موسم یہ بحرانوں کا…
ویسے پڑوس میں بھی سیاسی محاذ گرم ہے۔ ہندوستان میں انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کو ہے۔...
TAXILA:
موسموں کے بھی اپنے مزاج ہوتے ہیں۔ کوئی نٹ کھٹ، تو کوئی کم گو۔ کوئی برکھا ساتھ لاتا ہے، کوئی قہر برساتا ہے، عجب رنگ دکھاتا ہے۔
اب اِسی موسم کو لیجیے۔ جونہی گرمی آتی ہے، فضا بحرانی ہو جاتی ہے۔ وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ سیاسی محاذ پر حدت بڑھنے لگتی ہے۔ اسپتال ہوں یا جلسوں کے پنڈال؛ دونوں ہی بھر جاتے ہیں۔ غیر یقینی صورت حال، وبال بن جاتی ہے۔
شاید موسم گرما ہی کا کمال ہے کہ عمران خان سڑک پر آگئے۔ طاہر القادری بھی ٹیکنالوجی کے ''وسیلے'' یہیں کہیں ہیں۔ شیخ رشید ٹی وی چینلز پر چھائے ہیں۔ حکومتی وزراء بھی حرکت میں ہیں۔ سمجھیں بیانات، الزامات کی لو چل رہی ہے آج کل۔ تجزیہ کار بھی خوب پسینہ بہا رہے ہیں۔ کچھ کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری مل جاتی ہے، کچھ مزید پسینہ بہاتے ہیں۔
عمران خان نے 11 مئی کو جو کیا، اچھا کیا۔ انسان کو کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ چاہے اپنی مرضی سے کرے، یا کسی اور کی مرضی سے۔ جلسے میں شرکا کی تعداد کتنی تھی؟ اِس کا جواب شرکاء ہی دے سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ''شو'' اچھا تھا۔ تقاریر بھی ٹھیک ہی رہیں۔ خان صاحب نے مزید احتجاجی جلسوں کا عندیہ دیا ہے۔ کچھ مطالبات بھی کیے، جو عوامی کم، سیاسی زیادہ ہیں۔ مگر اب اِس پر اعتراض کیسا! سیاسی وعدوں کے مانند سیاسی مطالبات ایک معمول کی مشق ہے۔ اور خان صاحب اپنے ہم عصروں کی طرح ایک معمول کے سیاست دان ہیں۔
طاہر القادری صاحب کی ریلیاں بھی اُسی روز نکلیں۔ پیروکار اُن کے خاصے ہیں۔ پھر فن خطابت پر ان کی خوب گرفت ہے۔ اچھا مجمع اکٹھا ہو گیا، مگر دو میچ بہ یک وقت ہوں، تو کوئی ایک ہی ناظرین کی توجہ کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ خان صاحب ''کپتان'' ہیں۔ پھر پچ دارالحکومت کی تھی، میچ تو اُن ہی کا جما۔ مستقبل میں قادری صاحب میچ رکھواتے ہوئے اِس بات کا ذرا دھیان رکھیں تو بہتر ہے۔
خان صاحب نے اپنی اِس ''مشق'' کے کئی مقاصد بیان کیے، مگر حقیقتاً مقصد اِس کا ایک ہی تھا؛ حکومتِ وقت پر دبائو ڈالنا اور اس معاملے میں تھوڑی بہت کام یابی تو انھیں ملی ہے۔ میاں صاحب کی مسکراہٹ ماند پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ شہباز شریف کی نظموں میں بھی پہلے جیسا زور نظر نہیں آ رہا۔ خورشید شاہ وکٹ گرنے کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔ ویسے حکومت کی پریشانی کا سبب فقط خان صاحب نہیں۔ کچھ اور عوامل بھی ہیں۔
موسم گرما لوڈشیڈنگ کا عفریت ساتھ لایا ہے۔ دن طویل ہو گئے۔ راتیں بے آرام۔ سڑکوں پر ٹائر جلائے جا رہے ہیں، گھروں میں جنریٹر چلائے جا رہے ہیں۔ عابد شیر علی کے بیانات نے بھی خوب ماحول گرمایا۔ سندھ والے تو خاصے ناراض ہوئے۔ ہمارے خیال میں قصوروار کوئی نہیں۔ یہ سب موسم کا کیا دھرا ہے۔ اِس کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے۔ بگاڑ کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ بہت ہی شریر ہے۔
