دل روح کی مسند ہے
انسان کی تمام تر حسیں دنیاوی طور پر اسے فعال رکھتی ہیں۔ مگر یہ حسیں روحانی طور پر اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں ...
سر یمن کلیان کے لغوی معنی ہیں دل کو قابو میں رکھنا، جسے ایمن کلیان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کلیان کا تعلق ٹھاٹ سے ہے۔ بھٹائی کے شاہ جو رسالو کا ابتدائی اہم سر ہے۔ یہ راگنی رات کے وقت گائی جاتی ہے۔ رات کی خاموشی زمین میں یکسوئی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ دن کے ہنگامے انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں، مگر رات دوبارہ کھوئے احساس کو خالص پن کی طرف لے کر آتی ہے۔
انسان کی تمام تر حسیں دنیاوی طور پر اسے فعال رکھتی ہیں۔ مگر یہ حسیں روحانی طور پر اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں، جب دل سے محسوس کرنے یا دل کی آنکھ سے دیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ باطن کی تیسری آنکھ سمجھ، ادراک، عرفان، الہام و آفاقیت کا اظہار ہے۔ زندگی کو گہرائی میں پرکھنا، دیکھنا و محسوس کرنا اس وقت ممکن ہے، جب دل ترتیب کے دائرے میں دھڑکتا ہے۔ دل جب ترغیبات و دلچسپیوں میں گم ہوجاتا ہے، تو احساس آلودگی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اور باطن کی آنکھ پر پردہ سا آ جاتا ہے۔ سچ و جھوٹ کی تمیز مٹ جاتی ہے۔
شاہ لطیف کی پچھلے دنوں 333 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقعے پر ایک بار پھر سندھ کے عظیم صوفی شاعر کے فن و فکر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ امن، آشتی و محبت کا پیغام ہے۔ جسے سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شاہ صاحب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہمدردی کے جذبات یا ہم آہنگی اس وقت ممکن ہوتی ہے، جب فریقین کے مشاہدے و تجربات ایک جیسے ہوں۔
جس کی فطرت میں ہو تن آسانی
جس کی آرام سے گزرتی ہے
کیا خبر اس کو کہ خستہ حالی پر
بے بسی کتنے وار کرتی ہے
سندھ کے سماجی شعور کو اجاگر کرنے میں صوفی شعرا کے کلام اور ان کے مزاروں پر منعقد محفلوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جہاں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ مل بیٹھتے ہیں۔ ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا کتھارسس (غم کی تحلیل نفسی) ہے۔ ویسے تو دکھ ایک انفرادی رویہ ہے، مگر جو اجتماعی طور پر طاقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ دکھ، باطن کی تیسری آنکھ کو جلا بخشتا ہے۔ دکھ کی نفسیات یہ ہے کہ اس کی کسک انسان کے احساس میں وسعت و ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
سر دکھی سوچ دوسرے کی تکلیف سے غافل نہیں ہوتی۔ دکھ سے آشنا دل میں نرمی و گداز اور انسانیت سے مضبوط تعلق کی ڈور بندھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھ اور تن آسانی انفرادی سوچ و فائدے سے تعلق رکھتی ہے۔ موجودہ معاشرے میں آج کل جو ہو رہا ہے، شاہ صاحب کا یہ شعر اس المناک رویے کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔ معاشرے کا ایک خوشحال طبقہ ہے، جو سکھ اور آسانیوں میں پسماندہ طبقے کے مسائل کو سمجھنے اور اس کا حل ڈھونڈ نکالنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
کچھ ایسا کَس کے تو نے تیر مارا
کہ لگتے ہی جگر کے پار پہنچا
تجھے میں نے میرے بھولے شکاری
بڑا مشاق تیر انداز پایا
