امن کے قیام کیلئے معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ کرنا ہوگا

شرکاء کا ’’امن کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

فوٹو ۔ وسیم نیاز

کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے سب سے اہم امن و امان کی صورتحال ہوتی ہے۔ جو بھی قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں وہ سب سے پہلے اپنے ہاں امن قائم کرتی ہیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتی ہیں جس میں رواداری، برداشت، مساوات، انصاف، انسانی حقوق کا تحفظ اور ایک دوسرے کے احترام جیسی اقدار ہوتی ہیں تاکہ انتشار کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔

عالمی امن کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے 2001 ء میں جنرل اسمبلی کی قرارداد کے تحت 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منانے کی منظوری ہوئی جس کے بعد 21 ستمبر 2002ء کو پہلی مرتبہ امن کا عالمی دن منا یا گیا اور اس کے بعد سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں امن کو فروغ دیا جاسکے۔

امن کے عالمی دن 2023ء کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کاا ظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی

(چیئرمین متحدہ علماء بورڈ پنجاب مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور)

اقوام متحدہ کی جانب سے 1981ء میں امن کے حوالے سے تقریبات کا آغاز کیا گیا۔جس کے بعد ستمبر کے ہر تیسرے منگل امن کا دن منایا جاتا تھا۔ 2001ء میں اس حوالے سے باقاعدہ طور پراقوام متحدہ میں قرارداد منظور کی گئی ۔

اس کے بعد سے ہر سال 21 ستمبر کو دنیا بھر میں امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا میں تشدد کی روک تھام ، نسلی تعصب سے چھٹکارہ اور دنیا کو ہتھیاروں سے پاک بنانا ہے۔ یہ نظریہ منظر عام پر آنے اور اس پر کام کرنے سے کافی بہتری آئی ہے تاہم اب بھی دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد امن نہ ہونے کی وجہ سے تشدد کا شکار ہیں اور اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔

اس وقت سب سے بڑا مہاجر کیمپ بنگلہ دیش میں روہینگیا کے لوگوں کا ہے جو اپنے ملک سے ہجرت کرکے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بے گھر ہیں۔

افسوس ہے کہ اس وقت مسلم دنیا شدید متاثر ہے۔ مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔ بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اقلیتیں اور ہندو دلت غیر محفوظ ہیں،ا ن پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جو قابل مذمت ہے۔ اب کینیڈا میں سکھ رہمنا کو قتل کردیا گیا۔

اس حوالے سے کینیڈین وزیراعظم نے بتایا ہے کہ بھارتی ایجنسی 'را' ملوث ہے۔ اس قتل پر دنیا بھر کے سکھوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو دنیا کے امن کونقصان پہنچ سکتا ہے۔ عالمی سطح پر امن کو بڑے مسائل درپیش ہیں۔ بین الاقوامی طاقتوں کو مذہب کے دائرہ کار سے نکل کر بلاتفریق امن کے قیام کیلئے کام کرنا ہوگا۔ گزشتہ 8 برس میں بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی پر بہت کام ہوا۔

2018ء میں باقاعدہ طور پرپیغام پاکستان بنایا گیا۔ یہ وہ دستاویز ہے جس پر ہزاروں افراد کے دستخط ہیں اورا سے مختلف اسلامی ممالک نے بھی سراہا۔ مصر، روس، انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک نے اس کی روشنی میں اقدامات اٹھائے۔ پاکستان سے مفکرین اور علماء نے عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اور پیغام پاکستان کو فروغ دیا۔

پیغام پاکستان پر عمل کے ذریعے ہمارے حالات میں بہتری آئی ہے۔ ریاست نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بڑے اقدامات کیے۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ملک میں امن قائم ہوا لیکن ہمارے ہمسایوں کی مداخلت کی وجہ سے ہمیشہ امن کی کاوشوں کو دھچکا لگتا ہے۔ سرحد پار سے ہمارے ہاں مداخلت کی جاتی ہے۔

ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں سے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے، ہمیں ملک کر دشمن عناصر کا خاتمہ کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں تصادم کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ پر قابو پانے کیلئے جس طرح نگران حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب نے ایکشن لیا وہ بہترین ہے۔

اب وہاں متاثرہ گھروں اور عبادت گاہوں کی بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔ اس واقعہ کے بعد نگران حکومت نے فوری کارروائی کرکے ملزمان کو گرفتار کیا۔ انتظامیہ، علماء اور حکومت نے اس معاملے کوسنبھالا ، اس میں دونوں اطراف سے جس جس کی غلطی ہے انصاف کے تقاضے پورے کرکے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور کسی کو معافی نہ دی جائے۔ آئین پاکستان تمام مذاہب کے ماننے والوں کو تحفظ اور برابر حقوق دیتا ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے انسانی حقوق دیے جائیں۔ جب تک ہم اپنے دائرہ کار کو نہیں سمجھیں گے اور قانون کا احترام نہیں کریں گے تب تک ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ جذبات سے ہی قانون حرکت میںا ٓتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سوچ کو دیکھنا چاہیے جبکہ عوام کو سمجھنا چاہیے کہ جذباتیت میں آکر قانون ہاتھ میں لینا کسی بھی طور درست نہیں۔

پادری عمانوایل سردار کھوکھر


(ڈین آف رائیونڈ ڈایوسیس ترجمان چرچ آف پاکستان )

