محصور صحافت
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ زمانہ قدیم میں ملک فتح کرنے کے لیے تلوار کی طاقت استعمال ہوتی تھی ...
ISLAMABAD:
اﷲ تعالیٰ نے حق و باطل کی تمیز کے لیے دنیا میں رسول، نبی اور پیغمبر بھیجے اور انھیں فتنوں اور چیلنجز سے مقابلہ کرنے کے لیے صلاحیتیں اور معجزے بھی عطا کیے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے دور میں جادو ایک منہ زور طاقت تھی جو آپ ؑ کے لیے اﷲ کے احکامات پہنچانے میں بڑی رکاوٹ بن چکی تھی۔ لہٰذا اﷲ نے اپنے بندے کی مدد کی اور جادو کا معجزہ عطا فرمایا جس نے اس دور کی تمام جادوئی طاقتوں اور روایات کو روند ڈالا، اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کا دور طب کا دور کہلایا جاتا تھا جو فتنے کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ ایسے عیسیٰ ؑ روح اﷲ کو طب کا معجزہ لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔
آپؑ کسی بھی بیمار شخص بالخصوص جلدی امراض میں مبتلا افراد سے مس ہو جاتے تو وہ شفایاب ہو جاتے جب کہ مردوں کو زندہ کرنا اﷲ کی وحدانیت کا اعتراف تھا۔ ہمارے پیارے نبیؐ کا دور نبوت یعنی چودہ صدیوں پہلے کا زمانہ زبان و بیان اور علم کا زمانہ تھا اور عرب غیر معمولی حافظے و خطابت کے مالک تھے۔ قوی حافظے اور زبان و بیان میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا جب کہ تکبر کی انتہا تھی کہ وہ غیر عرب کو اپنی ان صلاحیتوں کے باعث گونگا (عجم) سمجھتے تھے۔ دوسری جانب اپنے مرتبے کی بلندی کی خاطر جہالت کے رسم و رواج کے پابند بھی تھے جن کی بدولت معاشرہ اخلاقی و سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ حق و باطل سے عاری تھا اور انسانی حقوق کی پامالی عام تھی جنھیں کسی بھی صورت اﷲ تعالیٰ کے قانون کے مقابل نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لیکن ان کے سامنے دلائل کی جنگ لڑنے کے لیے کوئی صاحب کردار نہ تھا۔
اﷲ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کی تذلیل پسند نہیں اور وہ کائنات میں عدل چاہتا ہے۔ لہٰذا نبیؐ مہربان کو نہ صرف کائنات کے لیے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا بلکہ علم، زبان و بیان کا وہ نسخہ کیمیا بھی عطا فرمایا جس کے سامنے تمام عرب گونگا بن کر رہ گیا۔ اس کلام پاک کا سحر عربوں کے سر پر چڑھ کر بولنے لگا اور دشمن بھی دوست بننے لگے۔ اس کی واضح مثال حضرت عمرؓ کا دائرہ اسلام میں آنا ہے جنھوں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ آپؐ کا خون کر دیں گے لیکن بہن اور بہنوئی سے تلاوت کلام پاک سننے کے بعد تلوار سمیت نبیؐ کے قدموں میں ڈھیر ہو گئے۔
نبیؐ کا دور رسالت ابلاغ عامہ کا دور بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے حق و صداقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام معاملات کی انجام دہی کے لیے راستے متعین کیے اور ان راستوں سے پردہ اٹھایا جن کی بدولت انسانیت کی بہترین تربیت ہوئی۔ قرآن و حدیث نے تاثر کو حقیقت میں تبدیل کر دیا جس سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پنپنے کا بھرپور موقع ملا۔
اگرچہ دور نبوتؐ اور ہمارے موجودہ معاشرے میں 14 سو سال کی فصیل ہے لیکن آج کا دور بھی زبان، کلام، خطابت و بیان اور ابلاغ عامہ کا دور ہے اور اس کا جادو دنیا بھر میں سر چڑھ کر بول رہا ہے جو حقیقت کو تاثر اور تاثر کو حقیقت میں بہت تیزی سے تبدیل کر رہا ہے۔ اس کی اہم مثال امریکا کا عراق کے خلاف پروپیگنڈا تھا کہ جب تمام غیر ملکی میڈیا یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہاں کیمیائی ہتھیاروں کی بہتات ہے۔ بعد ازاں میڈیا کی بدولت اسے حقیقت میں تبدیل کر دیا گیا اور جنگ چھڑ گئی جس نے عراق کو تباہ و برباد کر ڈالا جب کہ ماہرین کے جائزے کے بعد تمام حقیقتیں جھٹلا دی گئیں۔ لیکن میڈیا کی لگائی گئی آگ نے وہ بھیانک حالات پیدا کیے جنھیں عراقی عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ زمانہ قدیم میں ملک فتح کرنے کے لیے تلوار کی طاقت استعمال ہوتی تھی۔ افواج پر سرمایہ کاری کی جاتی تھی۔ دشمن ممالک میں فتنہ پھیلانے کے لیے دیگر کئی ذرایع استعمال کیے جاتے تھے جس پر سرمایہ اور توانائیاں خرچ ہوتی تھیں لیکن موجودہ دور میں میڈیا نے یہ کام آسان کر دیا ہے۔ اقوام میں انتشار پھیلانے، نوجوان نسل کو بے راہروی پر گامزن کرنا اور ملکی معیشت کو نقصان سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دنیا بھر کی نظروں میں مشتبہ و اکیلا کرنے میں اس کا کردار خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ایران، شمالی کوریا اور پاکستان بالخصوص اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کیے جا رہے ہیں۔
