بجلی پھر مہنگی

عجیب تماشہ ہے، کوئی کہتا ہے کہ بجلی کا بحران 15 برس تک ختم نہیں ہو سکتا۔ کوئی کہتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ آیندہ ...


Syed Asadullah May 15, 2014

تازہ خبر (جو عوام سے تعلق رکھتی ہے) یہ ہے کہ بجلی فی الفور مہنگی کر دی گئی فوری اطلاق کا نوٹی فکیشن بھی جاری ہو گیا۔ تو جناب! اب پتہ چلا کہ وفاقی وزیر مملکت پانی و بجلی سندھ کا طوفانی دورہ کیوں کر رہے تھے اور بجلی چوری بجلی چوری کا شور کیوں مچا رہے تھے۔ گویا کہ وہ بجلی مہنگی کرنے والے تھے اسی لیے بجلی چوری کو بنیاد بنا کر اس کی آڑ میں بجلی مہنگی کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اگر وہ اپنی منصوبہ بندی کے مطابق اچانک بجلی مہنگی کر دیتے تو عوام میں اس کا شدید ردعمل آتا اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ نتیجے میں حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑتا۔ بدنامی الگ حکومت کے حصے میں آتی۔

کیا عوام کو معلوم نہیں کہ بار بار بجلی مہنگی کر کے عوام پر بجلی کیوں گرائی جا رہی ہے۔ یہ ساری منصوبہ بندی کس کے حکم پر کی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے اصل حقیقت بتا دینا ہی بہتر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ IMF کے احکامات اور فوراً عملدرآمد کے لیے ان کا دباؤ۔ عوام تو بجلی ہر صورت استعمال کرتے ہیں چاہے مہنگی ہو یا سستی۔ کیوں! اس لیے کہ اب لکڑی کے چولہے جلانا، دستی پنکھے ہلانا، لالٹینوں اور لیمپ میں راتوں میں پڑھنا، سلائی وغیرہ کرنے کا دور واپس نہیں آئے گا اور نہ آپ اسے واپس لا سکتے ہیں۔

صنعتی کارخانوں میں کیا پھر سے کھڈیاں چلیں گی اور بھٹیاں جلائی جائیں گی؟ عوام کے ساتھ مذاق نہ کریں بجلی کی کمی کے باعث جو مشکلات عوام کو، کارخانے داروں کو، صنعتکاروں کو پیش آ رہی ہیں اس کا ادراک رکھیے اور ازالہ کرنے کی کوشش کریں سمجھ نہیں آتا کہ حکومت عوام کو سہولتیں مہیا کرنے کی بجائے ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ترکیبیں کیوں کر رہی ہے۔

کیا ایسی کارکردگی کے لیے عوام نے آپ کو ہیوی مینڈیٹ دیا تھا۔ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ بجلی مہنگی آئی ایم ایف کے دباؤ پر کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ کا اتنا خیال رکھا جا رہا ہے لیکن بجلی کی پیداوار بڑھانے کے دباؤ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سمجھ لیجیے آئی ایم ایف کے دباؤ سے زیادہ خطرناک عوام کا دباؤ ہے جس کے آگے حکومتوں کو گھٹنے ٹیک دینے پڑتے ہیں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا صرف یہی یاد دلاؤں گا کہ کیا ہماری حکومت نے مصر کے تحریر اسکوائر پر عوامی دباؤ کا مظاہرہ نہیں دیکھا؟ دیکھا ضرور ہے لیکن نظرانداز اس لیے کیا جا رہا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ مصر کا تحریر چوک تھا لیکن یہاں کوئی تحریر چوک نہیں ہے۔

محسوس کر رہا ہوں کہ آیندہ مہینوں، سالوں میں (بالخصوص قومی بجٹ کے پیش ہونے کے وقت) اگر بجلی بم گرانے کا یہی سلسلہ جاری رہے گا تو انشاء اللہ ڈی چوک آباد ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں جمہوری نظام قائم ہے۔ جمہوری حکومت بھی ہے۔ آزاد عدلیہ بھی ہے۔ قانون انصاف کی بالادستی بھی ہے اس لیے یہاں سیاسی آمریت کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ عوام دشمن اقدامات اٹھانے کے بجائے عوام دوست منصوبہ بندی کے ساتھ عوام دوست اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، مہنگائی نے عوام کی کمر پہلے ہی توڑ رکھی ہے۔ اس پر طرہ امتیاز یہ ہے کہ حکومت مسلسل عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھائے جا رہی ہے کیا اسی کو جمہوری نظام، جمہوری حکومت اور جمہوری مملکت کہا جاتا ہے؟

عجیب تماشہ ہے، کوئی کہتا ہے کہ بجلی کا بحران 15 برس تک ختم نہیں ہو سکتا۔ کوئی کہتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ آیندہ چار سال تک ہو جائے گا کوئی کہتا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دوست ممالک اور یہاں تک کہ پڑوسی ملک سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس کی بات مانی جائے اور کسی کی نہیں۔ عوام کی تو چھوڑیے وہ بجلی کے بموں کا صبر و تحمل سے سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے وزیر اعظم خود بھی بجلی کے بحران پر قابو نہ پانے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اب تو ان کے حالیہ بیانات، پریس کانفرنسوں سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ بجلی کے بحران (توانائی بحران) کی طرف سے کافی پریشان ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر بجلی و پانی اپنی منطق لڑا رہے ہیں۔ بجلی چور، بجلی چور اور بجلی چوری کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے عوام کو معلوم نہیں ہو رہا ہے۔ ناقدین، تبصرہ نگار، تجزیہ نگار، دانشور سب محو حیرت ہیں کہ اتنے شدید ردعمل اور عوامی دباؤ کے باوجود بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے صحیح راہیں متعین نہیں کی جا رہی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جمہوری حکومت کے لبادے میں سیاسی آمریت مسلط کر دی گئی ہے۔