شاعری الہامی کیفیت کا عکس ہے، جو لاشعور سے پھوٹ نکلتی ہے۔ درحقیقت سوچ شفاف ہے تو خیال بھی پر اثر ہے۔ یونانی مفکر لنجائنس کے مطابق، اعلیٰ اسلوب بلند سوچ و افکار کا ردعمل ہے۔ یعنی پر اثر لفظ سوچ کی سچائی سے تشکیل پاتے ہیں۔ ذہن خوبصورت نہیں تو اعلیٰ افکار بھی بے اثر ہیں۔ عمل کی تاثیر نہ ہو، تو لفظ بے ہنر کہلاتے ہیں۔ اچھا عمل بھی مثبت سوچ کا آئینہ ہے۔ خیال مستقل کھوج کے سفر پر نکلتا ہے۔ اسے بصیرت و نقطہ نظر کی وحدت چاہیے۔
ارسطو کا کہنا تھا کہ تخلیق کے لیے فطری وحدت کا ہونا ضروری ہے۔ جس کے بغیر خیال میں انفرادیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جس میں یکسوئی نہ ہو اگر تو وہ خیال بے روح ہو گا۔ سر یمن چونکہ دل کی آزمائش و بصیرت کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ پوری کائنات دل کی دھڑکنوں میں سمائی ہوئی ہے۔ دل پورے جسم کو شفاف خون مہیا کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن زندگی سے رابطے کی علامت ہے، گویا کہ دل انسانی جسم کا مرکز ہے۔ مرکز پر آنا خالص روپ ہے۔ مرکز سے ہی رابطوں کے بے شمار سلسلے نکلتے ہیں۔ جذباتی تحرک پر دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش آ جاتا ہے۔ تعلق، نسبت اور ربط باہمی کا استعارہ دل طبی حیثیت کے ساتھ روحانی منزلیں بھی طے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم صوفی دل کو روح کی مسند قرار دیتے ہیں۔
دل کو روح کی آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ دل کی تاثیر مضبوط قلعے کی مثل ہے، جو بدی کی قوتوں کے خلاف جسم و روح کا دفاع کرتا ہے۔ صوفی بھی دل کی آواز پر دھیان دیتے ہیں۔ وجدان، ادراک اور الہامی کیفیات دل کی تپسیا کا ثمر ہیں۔ جس قدر دل کی آزمائشیں کڑی ہوں گی، اتنا ہی احساس میں اثر آتا جائے گا۔ جب تک انسان بے خبر ہے، اسے بے انداز تکلیف ملتی ہے۔ وہ چہروں کو پہچان نہیں سکتا، بناوٹی لہجوں کے پیچ و خم سمجھ نہیں پاتا، لہٰذا اس کا دل دکھ کے بھنور میں ڈوبتا رہتا ہے۔ مگر جو دل زندگی کے تضاد سے اچھی طرح واقف ہے، وہ خود اپنے لیے راستہ ڈھونڈ نکالے گا۔
شکوے سن کر بھی تو رہے خاموش
تیرے ہادی کی یہ ہدایت ہے
سرخروئی ہوئی اسے حاصل
اپنے پر آپ جس کو قدرت ہوئی
شاہ صاحب کے فن و فکر پر مقامی و بین الاقوامی محققین نے کام کیا ہے۔ ایچ ٹی سورلی وہ انگریز مفکر ہیں، جنھوں نے شاہ صاحب کے فن شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ایچ ٹی سورلی اپنے ایک مقالے میں کہتے ہیں ''درحقیقت، عارف صوفی کے نظارے میں خالص خوشی کی سرزمین ہے، جہاں صوفی بزرگوں کی دائمی حکومت قائم ہے، جہاں روشنی، سمجھ، تسکین اور وجدانی کیفیات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جہاں وجدانی کیفیات صوفی کی نس نس میں اترتی جاتی ہیں۔''
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے مشکل کام دل کو سمجھانا اور سدھانا ہے۔ ورنہ وہ سرکش گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتا ہوا انسانی قدریں روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اگر انسانی دل اعتدال پر ہے تو اس ترتیب کا عکس معاشرتی زندگی میں بھی واضح طور پر دکھائی دے گا۔ اور رویوں کا یہ حسن توازن گھروں کی بقا و سلامتی کا ضامن ہو گا۔ دراصل صوفی کی نگاہ انفرادی و معاشرتی زندگی کی اس جڑ تک جا پہنچتی ہے جہاں سے دل و دماغ کی خرابیوں کے سلسلے چل نکلتے ہیں۔ بے اطمینانی وہ بیماری ہے، جو اگر دل کو لاحق ہو جائے تو کئی منفی رویوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ اس بے چینی کا حل نہ بھی ملے تو بھی اسے صبر کی لوری سے تھپک کر سلانا ہے۔ کیونکہ جن مسائل کا حل نہ ہو ان معاملات میں دل بے قابو ہو جاتا ہے۔ ایسے مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سمجھ میں ہی زندگی کے تمام تر مسائل کا حل موجود ہے۔