اسلام اور پاکستان دنیا بھر میں 9/11 کے بعد جس قدر میڈیا کی بدولت متنازع بنا اس کی مثال نہیں ہے۔ اس نے نہ صرف دنیا بھر میں مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کیا بلکہ انھیں دہشت گرد قرار دے کر انھیں زندگی گزارنے کے لیے محدود اور محصور کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں عالمی ذرایع ابلاغ کا اہم کردار ہے۔ صحافی جو حق و سچ کے علمبردار اور معاشرے کا آئینہ دار تصور کیے جاتے ہیں اور انسانی حقوق کے داعی ہوتے ہیں وہ موجودہ دور میں صحافت کو مشن سمجھنے کی بجائے کاروبار کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ میڈیا نے آسائیشوں اور مال و متاع کے حصول کی دوڑ میں انھیں جانب دار بنا ڈالا ہے۔
ہم بخوبی واقف ہیں کہ ایک صحافی کا کام پارٹی یا جانبدار بننا نہیں بلکہ حقائق کو تمام زاویوں کے ساتھ عوام کے سامنے لانا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ مفتی، عالم اور رہنما بن کر عوام کو اصل حقائق سے دور کر رہا ہے۔ اینکر پرسن کی حالت یہ ہے کہ اپنے پروگراموں میں مہمانوں کی رائے سے نہ صرف متفق ہو جاتے ہیں بلکہ اپنا موقف بھی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو منصف بن جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان مختلف بحرانوں اور مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے جن میں جمہوریت کی بحالی، عدلیہ کی خود مختاری اور میڈیا کی آزادی ہمیشہ نظر انداز کی جاتی رہی ہے۔ میڈیا کی آزادی نے جمہوریت کی بحالی اور خاص طور پر عدلیہ کی خود مختاری کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں لیکن آزادیٔ اظہار یا آزادیٔ صحافت نے خود کو محصور کر دیا ہے۔
آپ نے مشہور کہاوت سن رکھی ہے کہ ''اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنا'' بالکل اسی کے مصداق میڈیا اس پر عمل پیرا ہے۔ بعض صحافی اور صحافتی ادارے ملک کی تذلیل اور حساس اداروں کے وقار کو مجروح کرنے کا باعث بن رہے ہیں جن میں ایک حالیہ واقعہ خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ہمارے یہاں ملک میں ہونے والے واقعات کو منتشر کرنے یا شایع کرنے میں احتیاط نہیں برتی جاتی بلکہ ہمارے یہاں عجب روایت ہے کہ قومی اداروں بالخصوص حساس اداروں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے حالانکہ دنیا بھر میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مذکورہ سینئر صحافی پر حملے نے ان کے خاندان نے خدشات ظاہر کرنے کے بجائے کھلم کھلا آئی ایس آئی پر الزامات کی بھرمار کر دی جب کہ نشریاتی ادارے نے باقاعدہ اس اہم ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم شروع کر دی جو نہ صرف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ملک دشمنی پر مبنی بھی ہے جس نے ایک طرف فوج میں تشویش پیدا کر دی ہے تو دوسری جانب عوام کو طبقات میں منقسم کر دیا ہے۔ عوام سڑکوں پر آزادی صحافت کی حمایت اور مذکورہ صحافی سے اظہار یکجہتی بھی کر رہے ہیں اور فوج سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس دو طرفہ صورت حال سے کسی فرد یا ادارے کو نقصان ہو یا نہ ہو صحافی اور صحافت یقینی طور پر محصور ہو جائیں گے۔
صحافی جو عرصہ دراز سے جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے پر عمل پیرا ہیں۔ انھیں مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب کہ نظریاتی صحافیوں کو بھی اپنی جد و جہد کو مزید تیز کرنا پڑے گا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ مذکورہ صحافی اور ادارے کو اپنے خاندان سمیت نہ صرف آئی ایس آئی سے معافی مانگ لینی چاہیے بلکہ عوام کی دل آزاری پر بھی معذرت کرنی چاہیے۔ کیونکہ غلطی ماننے اور گناہ ترک کرنے میں دیر کرنے سے سفر طویل ہو جاتا ہے۔ پھر اس سے واپسی دشوار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کا صحافی اس وقت ویسے بھی گولی کی زد میں ہے۔ پابندیاں اسے محصور کر رہی ہیں، حالات کا تقاضا ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہ کر دیا جائے کہ ایک بار پھر صحافیوں کے حقوق سلب ہو جائیں اور حق و سچ دب جائے۔