پانی کا بحران بھی لوڈشیڈنگ کے پہلو میں ہے۔ اِس بنیادی سہولت سے محرومی نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کراچی کے شہری واٹر ٹینکرز کا تعاقب کر رہے ہیں۔ پرچی کٹوانے کے لیے صبح تڑکے ہائیڈرنٹ پہنچ جاتے ہیں۔ لمبی قطار لگتی ہے۔ اور بیش تر نامراد لوٹتے ہیں۔ ہاں، جیب میں کچھ پیسے زیادہ ہیں، تو اور بات ہے۔ کھٹ سے ٹینکر دروازے پر حاضر۔
بیماریاں بھی پھوٹ پڑی ہیں اِس موسم میں۔ ڈائریا گرمیوں ہی میں زور مارتا ہے۔ پوری قوت سے آتا ہے۔ اور لوٹتے سمے کئی جانیں ساتھ لے جاتا ہے۔ چونکہ واقعہ یہ ہر سال ہوتا ہے، تو وزیر اعلیٰ سندھ کو اِس ضمن میں کیا خبردار کرنا۔ جن سانحات سے متعلق اہل قلم نے خبردار کیا تھا، وہ کون سے ٹل گئے۔
ویسے صورت حال تو گمبھیر ہے۔ گرمی، لوڈشیڈنگ اور پانی کا بحران؛ بڑی ہی گھاتک تکون ہے یہ۔ زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ مسئلہ حل ہونے کی تو امید نہیں، البتہ یہ یقین ضرور ہے حکومتی ناقدین آنے والے جلسوں میں اِس کا بہ طور خاص تذکرہ کریں گے۔ شاید اِسے بار بار دہرائیں۔ اِس پر ایک گیت بنائیں۔ حواریوں کے ساتھ گائیں۔ دعا ہے کہ اُن کے شوق گائیکی سے عوام کا کچھ بھلا ہو جائے۔ گو اس کا امکان کم ہے۔ اپنے پیارے سیاست دانوں کو ہم خوب جانتے ہیں۔ اپنی تاریخ ہم نے پڑھ رکھی ہے، جس کے مسودے میں ہر حکمراں نے قلم لگایا، اور جی کھول کر لگایا۔ آنے والے بھی یہی کریں گے۔
ویسے پڑوس میں بھی سیاسی محاذ گرم ہے۔ ہندوستان میں انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کو ہے۔ کیا سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئی دُرست ثابت ہو گی؛ مودی سرکار بنائیں گے، یا معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی؟ بس تھوڑا انتظار اور، جلد پتہ چل جائے گا۔ ویسے مودی جی کے امکانات زیادہ ہیں۔
گزشتہ دنوں اُن کے پاکستان سے متعلق بیانات نے بڑی کھلبلی مچائی۔ وزیر داخلہ کو جوابی بیان داغنا پڑا۔ خاصی بدمزگی ہوئی، مگر اِس کی بنیاد پر مستقبل میں پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی پیش گوئی کرنا شاید دانش مندی نہیں۔ کچھ تجزیہ کار پُریقین ہیں کہ مودی جی واجپائی کے نقوش پا کا تعاقب کریں گے۔ ویسے بھی اِدھر ن لیگ کی حکومت ہے، پنجاب کی رولنگ کلاس بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔ تو ممکن ہے کہ راوی کو چین ہی چین لکھنے پر اُکسایا جائے۔ ہاں، مودی ہندوستان کے ساتھ کیا کریں گے، یہ معاملہ دیگر ہے۔ جنتا اُن کی، دیس ان کا۔ وہ جانیں، ان کی سرکار جانے۔
تو تذکرہ موسم گرما کا ہو رہا ہے، جو ہر بار کی طرح اِس بار بھی بحران ساتھ لایا، مگر ہم اہل اقتدار کی توجہ عوامی مصائب کی جانب مبذول کرانے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتے۔ لوڈشیڈنگ، قلت آب اور وبائی امراض کے ذکر کا مقصد یہ نہیں کہ دل اُن کا پسیج جائے۔ جو واقعہ ہو ہی نہیں سکتا، اُس کے لیے جان مارنے کا بھلا کیا فائدہ!
غریب عوام تو نمک کے آدمی کی طرح ہیں۔ گھلنا اُن کا مقدر ہے۔ اِس معاملے میں حکمرانوں کو زحمت دینا اچھا نہیں لگتا۔ اُنھیں اور بھی کئی غم ہیں۔ اور پھر موسم بھی بحرانی ہے۔