یہ بے نوری یہ بے سوزی کہاں تک
بڑھو سب خامیاں اپنی مٹاؤ
جلو اس آگ میں جب تک ہے جینا
لگی اپنی نہ غیروں کو دکھاؤ
انسان کی تمام تر حسیں دنیاوی طور پر اسے فعال رکھتی ہیں۔ مگر یہ حسیں روحانی طور پر اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں، جب دل سے محسوس کرنے یا دل کی آنکھ سے دیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ باطن کی تیسری آنکھ سمجھ، ادراک، عرفان، الہام و آفاقیت کا اظہار ہے۔ زندگی کو گہرائی میں پرکھنا، دیکھنا و محسوس کرنا اس وقت ممکن ہے، جب دل ترتیب کے دائرے میں دھڑکتا ہے۔ دل جب ترغیبات و دلچسپیوں میں گم ہوجاتا ہے، تو احساس آلودگی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اور باطن کی آنکھ پر پردہ سا آ جاتا ہے۔ سچ و جھوٹ کی تمیز مٹ جاتی ہے۔
شاہ لطیف کی پچھلے دنوں 333 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقعے پر ایک بار پھر سندھ کے عظیم صوفی شاعر کے فن و فکر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ امن، آشتی و محبت کا پیغام ہے۔ جسے سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شاہ صاحب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہمدردی کے جذبات یا ہم آہنگی اس وقت ممکن ہوتی ہے، جب فریقین کے مشاہدے و تجربات ایک جیسے ہوں۔
جس کی فطرت میں ہو تن آسانی
جس کی آرام سے گزرتی ہے
کیا خبر اس کو کہ خستہ حالی پر
بے بسی کتنے وار کرتی ہے
سندھ کے سماجی شعور کو اجاگر کرنے میں صوفی شعرا کے کلام اور ان کے مزاروں پر منعقد محفلوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جہاں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ مل بیٹھتے ہیں۔ ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا کتھارسس (غم کی تحلیل نفسی) ہے۔ ویسے تو دکھ ایک انفرادی رویہ ہے، مگر جو اجتماعی طور پر طاقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ دکھ، باطن کی تیسری آنکھ کو جلا بخشتا ہے۔ دکھ کی نفسیات یہ ہے کہ اس کی کسک انسان کے احساس میں وسعت و ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
سر دکھی سوچ دوسرے کی تکلیف سے غافل نہیں ہوتی۔ دکھ سے آشنا دل میں نرمی و گداز اور انسانیت سے مضبوط تعلق کی ڈور بندھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھ اور تن آسانی انفرادی سوچ و فائدے سے تعلق رکھتی ہے۔ موجودہ معاشرے میں آج کل جو ہو رہا ہے، شاہ صاحب کا یہ شعر اس المناک رویے کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔ معاشرے کا ایک خوشحال طبقہ ہے، جو سکھ اور آسانیوں میں پسماندہ طبقے کے مسائل کو سمجھنے اور اس کا حل ڈھونڈ نکالنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
کچھ ایسا کَس کے تو نے تیر مارا
کہ لگتے ہی جگر کے پار پہنچا
تجھے میں نے میرے بھولے شکاری
بڑا مشاق تیر انداز پایا
شاعری الہامی کیفیت کا عکس ہے، جو لاشعور سے پھوٹ نکلتی ہے۔ درحقیقت سوچ شفاف ہے تو خیال بھی پر اثر ہے۔ یونانی مفکر لنجائنس کے مطابق، اعلیٰ اسلوب بلند سوچ و افکار کا ردعمل ہے۔ یعنی پر اثر لفظ سوچ کی سچائی سے تشکیل پاتے ہیں۔ ذہن خوبصورت نہیں تو اعلیٰ افکار بھی بے اثر ہیں۔ عمل کی تاثیر نہ ہو، تو لفظ بے ہنر کہلاتے ہیں۔ اچھا عمل بھی مثبت سوچ کا آئینہ ہے۔ خیال مستقل کھوج کے سفر پر نکلتا ہے۔ اسے بصیرت و نقطہ نظر کی وحدت چاہیے۔
ارسطو کا کہنا تھا کہ تخلیق کے لیے فطری وحدت کا ہونا ضروری ہے۔ جس کے بغیر خیال میں انفرادیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جس میں یکسوئی نہ ہو اگر تو وہ خیال بے روح ہو گا۔ سر یمن چونکہ دل کی آزمائش و بصیرت کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ پوری کائنات دل کی دھڑکنوں میں سمائی ہوئی ہے۔ دل پورے جسم کو شفاف خون مہیا کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن زندگی سے رابطے کی علامت ہے، گویا کہ دل انسانی جسم کا مرکز ہے۔ مرکز پر آنا خالص روپ ہے۔ مرکز سے ہی رابطوں کے بے شمار سلسلے نکلتے ہیں۔ جذباتی تحرک پر دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش آ جاتا ہے۔ تعلق، نسبت اور ربط باہمی کا استعارہ دل طبی حیثیت کے ساتھ روحانی منزلیں بھی طے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم صوفی دل کو روح کی مسند قرار دیتے ہیں۔
دل کو روح کی آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ دل کی تاثیر مضبوط قلعے کی مثل ہے، جو بدی کی قوتوں کے خلاف جسم و روح کا دفاع کرتا ہے۔ صوفی بھی دل کی آواز پر دھیان دیتے ہیں۔ وجدان، ادراک اور الہامی کیفیات دل کی تپسیا کا ثمر ہیں۔ جس قدر دل کی آزمائشیں کڑی ہوں گی، اتنا ہی احساس میں اثر آتا جائے گا۔ جب تک انسان بے خبر ہے، اسے بے انداز تکلیف ملتی ہے۔ وہ چہروں کو پہچان نہیں سکتا، بناوٹی لہجوں کے پیچ و خم سمجھ نہیں پاتا، لہٰذا اس کا دل دکھ کے بھنور میں ڈوبتا رہتا ہے۔ مگر جو دل زندگی کے تضاد سے اچھی طرح واقف ہے، وہ خود اپنے لیے راستہ ڈھونڈ نکالے گا۔
شکوے سن کر بھی تو رہے خاموش
تیرے ہادی کی یہ ہدایت ہے
سرخروئی ہوئی اسے حاصل
اپنے پر آپ جس کو قدرت ہوئی
شاہ صاحب کے فن و فکر پر مقامی و بین الاقوامی محققین نے کام کیا ہے۔ ایچ ٹی سورلی وہ انگریز مفکر ہیں، جنھوں نے شاہ صاحب کے فن شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ایچ ٹی سورلی اپنے ایک مقالے میں کہتے ہیں ''درحقیقت، عارف صوفی کے نظارے میں خالص خوشی کی سرزمین ہے، جہاں صوفی بزرگوں کی دائمی حکومت قائم ہے، جہاں روشنی، سمجھ، تسکین اور وجدانی کیفیات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جہاں وجدانی کیفیات صوفی کی نس نس میں اترتی جاتی ہیں۔''
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے مشکل کام دل کو سمجھانا اور سدھانا ہے۔ ورنہ وہ سرکش گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتا ہوا انسانی قدریں روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اگر انسانی دل اعتدال پر ہے تو اس ترتیب کا عکس معاشرتی زندگی میں بھی واضح طور پر دکھائی دے گا۔ اور رویوں کا یہ حسن توازن گھروں کی بقا و سلامتی کا ضامن ہو گا۔ دراصل صوفی کی نگاہ انفرادی و معاشرتی زندگی کی اس جڑ تک جا پہنچتی ہے جہاں سے دل و دماغ کی خرابیوں کے سلسلے چل نکلتے ہیں۔ بے اطمینانی وہ بیماری ہے، جو اگر دل کو لاحق ہو جائے تو کئی منفی رویوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ اس بے چینی کا حل نہ بھی ملے تو بھی اسے صبر کی لوری سے تھپک کر سلانا ہے۔ کیونکہ جن مسائل کا حل نہ ہو ان معاملات میں دل بے قابو ہو جاتا ہے۔ ایسے مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سمجھ میں ہی زندگی کے تمام تر مسائل کا حل موجود ہے۔
یہ بے نوری یہ بے سوزی کہاں تک
بڑھو سب خامیاں اپنی مٹاؤ
جلو اس آگ میں جب تک ہے جینا
لگی اپنی نہ غیروں کو دکھاؤ