آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی
ان کی آمد سے کچھ پہلے یا تھوڑا بعد ایک نئی سیاسی جماعت کی ولادت بھی متوقع ہے
کوئی دن جاتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان میں ہوں گے۔ ان کی آمد سے کچھ پہلے یا تھوڑا بعد ایک نئی سیاسی جماعت کی ولادت بھی متوقع ہے۔ اس سیاسی جماعت کی بات بھی ہوگی لیکن بنیادی موضوع سابق وزیر اعظم کی واپسی کا ہے۔
پرانی داستانوں اور کہانیوں میں اصل واقعے کے گرد پے بہ پے ابہام اور الجھنیں لپیٹ دی جاتی تھیں، ہیرو جن کے چنگل سے نمٹتے نمٹتے بال سفید کر بیٹھتا تھا۔ بزرگی کی منزل تو میاں صاحب نے تبھی حاصل کر لی جب انھوں نے کھیلے کھائے ہوئے غلام اسحاق خان کو چیلنج کر کے دراصل حاضر و موجود سے بغاوت کا اعلان کیا تھا لیکن آزمائشوں کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا، ایک نئے سفر کا آغاز ہوا جو نئی دنیا کی جستجو اور خلق خدا کی آسودگی کے لیے شہزادی حسن آرا کے سات سوالوں کی خاطر جان جوکھوں سے مختلف نہیں تھا۔
صرف نواز شریف نے ہی اس پتھر دل حسینہ کے کتنے سوال حل کیے، یہ تذکرہ بھی کم ہوش ربا نہیں ہے لیکن اگر قائد ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، چودہری محمد علی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو پر پڑنے والی ابتلاؤں کا شمار بھی کر لیا جائے تو یہ داستان طلسم ہوش ربا سے بھی زیادہ ہوش ربا بن جاتی ہے۔
ان داستانوں کا بار بار دہرایا جانا بھی ضروری ہے تا کہ اہل معاملہ سبق سیکھیں اور عبرت پکڑیں لیکن اس وقت میاں صاحب کی واپسی سر پر ہے لہٰذا بات یہیں تک محدود رہے تو آسانی رہے گی۔ تو کہنا یہ ہے کہ میاں صاحب کی حالیہ واپسی کو بھی پر اسرار بنا دیا گیا ہے۔
اسرار کی یہ کہانی کبھی وجود میں نہ آتی، میاں صاحب اگر لاہور کے اجتماع سے خطاب نہ کرتے۔ اس خطاب میں انھوں نے ان کرداروں کا ذکر کیا جو عدم استحکام کا باعث بنے جس کا نتیجہ قومی معیشت کی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا۔ کہانی یہ ہے کہ میاں صاحب کی یہ آتش نوائی یاروں پر گراں گزری لہٰذا میاں شہباز شریف صاحب کو گوجرانوالہ طلب کر کے پیغام دیا گیا کہ وڈے بھائی نوں سمجھاؤ۔ میاں شہباز شریف گوجرانوالہ جانے اور کسی پیغام کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔
ان کے انکارکو مزید تقویت میاں نواز شریف کے اس بیان سے ملتی ہے جو انھوں نے جمعے کو دیا۔ اس بیان میں انھوں نے لاہور والی باتیں ایک بار پھر دہرا دیں۔ یوں کہانی میں ایک بار پھر سسپنس پیدا ہو گیا ہے کہ پیغام کا کوئی وجود تھا یا نہیں اور اگر ایسا تھا تو میاں صاحب نے اثرکیوں قبول نہیں کیا؟
یہ سوال ہمیں یقیناً پریشان کرتا رہے گا لیکن اسی پریشانی کے ساتھ ایک واقعہ اور بھی جوڑ لیں تو صورت کچھ واضح ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی صاحب نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اعتراضات کی آئینی پوزیشن لائیو نشریات کے ذریعے قوم پر واضح کر کے یہ تنازع تو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا لیکن ان کا اگلا قدم زیادہ معنی خیز اور اہم ہے۔ انھوں نے دھرنا کیس کھول دیا ہے۔
دھرنا کیس کوئی معمولی کیس نہیں ہے۔ اس کا تعلق بھی ریاست و سیاست کی بنیادوں سے ہے۔ اس کیس کے کھلنے کا مطلب بھی وہی ہے جس کا اظہار نواز شریف کر رہے ہیں۔ پھر اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک بار پھر تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ جہاں تک نصرت جاوید صاحب کے انکشاف کی بات ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ نواز شریف صاحب تک یہ مشورہ پہنچایا گیاہو کہ وہ ہاتھ کچھ ہولا رکھیں لیکن اس مشورے کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست کے اسٹیک ہولڈر معاملات کو ہمیشہ کے لیے درست کرنے کے لیے جس اتفاق رائے پر پہنچے ہیں، اس میں کوئی رخنہ پڑ گیا ہے بلکہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے، اسے اس خوبی، نفاست اور مہارت کے ساتھ کیا جائے کہ زیادہ گرد نہ اڑے۔ اڑنے والی گرد کیاہے اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
اس کے بیان کے لیے بڑا جگرا درکار ہے، سردست صرف یہی عرض کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں اور ان کوششوں کے نتیجے میں جو سرمایہ کار ہمارے یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ ہوئے ہیں۔
انھیں یہ یقین دلانا مقصودہے کہ ان کی سرمایہ کاری پاکستان میں محفوظ ہے اور اب آیندہ اس ملک میں کوئی ایسی اٹھا پھٹک نہیں ہونے جا رہی جس کے نتیجے میں پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے کاروبار ڈوب جائیں۔ میاں صاحب کا انداز گفتگو بھی اسی انداز فکر کی ترجمانی کرتا ہے اور پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا مفہوم بھی مختلف نہیں ہے۔
اس تمام داستان کا خلاصہ یہی ہے کہ میاں صاحب وطن واپس لوٹ رہے ہیں اور پورے طمطراق سے لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے یہاں کی روایت کے مطابق ان کی واپسی تک مسلسل سوالات اٹھتے رہیں گے اور پے درپے ایسی کہانیاں بھی سامنے آتی رہیں گی جو حقیقت کے سامنے ایک اسموک اسکرین کھڑی کر دیں لیکن اگر حالات ایسے ہی رہتے ہیں جیسے آج دکھائی دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آنے والے دنوں کے مناظر وہی ہوں گے جن کی خبریں آج ہمارے سامنے ہیں۔
پاکستانی معیشت کو اگر اس منجدھار سے نکلنا ہے اور تیزی سے ترقی کر کے خطے کی دیگر قوتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونا ہے تو اس کا راستہ اسی اسکیم سے نکلتا ہے۔ باقی سب اسموک اسکرین ہے اور ماضی ہے۔ مستقبل ابھرتے ہوئے خوش حال اور طاقت ور پاکستان کا ہے۔
اس پاکستان میں ترقی اور خوش حالی کے عظیم خواب ہوں گے تو ان خوابوں کی تعبیر کے لیے منصوبہ اور حکمت عملی بھی ہوگی، خالی خولی باتیں اور نعرے بازی نہیں ہوگی۔ اگر کوئی یقین کرے تو حقیقت یہ ہے کہ پون صدی میں پہلی بار قوم اس اتفاق رائے پر پہنچی ہے۔ اس کارنامے کا کریڈٹ قدرت نے جسے عطا کر دیا ہے، اب کوئی اس سے چھین نہیں سکتا۔
اب رہ گیا اس جماعت کا ذکر جس کا ذکر میاں صاحب کی آمد کے ساتھ کیا گیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر ایک نئی جماعت کے قیام کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی اپنی جماعتوں میں موجود ساتھیوں سے روابط بھی شروع کر دیے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آنے والا انتخاب تو نہیں لیکن اس کے بعد والے انتخاب میں وہ ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔
ان قائدین کی توقعات کتنی درست ہوتی ہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں قائدین ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ایسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ رنجشیں اور غلطیاں دو طرفہ ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ ٹوٹے ہوئے رابطے بحال کر کے رنجشیں دور کر لی جائیں۔ تمام فریقوں کا بھلا اسی میں ہے۔