پھر فخر کے ساتھ یہی تھیوری پیش کی جاتی ہے کہ لنگڑی لولی جمہوریت، آمریت سے بہتر ہے۔ خیال رہے کہ عوام حکومت کی موجودہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی آیندہ کی حکومت کو منتخب کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ حکومتیں خود ہی سے منتخب نہیں ہوا کرتیں۔ اب بھی آپ کے پاس بہت وقت ہے۔ کوشش کیجیے کہ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، دہشتگردی، توانائی کا بحران، پانی کا بحران، گیس کا بحران، ان تمام مسائل کو حل کرنا موجودہ حکومت کا فرض ہے۔

محض ڈالروں کی آمد کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ ڈیڑھ ارب آ گئے، دو ارب آ گئے تو آخر یہ بھی تو بتا دیجیے کہ یہ گئے کہاں۔ کہاں استعمال ہوں گے یا استعمال ہو رہے ہیں۔ ان سے کن کن منصوبوں کا آغاز ہو گا یا کیا جا چکا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک میں جمع ہو گیا ہے تو اسٹیٹ بینک یہ کیوں بتا رہا ہے کہ حکومتی قرضے بڑھ رہے ہیں۔ روزانہ اربوں روپے اسٹیٹ بینک سے حکومت نکلوا رہی ہے۔ اداروں کی نجکاری۔ صنعتی کارخانوں اور کارپوریشنوں کی نجکاری کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن نہ ہی ان اداروں کی نجکاری کی خبر آ رہی ہے اور نہ ہی ان کے نام افشا کیے جا رہے ہیں۔ نان ایشوز اٹھائے جا رہے ہیں۔

غیر معمولی اسکینڈلز بنائے جا رہے ہیں۔ مخالفین سے انتقامی سیاست کی جا رہی ہے عوام کو ان سب باتوں سے کوئی سروکار نہیں انھیں اپنے مسائل حل ہونے کی فکر لاحق ہے۔ بجلی کا بحران ایسا ناسور بن گیا ہے کہ اس کی وجہ سے دیگر بحران جنم لے رہے ہیں۔ یعنی بجلی بحران کا ناسور دیگر بحرانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اس الیکٹرانک اور سائنسی دور میں بجلی کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاور پلانٹس کی تعمیر و تنصیب مکمل کی جائے اور بجلی کی پیداوار بڑھا کر بجلی کے بحران کو قابو کیا جائے نہ کہ بجلی کے دام بڑھا بڑھا کر محض عوام کا خون چوسا جائے۔ عوام کیا پہلے ہی سے مسائل کے دباؤ کا شکار نہیں کہ اب مزید مہنگی بجلی کر کے عوام کا سکون و چین برباد کر دیا جائے۔

کتنا افسوس کا مقام ہے کہ آج کل امتحانات کا سلسلہ جاری ہے اور طلبہ کو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور عدم فراہمی کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی مصروفیات کا نقصان ہو رہا ہے۔ رات بھر بجلی کی آنکھ مچولی اور نیند کا پورا نہ ہونا۔ کیسے صبح امتحان دینے جائیں گے۔ آنے والی نسلوں کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ڈالنے میں بجلی کا بحران نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ کیا کوئی ملک و قوم تعلیم کے بغیر ترقی کا تصور کر سکتی ہے؟ ثابت ہو گیا کہ بجلی کا بحران تمام مسائل کا منبع ہے۔ اس لیے اسے جلد سے جلد حل کیجیے اور عوام کو بجلی کی باآسانی فراہمی ممکن بنائیے۔ بجلی مہنگی ہو گی تو دیگر تمام اشیائے ضرورت کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ بجلی کا بحران تنہا نہیں کھڑا ہوتا بلکہ دوسرے بحرانوں کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

بہرحال بجلی مہنگی کرنے کے نوٹیفکیشن نے عوام میں ہلچل پیدا کر دی ہے جس کا نوٹس لیا جائے اور بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ ''پری بجٹ'' اقدام کیا گیا ہے تا کہ آیندہ بجٹ میں بھی توانائی چارجز کے علاوہ کچھ مزید ٹیکس بجلی کی فراہمی کی مد میں شامل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ بجلی کے دام نہ بڑھائیں۔ پیداوار بڑھائیں۔ مئی، جون کے مہینوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے۔

رمضان المبارک میں تو بجلی کی کھپت معمول سے زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے تو اندیشہ محسوس ہو رہا ہے کہ ریلوے کے بحران کی وجہ یہ تھی کہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو فائدہ پہنچانا تھا اور ریلوے کو ناکام بنانا۔ اسی طرح بجلی کا بحران پیدا کر کے ''جنریٹرز'' کے کاروبار کو فائدہ اور ترقی دینا ہے۔ بہرحال عوام کی حکومت ہے لہٰذا عوام کی خدمت کرنا جمہوری حکومت کا فرض ہے۔ اپنے فرائض سے غافل نہ ہوں۔ عوام کو بجلی کی فراہمی سہل بنا کر ان کو خوشحال زندگی گزارنے دیجیے۔ عوام سے ان کے حقوق چھینئے نہیں بلکہ عوامی حقوق کو عملاً ترجیح دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں