لیول پلیئنگ فیلڈ
دوستی اور محبت کا یہ رشتہ ڈیڑھ سال تک بخوبی چلتا رہا، کیونکہ یہ وقت اور حالات کی ضرورت تھی
ملکی سیاست میں کچھ عرصہ سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ اصطلاح شروع شروع میں مسلم لیگ نون کی طرف سے اس وقت استعمال ہونے لگی جب اُسے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوںکو میڈیا کے سامنے بیان کرنے کی اجازت ملی۔
2013 کے الیکشن میں عوام نے بھاری اکثریت سے مسلم لیگ نون کوجتایا تو کچھ حلقوں نے ابتدا ہی سے اس کے خلاف سازشی جال بچھانا شروع کردیا۔ ابھی ایک سال بھی نہیں گذرا تھا کہ لندن میں ایک سازش تیار کی گئی اور علامہ طاہر القادری کے تعاون سے چیئرمین تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے ساتھ ملکر ایک بھر پور لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دھرنا آرگنائز کرنے کی پلاننگ کی گئی۔
اس پلاننگ کو مزید تقویت دینے اورکامیاب بنانے کے لیے ماڈل ٹاؤن لاہور میں خونی کھیل بھی رچایا گیا۔ چودہ افراد کے قتل کی ذمے داری پولیس پر اور اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پر ڈال دی گئی۔
اس طرح عوام کی نہ صرف ہمدردیاں حاصل کی گئی بلکہ اسے استعمال کر کے مجوزہ لانگ مارچ میں عوام کی بھرپور شرکت کو ممکن بنایا گیا۔ یہ لانگ مارچ اور ڈی چوک پر 126 دنوں کا دھرنا بالآخر ناکام ہوکر14 دسمبر 2014 کو اختتام پذیر ہوا۔ سازشی عناصر میاں صاحب کو اقتدار سے بیدخل تو نہ کرسکے لیکن انھیں بھرپور طریقے سے حکومت کرنے سے محروم ضرورکر دیا۔ اُن کے پانچ سالا دور حکومت کا پورا ایک سال ضایع کردیا گیا۔
دھرنے کی ناکامی کے بعد مخالفین پھر بھی چین سے نہیں بیٹھے اور میاں صاحب کو ہٹانے کے کئی اور طریقے وضع کرنے لگے۔2016 میں پاناما اسکینڈل سامنے لایا گیا اور اسے استعمال کر کے بالآخر2017 میں انھیں تخت سے بیدخل کر ہی دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک بد ترین داغ ہے۔
تمام ترکوششوں کے بعد بھی جب یہ محسوس کیا گیا کہ میاں صاحب اپنے چار سالا دور کی کارکردگی کے سبب عوام کی حمایت حاصل کر لیںگے تو پھر انھیں جیل بھجوانے اورسیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نااہل کرنے کی غرض سے عدلیہ کی مدد لی گئی اورالیکشن سے عین ایک ماہ قبل کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا۔
اُن کے زبردست مخالف کو مکمل آزادی کے ساتھ انتخاب لڑنے کی سہولتیں فراہم کی گئیں اور پھر جب RTS بند کر دینے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو نئے کھیل کھیلے گئے۔ مسلم لیگ نون کو اس طرح نہ صرف الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ سے محروم کیا گیا بلکہ بعد ازاں انھیں ملنے والے عوامی مینڈیٹ کو بھی کم کرکے شکست میں بدل دیا گیا۔
میاں صاحب چار پانچ سال تک ان مشکلات کو جھیلتے رہے اور اب جاکے انھیں کچھ ریلیف ملنے لگا اور وہ پاکستان واپس آنے کا سوچنے لگے تو اُن کی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو حکام سے شکایت ہونے لگی اور وہ کبھی کھلے الفاظ اور کبھی دبے لہجوں میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا شوشہ چھوڑنے لگی۔
دیکھا جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کا راستہ آج بھی کسی نے نہیں روکا ہے۔ وہ پہلے بھی مکمل آزادی کے ساتھ الیکشن لڑ رہی تھی اور آج بھی جیسے چاہے اور جہاں چاہے جلسے کرسکتی ہے اور بیانات دے سکتی ہے۔ راستہ روکاگیا ہے تو خان صاحب کی PTI کا ۔ دیکھا جائے تو شکایتPTI کو ہونی چاہیے لیکن شکوہ وہ کر رہا ہے جس پر ابھی کوئی بھی قدغنیں نہیں لگی ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے2018 میں اس وقت کیوں شور نہیں مچایا جب ہر طرف سے مسلم لیگ نون کودیوار سے لگایا جا رہا تھا۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا مسئلہ اسے اس وقت کیوں یاد نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی جو گزشتہ چند سالوں سے 2023 کے الیکشن کو اپنے خوابوں کی تعبیر بنائے بیٹھی تھی لگتا ہے وہ سارے خواب اسے چکنا چور ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔
اسی لیے وہ مسلم لیگ کے خلاف صف آراء ہونے لگی ہے۔ زرداری صاحب ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے تھے کہ اگلی حکومت پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوگی اور اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو ہوگا۔
حالات بدلتے شاید دیر نہیں لگتی ، جو کچھ آج سے چند مہینے پہلے نظر آرہا تھا وہ اب اوجھل ہونا شروع ہوچکا ہے۔2023 میں کامیابی کی آس اور توقع میں زرداری صاحب نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد خود حکومت کرنے کے بجائے شہباز شریف کو اس عارضی دور حکومت کے لیے راضی اور رضا مند کیا۔
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ملک کے معاشی حالات کتنے دگرگوں ہیں اورایسے میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس طرح انھوں نے عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کا کریڈٹ تو اپنے نام کیا اور ساتھ ہی ساتھ شہباز شریف اور مسلم لیگ نون پر بھی احسان جتا دیا کہ دیکھو میں نے خود حکومت سنبھالنے کے بجائے تمہارے حوالے کردی۔
دوستی اور محبت کا یہ رشتہ ڈیڑھ سال تک بخوبی چلتا رہا، کیونکہ یہ وقت اور حالات کی ضرورت تھی لیکن اب چونکہ نئے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور پیپلزپارٹی یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر اگر الیکشن لڑا جائے تو اس کا مقدمہ بہت ہی کمزور ہوگا، وہ صرف مخالفت برائے مخالفت اور تندو تیز بیانوں کی مدد سے ہی کچھ کامیابی سمیٹ سکتی ہے۔
الیکشن میں چونکہ PTI اس وقت کہیں دکھائی نہیں دے رہی تو متوقع طورصرف مسلم لیگ نون ہی اس کی سب سے بڑی حریف ثابت ہوگی۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے کے بڑے حریف رہی ہیں۔ لہٰذاآج جو کچھ ہو رہا ہے وہ خلاف توقع ہرگز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد بھی ممکنہ طور پر یہی سلسلہ چلتا رہے گا اور شاید PTI بھی نئی پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی کی ہم نوا بن جائے اور دونوں ملکر مسلم لیگ نون کو ٹف ٹائم بھی دے پائیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی فریق بھی کسی کا دائمی دوست نہیں ہوتا اور کوئی بھی کسی کا دائمی دشمن نہیں۔ یہ PTI ہی تھی جس کی مخالفت میں پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون کے ساتھ متحد ہو کر کچھ عرصہ تک چلتی رہی ورنہ پارٹی کے اندر کئی ممبران مسلم لیگ نون کے ساتھ ملکر سیاست کرنے کے سخت مخالف بھی ہیں۔
وہ پی ٹی آئی کے ساتھ سیاست کرنے کے اتنے مخالف نہیں ہیں جتنے مسلم لیگ نون کے ساتھ۔ اس کی واضح مثال چوہدری اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ ہیں جو کبھی بھی مسلم لیگ نون کے ساتھ سیاست کے حامی نہیں رہے۔ وہ کسی اور پارٹی کے ساتھ تو خوشی سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن نون لیگ کے ساتھ اُن کا پرانا بیر ہے۔
پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر بھی وہ مسلم لیگ نون کے خلاف اپنا اختلاف چھپائے بناء نہیں رہ پاتے، یہی وجہ ہے کہ دونوں کی ہمدردیاں PTIکے ساتھ آج بھی اسی طرح وابستہ ہیں جیسے 2014 میں تھیں۔
وہ پیپلزپارٹی کی قیادت سے اس معاملے میں اختلاف بھی کرسکتے ہیں شاید پارٹی بھی چھوڑ سکتے ہیں مگر PTIسے جڑی ہمدردیاں نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ رہ گیا مسئلہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا تو وہ اس وقت PTIکے ساتھ رہا ہے ناکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ۔ پیپلزپارٹی کا اس مسئلہ پر شور مچانا سمجھ سے بالاتر ہے۔