نقصانات زندگی میں پورے ہو جاتے ہیں مگر بعض کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی تلخیاں نہیں آنی چاہئیں تھیں جتنی لائی گئیں۔
ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا معاملات اس نہج پر جانے کے باعث ہی ہم نے کسی جرم کے بغیر ہی جیلیں بھگتیں۔ ہمیں انتقام کی خواہش نہیں مگر جنھوں نے آئین کے برعکس کام کیے انھیں سزا ملنی چاہیے۔ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چار سال بعد منعقد ہونے والے فل بینچ سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ میں عدالتی فیصلوں کے نہیں آئین اور قانون کے تابع ہوں ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔
ماضی میں ہونے والے بعض عدالتی فیصلوں سے ناانصافیاں ہوئیں اور عدلیہ کے فیصلے متنازع ہونے کے باعث تسلیم نہیں کیے گئے۔
بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں پر صدر آصف زرداری نے معافی بھی مانگی تھی مگر وہ صرف زبانی معافی تھی، بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا مداوا دس سال میں بھی نہیں ہوا۔ بلوچستان کے عوام کی شکایات اب بھی برقرار ہیں۔
یہ صوبہ ملک کا واحد صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال مگر سب سے زیادہ پس ماندہ اور احساس محرومی کا شکار صوبہ ہے جس کا ماضی میں منتخب وزیر اعظم بھی رہا اور 6 سال سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ بھی ہیں اور موجودہ نگران وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور ایک اور نگران وزیر اعظم بلوچستان سے رہے ہیں اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا اور ریکوڈک کا فیصلہ بھی انھوں نے ہی دیا تھا۔
ملک کے 52 سالوں میں مارشل لا بھی لگے اور غیر سویلین اور سویلین وزرائے اعظم نے بھی حکومت کی اور 2012 سے قبل تک سویلین وزرائے اعظم غیری سویلین حکمرانوں کے ہاتھوں برطرف ہوا۔ 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کی آخری برطرفی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ دو سویلین صدور نے بھی تین بار دو مختلف پارٹیوں کے وزیر اعظم 58/2-B کے تحت برطرف کیے تھے۔
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کو اپنے تابع رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں جج برطرف کیے تھے جس کے خلاف ملک میں بھرپور تحریک چلی جس میں نواز شریف پیش پیش تھے جب کہ صدر آصف زرداری ججوں کو بحال کرنے کے وعدے سے منحرف ہوگئے اور وہ عدلیہ کی مکمل آزادی سے ہونے والا نقصان بھانپ چکے تھے مگر نواز شریف عدلیہ کی بحالی چاہتے تھے ان کی تحریک سے عدلیہ بحال ہوئی اور بحالی کا حکم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جاری کیا تھا مگر افتخار چوہدری کے دوبارہ چیف جسٹس بننے سے عدلیہ اتنی طاقتور ہوئی کہ خط نہ لکھنے پر یوسف رضاگیلانی دو منٹ کی سزا پر سپریم کورٹ سے برطرف اور نااہل ہوئے اور صدر زرداری کو محتاط رہ کر اپنی مدت پوری کرنا پڑی۔
اس وقت کچھ قوتیں نیا حکمران چاہتی تھیں جس کو لانے کے لیے عوامی تحریک اور پی ٹی آئی سے نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنے کرائے گئے جس کا مقابلہ پارلیمنٹ نے بھرپور طور پرکیا اور کامیاب رہی مگر پاناما میں کوئی ثبوت نہ ملنے پر دبئی میں نواز شریف کا اقامہ تلاش کرایا گیا کیونکہ انھیں ہٹانا بعض بڑوں کی ضد تھی اور آئین کے برعکس مطلق العنانی کرتے ہوئے ایک اور منتخب وزیر اعظم کو عدلیہ کے فیصلے سے برطرف اور تاحیات نااہل کیا گیا۔ عدالتی فیصلوں کے تحت دو وزیر اعظم برطرف ایک پھانسی چڑھا۔ ایک عدالتی فیصلے پر جسٹس منیر پر اب تک تنقید ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے آئین کے برعکس جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا تھا جس کے بعد ججز کی بڑی تعداد جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔ حال میں صرف پنجاب میں انتخابات کرانے کے عدالتی حکم کی تعمیل میں پہلی بار پارلیمنٹ رکاوٹ بن گئی تھی جس کے باعث سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل نہ کرا سکی۔
ایسے فیصلوں سے محتاط رہنے کا نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں کے نہیں آئین و قانون کے تحت اپنے فرائض انجام دیں گے۔ ماضی میں عدلیہ میں جو غیر آئینی فیصلے آئے اور اس سے عدلیہ پر اعتراضات ہوئے۔
اسی عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے آئین پسند ججز اب سامنے آچکے ہیں۔ یہ ججز پارلیمنٹ کی اہمیت کم کرنے پر یقین نہیں رکھتے اور صرف آئین و قانون پر عمل کا اعلان کر چکے ہیں جو ایک اچھا اور باوقار فیصلہ اور احسن قدم ہے۔
سابق وزیر اعظم کی اپنی نااہلی سے متعلق چار اعلیٰ ججز کے خلاف شکایات ہیں اور وہ انھی کے لیے کہہ رہے ہیں کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب ضرور ہوگا مگر یہ احتساب سیاسی حکمران نہیں متعلقہ ادارے کریں گے۔
جنرل پرویز مشرف کے احتساب کی سزا نواز شریف اب تک بھگت رہے ہیں اور انتقام کی خواہش بھی نہیں رکھتے اور قاضی فائز عیسیٰ بھی کہہ چکے ہیں کہ ماضی کو بھول جائیں۔ کوئی سیاسی حکومت اور پارلیمنٹ دو بڑے اداروں میں مطلق العنانی کرنے والوں کا احتساب اپنی کمزوری کے باعث کر ہی نہیں سکتی اس کے لیے پارلیمنٹ کی مضبوطی ضروری ہے اس لیے نواز شریف متعلقہ افراد کا احتساب چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا۔
ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا معاملات اس نہج پر جانے کے باعث ہی ہم نے کسی جرم کے بغیر ہی جیلیں بھگتیں۔ ہمیں انتقام کی خواہش نہیں مگر جنھوں نے آئین کے برعکس کام کیے انھیں سزا ملنی چاہیے۔ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چار سال بعد منعقد ہونے والے فل بینچ سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ میں عدالتی فیصلوں کے نہیں آئین اور قانون کے تابع ہوں ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔
ماضی میں ہونے والے بعض عدالتی فیصلوں سے ناانصافیاں ہوئیں اور عدلیہ کے فیصلے متنازع ہونے کے باعث تسلیم نہیں کیے گئے۔
بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں پر صدر آصف زرداری نے معافی بھی مانگی تھی مگر وہ صرف زبانی معافی تھی، بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا مداوا دس سال میں بھی نہیں ہوا۔ بلوچستان کے عوام کی شکایات اب بھی برقرار ہیں۔
یہ صوبہ ملک کا واحد صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال مگر سب سے زیادہ پس ماندہ اور احساس محرومی کا شکار صوبہ ہے جس کا ماضی میں منتخب وزیر اعظم بھی رہا اور 6 سال سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ بھی ہیں اور موجودہ نگران وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور ایک اور نگران وزیر اعظم بلوچستان سے رہے ہیں اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا اور ریکوڈک کا فیصلہ بھی انھوں نے ہی دیا تھا۔
ملک کے 52 سالوں میں مارشل لا بھی لگے اور غیر سویلین اور سویلین وزرائے اعظم نے بھی حکومت کی اور 2012 سے قبل تک سویلین وزرائے اعظم غیری سویلین حکمرانوں کے ہاتھوں برطرف ہوا۔ 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کی آخری برطرفی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ دو سویلین صدور نے بھی تین بار دو مختلف پارٹیوں کے وزیر اعظم 58/2-B کے تحت برطرف کیے تھے۔
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کو اپنے تابع رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں جج برطرف کیے تھے جس کے خلاف ملک میں بھرپور تحریک چلی جس میں نواز شریف پیش پیش تھے جب کہ صدر آصف زرداری ججوں کو بحال کرنے کے وعدے سے منحرف ہوگئے اور وہ عدلیہ کی مکمل آزادی سے ہونے والا نقصان بھانپ چکے تھے مگر نواز شریف عدلیہ کی بحالی چاہتے تھے ان کی تحریک سے عدلیہ بحال ہوئی اور بحالی کا حکم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جاری کیا تھا مگر افتخار چوہدری کے دوبارہ چیف جسٹس بننے سے عدلیہ اتنی طاقتور ہوئی کہ خط نہ لکھنے پر یوسف رضاگیلانی دو منٹ کی سزا پر سپریم کورٹ سے برطرف اور نااہل ہوئے اور صدر زرداری کو محتاط رہ کر اپنی مدت پوری کرنا پڑی۔
اس وقت کچھ قوتیں نیا حکمران چاہتی تھیں جس کو لانے کے لیے عوامی تحریک اور پی ٹی آئی سے نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنے کرائے گئے جس کا مقابلہ پارلیمنٹ نے بھرپور طور پرکیا اور کامیاب رہی مگر پاناما میں کوئی ثبوت نہ ملنے پر دبئی میں نواز شریف کا اقامہ تلاش کرایا گیا کیونکہ انھیں ہٹانا بعض بڑوں کی ضد تھی اور آئین کے برعکس مطلق العنانی کرتے ہوئے ایک اور منتخب وزیر اعظم کو عدلیہ کے فیصلے سے برطرف اور تاحیات نااہل کیا گیا۔ عدالتی فیصلوں کے تحت دو وزیر اعظم برطرف ایک پھانسی چڑھا۔ ایک عدالتی فیصلے پر جسٹس منیر پر اب تک تنقید ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے آئین کے برعکس جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا تھا جس کے بعد ججز کی بڑی تعداد جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔ حال میں صرف پنجاب میں انتخابات کرانے کے عدالتی حکم کی تعمیل میں پہلی بار پارلیمنٹ رکاوٹ بن گئی تھی جس کے باعث سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل نہ کرا سکی۔
ایسے فیصلوں سے محتاط رہنے کا نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں کے نہیں آئین و قانون کے تحت اپنے فرائض انجام دیں گے۔ ماضی میں عدلیہ میں جو غیر آئینی فیصلے آئے اور اس سے عدلیہ پر اعتراضات ہوئے۔
اسی عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے آئین پسند ججز اب سامنے آچکے ہیں۔ یہ ججز پارلیمنٹ کی اہمیت کم کرنے پر یقین نہیں رکھتے اور صرف آئین و قانون پر عمل کا اعلان کر چکے ہیں جو ایک اچھا اور باوقار فیصلہ اور احسن قدم ہے۔
سابق وزیر اعظم کی اپنی نااہلی سے متعلق چار اعلیٰ ججز کے خلاف شکایات ہیں اور وہ انھی کے لیے کہہ رہے ہیں کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب ضرور ہوگا مگر یہ احتساب سیاسی حکمران نہیں متعلقہ ادارے کریں گے۔
جنرل پرویز مشرف کے احتساب کی سزا نواز شریف اب تک بھگت رہے ہیں اور انتقام کی خواہش بھی نہیں رکھتے اور قاضی فائز عیسیٰ بھی کہہ چکے ہیں کہ ماضی کو بھول جائیں۔ کوئی سیاسی حکومت اور پارلیمنٹ دو بڑے اداروں میں مطلق العنانی کرنے والوں کا احتساب اپنی کمزوری کے باعث کر ہی نہیں سکتی اس کے لیے پارلیمنٹ کی مضبوطی ضروری ہے اس لیے نواز شریف متعلقہ افراد کا احتساب چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا۔