امن مسکراہٹ سے شروع ہوتاہے اور امن کیلئے ضروری ہے کہ محبت اور انصاف کا ماحول ہو۔ اگر ہم صحیح معنوں میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے امن کو سمجھنا ہوگا۔ 'الف 'سے اقرار، اظہار اور اعتراف ہے۔ 'میم 'سے محبت اور جبکہ 'نون' سے نفرت ہے۔

ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ایک دوسرے سے محبت کا اظہار اور نفرت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم نے امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی، ہم مساوات پر مبنی معاشرہ قائم نہیں کرسکے، ہم نے نفرت اور اشتعال کو فروغ دیا مگر اب ہمیں اپنی غلطیوں کا ادراک ہوگیا ہے، ہم نے اپنی سمت درست کرنی ہے، ہم محبت کو فروغ دے رہے ہیں اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

وطن عزیز میں امن کی بہت ضرورت ہے۔ میں گزشتہ 27 برس سے بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے کام کر رہا ہوں۔ میں انتہائی دکھ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم امن کیلئے جتنی کوشش کرتے ہیں ملک میں اتنی ہی بدامنی ہوجاتی ہے۔ ہم انسان ہوتے ہوئے دوسرے انسان کی قدر نہیں کر رہے۔ سب سے پہلے ہمیں بطور انسان دوسرے انسانوں کی قدر کرنی ہے، ان کی حیثیت کو ماننا ہے جس کا عملی طور پر مظاہرہ ہونا چاہیے۔ معاشرے میں برداشت کی کمی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے جو تشویشناک ہے۔

افسوس ہے کہ ہم سب نے نفرت سکھائی ہے، وقت ہے کہ محبت، پیار ، برداشت اور رواداری کو فروغ دیں، ایسی باتوں کو نظر انداز کریں جو نفرت اور انتشار کی طرف لے کر جاتی ہیں۔جب تک ہر شخص خود کو ٹھیک نہیں کرے گا تب تک معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے ماضی کی نسبت صورتحال بہتر ہے۔ 20 برس قبل ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ آج ہم ایک دوسرے کی عبادتگاہوں میں جاتے ہیں، خوشی، غمی میں شریک ہوتے ہیں، آپس میں ڈائیلاگ کرتے ہیں جو خوش آئند ہے۔

اگر کوئی توہین مذہب یا گستاخی کرتا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی مسیحی توہین نہیں کر سکتا۔ قرآن پاک میں تو حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کا ذکر موجود ہے۔

یہ جو کوئی بھی توہین کرتا ہے اس کا ہمارے سے تعلق نہیں ہے۔ دنیا بھر میں شرپسند انتہائی کم ہیں لیکن کبھی کبھی ان کے کسی عمل کا اثر زیادہ ہوجاتا ہے، ہر ریاست کو چاہیے کہ ایسے عناصر کو قرار واقعی سزا دے، اس طر ح عالمی امن یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ جڑانوالہ واقعہ افسوسناک اور ملکی امن پر حملہ ہے۔

اس میں ریاست کی کمزوری بھی ہے، اگر بروقت ایکشن لیا جاتا تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس واقعہ سے متاثر ہونے والے نفسیاتی مرض بن چکے ہیں، وہ آج بھی خوف میں مبتلا ہیں۔ افسوس ہے کہ اس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس ہورہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جو لوگ بھی اس میں ملوث ہیں، انہیں سخت اور سرعام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا عمل نہ کرے۔

عبداللہ ملک

(نمائندہ سول سوسائٹی)

اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت ہر سال 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے اس پر دستخط کیے،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا میں امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان ممالک نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر بھی اور مل کر بھی امن اور رواداری کے فروغ کیلئے کام کریں گے۔

آج دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے ان میں امن کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہم اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کے اس وقت جاری جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس پر خصوصی طور پر جامع حکمت عملی بنائی جائے کہ کس طرح ترقی پذیر ممالک کے مسائل دور کرنے ہیں ، کیسے ان ممالک سے بدامنی کا خاتمہ کرنا ہے اورکشمیر، فلسطین، شام، عراق، لیبیا، یوکرائن سمیت دیگر علاقی تنازعات کو حل کرنا ہے۔

بدقسمتی سے اس وقت 2 ارب سے زائد افراد بدامنی اور غربت کا شکار ہیں، امن کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک جنہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کیے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ باہمی اشتراک سے دنیا سے بدامنی کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کریں۔ ہم بطور سول سوسائٹی اقوام متحدہ کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔

پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہوتے ہوئے اس قرارداد پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ اس حوالے سے بہت سارا کام بھی ہوا ہے۔ پاکستان گزشتہ 3 دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے لہٰذا ہم سے زیادہ امن کی اہمیت کو کون سمجھ سکتا ہے۔

دین اسلام امن اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ بطور اسلامی معاشرہ ہم انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے امن و رواداری کو فروغ دیکر ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔بدامنی جرائم کو جنم دیتی ہے جس سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہے۔

انصاف نہ ملنے سے عدم برداشت بڑھتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے، لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ حکومت، میڈیا اور سول سوسائٹی مل کر عدم برداشت، بدامنی سمیت تمام ملکی مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Load Next Story