سائفر کیس عمران خان کی درخواست ضمانت کی ان کیمرا پروسیڈنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ
اگر اوپن ہونا ہے تو سب کچھ اوپن ہوگا، اگر نہیں تو کچھ نہیں، ہمیں تیاری رکھنی چاہیے، چیف جسٹس کے ریمارکس
ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست ضمانت کی ان کیمرا پروسیڈنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں چیف جسٹس عامر فاروق کے روبرو پٹیشنر کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ صرف 2 وکلا روسٹرم پر رُکیں، یہ جیل سہولیات والا کیس نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ میں چاہتا ہوں کہ پٹیشنر کے وکیل دلائل کر لیں تو صرف عدالت کے سامنے کچھ معروضات رکھوں، جس پر وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔ اس کیس کے جیل ٹرائل کی وجہ سکیورٹی خدشات بتائے گئے ہیں۔ اگر عدالت سمجھے تو عدالت سے غیر ضروری افراد کو باہر نکالا جا سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر اوپن ہونا ہے تو سارا کچھ اوپن ہو گا۔ اگر نہیں ہو گا تو سارا کچھ نہیں ہو گا ۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تین چار روز میں ہم چالان جمع کرا دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کا ریکارڈ دیکھ لوں، پھر طے کریں گے کہ اس کو کس طرح لے کر چلنا ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت کی ان کیمرا پروسیڈنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اب تو عدالتی سماعتوں کی لائیو اسٹریمنگ ہوا کرے گی۔ لائیو اسٹریم ہو گی تو عدالتی کارروائی پوری دنیا دیکھے گی۔ چیف جسٹس کے طور پر یہ عمل میری عدالت سے شروع ہو گا۔ ہمیں اس کے مطابق اپنی تیاری رکھنی چاہیے۔
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں چیف جسٹس عامر فاروق کے روبرو پٹیشنر کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ صرف 2 وکلا روسٹرم پر رُکیں، یہ جیل سہولیات والا کیس نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ میں چاہتا ہوں کہ پٹیشنر کے وکیل دلائل کر لیں تو صرف عدالت کے سامنے کچھ معروضات رکھوں، جس پر وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔ اس کیس کے جیل ٹرائل کی وجہ سکیورٹی خدشات بتائے گئے ہیں۔ اگر عدالت سمجھے تو عدالت سے غیر ضروری افراد کو باہر نکالا جا سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر اوپن ہونا ہے تو سارا کچھ اوپن ہو گا۔ اگر نہیں ہو گا تو سارا کچھ نہیں ہو گا ۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تین چار روز میں ہم چالان جمع کرا دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کا ریکارڈ دیکھ لوں، پھر طے کریں گے کہ اس کو کس طرح لے کر چلنا ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت کی ان کیمرا پروسیڈنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اب تو عدالتی سماعتوں کی لائیو اسٹریمنگ ہوا کرے گی۔ لائیو اسٹریم ہو گی تو عدالتی کارروائی پوری دنیا دیکھے گی۔ چیف جسٹس کے طور پر یہ عمل میری عدالت سے شروع ہو گا۔ ہمیں اس کے مطابق اپنی تیاری رکھنی چاہیے۔