سینٹرل کنٹریکٹ روٹھے کھلاڑیوں کو منانے کی کوششیں تیز ہوگئیں
تنازع حل کرنے کا ٹاسک انضمام الحق کو سونپ دیا گیا، دستخط پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے
روٹھے کھلاڑیوں کو منانے کی کوششیں تیز ہو گئیں جب کہ سینٹرل کنٹریکٹ تنازع حل کرنے کا ٹاسک انضمام الحق کو سونپ دیا گیا۔
سینٹرل کنٹریکٹ کا بڑا تنازع اب حل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ کی ناکامی کے بعد چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، وہ چاہتے ہیں کہ کھلاڑی جب ورلڈکپ میں شرکت کریں تو ان کی توجہ معاہدوں پر نہیں اپنے کھیل پر ہو۔
ذرائع نے بتایا کہ ذکا اشرف کی اس حوالے سے جب چیف سلیکٹر انضمام الحق سے بات ہوئی تو انھوں نے یقین دلایا کہ یہ معاملہ 2 دن میں حل ہو سکتا ہے، تمام کھلاڑی محب الوطن اور چاہتے ہیں کہ کوئی تنازع نہ ہو، البتہ ان کو جو عزت ملنی چاہیے وہ دیں اور مطالبات سنیں، پھر جو دونوں کیلیے جو قابل قبول حل ہو اس پر عمل کیا جائے، چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی نے پلیئرز سے بات چیت کا اختیار انضمام الحق کو سونپ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈکپ؛ قومی کرکٹرز کی بغیر معاہدوں کے شرکت کا خدشہ بڑھ گیا
اسٹار کرکٹرز اور انضمام الحق کے ایجنٹ ایک ہی ہیں، وہ انھیں قائل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، کھلاڑیوں کا سب سے بڑا مطالبہ پی سی بی کی آمدنی میں کچھ فیصد حصہ ہے، وہ اس ضمن میں آسٹریلیا اور بھارت کی مثالیں دیتے ہیں جہاں ایسا ہوتا ہے، البتہ پاکستان میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں، اتنی جلدی یہ سب کچھ ہونا آسان بھی نہیں لگتا، بورڈ نے اے کیٹیگری کرکٹرز کو 45 لاکھ روپے ماہانہ دینے کی پیشکش کر دی تھی مگر وہ اس سے خوش نہیں ہیں، ان کا موقف ہے کہ اچھی خاصی رقم تو ٹیکس کی مد میں سے منہا ہو جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ معاوضوں میں مزید اضافے یا ٹیکس کی ادائیگی خود کرنے پر بھی غور کر سکتا ہے،چار ماہ کے واجبات بھی فوری طور پر ادا کرنے کی پیشکش کر دی جائے گی،تاحال کرکٹرز نے خاموش احتجاج کیا اور کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے ناراضی ظاہر ہو، البتہ اب اسپانسرز کے لوگو شرٹ پر لگانے سے انکار کا ارادہ ہے، وہ تشہیری سرگرمیوں میں شرکت وغیرہ سے بھی انکار کر سکتے ہیں، ورلڈکپ کے دوران آئی سی سی کی کمرشل سرگرمیاں میں بھی نہ جانے پر غور ہوا،البتہ انضمام الحق معاملے کو اس نہج تک نہیں جانے دیں گے،اس حوالے سے جلد کوئی بڑا بریک تھرو متوقع ہے، کھلاڑی خود بھی مسئلے کا حل چاہتے ہیں، البتہ بورڈ میں موجود بعض لوگ ''ڈبل گیم'' کھیل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کنٹریکٹ تنازع کرکٹرز کی کارکردگی پر اثرانداز ہونے لگا
ان کی جانب سے بعض پلیئرز سے کہا گیا کہ ابھی موجودہ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی کا خود نہیں پتا کہ کب تک عہدے پر رہیں گے اس لیے کوئی ڈیل نہ کرنا، بعض آفیشلز کے رویے سے کرکٹرز ہی شاکی ہیں،البتہ ذکا اشرف سے گذشتہ دنوں ملاقات میں بابر اعظم خاصے مطمئن نظر آئے تھے، ان کو محسوس ہوا تھا کہ بورڈ کے سربراہ مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ بعض بورڈ آفیشلز کے اپنے رویے سے انضمام الحق کو بھی ناراض ہو کر استعفیٰ دینے پر تقریبا مجبور کر دیا تھا لیکن ذکا اشرف نے معاملات سنبھال لیے۔
ذرائع کے مطابق چیف سلیکٹر نے لیگز این او سی کا اختیار نان کرکٹرز کو دینے کی مخالفت کی تھی جس پر ان سے ایک آفیشل نے غلط انداز میں بات کی جو انھیں بہت بْری لگی۔ نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں این او سی کے جلد فیصلے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے رابطے پر پی سی بی کے ایک آفیشل نے کہا کہ پیر یا منگل تک معاہدوں کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سامنے آ سکتی ہے۔ پلیئرز کو بھی اپنے رویے میں تھوڑی لچک لانا ہوگی، شائقین بھی یہ باتیں کرنے لگے ہیں کہ ورلڈکپ جیسے اہم ٹورنامنٹ کے وقت کھلاڑی پیسوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، انھیں کھیل پر توجہ دینی چاہیے، بورڈ کوشش کرے گا کہ تمام نہیں تو بعض مطالبات کو کسی حد تک تسلیم کر لیا جائے تاکہ مسئلہ حل ہو۔
سینٹرل کنٹریکٹ کا بڑا تنازع اب حل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ کی ناکامی کے بعد چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، وہ چاہتے ہیں کہ کھلاڑی جب ورلڈکپ میں شرکت کریں تو ان کی توجہ معاہدوں پر نہیں اپنے کھیل پر ہو۔
ذرائع نے بتایا کہ ذکا اشرف کی اس حوالے سے جب چیف سلیکٹر انضمام الحق سے بات ہوئی تو انھوں نے یقین دلایا کہ یہ معاملہ 2 دن میں حل ہو سکتا ہے، تمام کھلاڑی محب الوطن اور چاہتے ہیں کہ کوئی تنازع نہ ہو، البتہ ان کو جو عزت ملنی چاہیے وہ دیں اور مطالبات سنیں، پھر جو دونوں کیلیے جو قابل قبول حل ہو اس پر عمل کیا جائے، چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی نے پلیئرز سے بات چیت کا اختیار انضمام الحق کو سونپ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈکپ؛ قومی کرکٹرز کی بغیر معاہدوں کے شرکت کا خدشہ بڑھ گیا
اسٹار کرکٹرز اور انضمام الحق کے ایجنٹ ایک ہی ہیں، وہ انھیں قائل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، کھلاڑیوں کا سب سے بڑا مطالبہ پی سی بی کی آمدنی میں کچھ فیصد حصہ ہے، وہ اس ضمن میں آسٹریلیا اور بھارت کی مثالیں دیتے ہیں جہاں ایسا ہوتا ہے، البتہ پاکستان میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں، اتنی جلدی یہ سب کچھ ہونا آسان بھی نہیں لگتا، بورڈ نے اے کیٹیگری کرکٹرز کو 45 لاکھ روپے ماہانہ دینے کی پیشکش کر دی تھی مگر وہ اس سے خوش نہیں ہیں، ان کا موقف ہے کہ اچھی خاصی رقم تو ٹیکس کی مد میں سے منہا ہو جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ معاوضوں میں مزید اضافے یا ٹیکس کی ادائیگی خود کرنے پر بھی غور کر سکتا ہے،چار ماہ کے واجبات بھی فوری طور پر ادا کرنے کی پیشکش کر دی جائے گی،تاحال کرکٹرز نے خاموش احتجاج کیا اور کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے ناراضی ظاہر ہو، البتہ اب اسپانسرز کے لوگو شرٹ پر لگانے سے انکار کا ارادہ ہے، وہ تشہیری سرگرمیوں میں شرکت وغیرہ سے بھی انکار کر سکتے ہیں، ورلڈکپ کے دوران آئی سی سی کی کمرشل سرگرمیاں میں بھی نہ جانے پر غور ہوا،البتہ انضمام الحق معاملے کو اس نہج تک نہیں جانے دیں گے،اس حوالے سے جلد کوئی بڑا بریک تھرو متوقع ہے، کھلاڑی خود بھی مسئلے کا حل چاہتے ہیں، البتہ بورڈ میں موجود بعض لوگ ''ڈبل گیم'' کھیل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کنٹریکٹ تنازع کرکٹرز کی کارکردگی پر اثرانداز ہونے لگا
ان کی جانب سے بعض پلیئرز سے کہا گیا کہ ابھی موجودہ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی کا خود نہیں پتا کہ کب تک عہدے پر رہیں گے اس لیے کوئی ڈیل نہ کرنا، بعض آفیشلز کے رویے سے کرکٹرز ہی شاکی ہیں،البتہ ذکا اشرف سے گذشتہ دنوں ملاقات میں بابر اعظم خاصے مطمئن نظر آئے تھے، ان کو محسوس ہوا تھا کہ بورڈ کے سربراہ مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ بعض بورڈ آفیشلز کے اپنے رویے سے انضمام الحق کو بھی ناراض ہو کر استعفیٰ دینے پر تقریبا مجبور کر دیا تھا لیکن ذکا اشرف نے معاملات سنبھال لیے۔
ذرائع کے مطابق چیف سلیکٹر نے لیگز این او سی کا اختیار نان کرکٹرز کو دینے کی مخالفت کی تھی جس پر ان سے ایک آفیشل نے غلط انداز میں بات کی جو انھیں بہت بْری لگی۔ نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں این او سی کے جلد فیصلے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے رابطے پر پی سی بی کے ایک آفیشل نے کہا کہ پیر یا منگل تک معاہدوں کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سامنے آ سکتی ہے۔ پلیئرز کو بھی اپنے رویے میں تھوڑی لچک لانا ہوگی، شائقین بھی یہ باتیں کرنے لگے ہیں کہ ورلڈکپ جیسے اہم ٹورنامنٹ کے وقت کھلاڑی پیسوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، انھیں کھیل پر توجہ دینی چاہیے، بورڈ کوشش کرے گا کہ تمام نہیں تو بعض مطالبات کو کسی حد تک تسلیم کر لیا جائے تاکہ مسئلہ حل ہو۔