مداخلت
کیا ہم سب اپنے ملک کے اچھے مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں ۔۔۔
ISLAMABAD:
ایسی لڑائی جو لڑی جا رہی ہے۔ لیکن دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی کشیدگی جو موجود ہے۔ لیکن سنائی نہیں دیتی۔ غصہ ہے، گلہ ہے، شکوہ ہے۔ لیکن نہ تو زبان پر ہے نہ زبان زد عام ہے۔ بین الادارتی حدود بظاہر قائم ہیں اور آیندہ قائم رکھنے کا عزم مسلسل بھی ہے۔ لیکن تسلسل قائم نہیں رہ پاتا۔ چند روز گزرتے ہیں کہ کوئی ایک دوسرے کی حد میں جملہ حقوق کے ساتھ موجود ملتا ہے گویا یا تو نظام مستقل تضاد کا شکار ہے یا تضاد خود ایک نظام کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ جس کے ذمے جو کام ہے وہ۔۔۔۔وہ نہیں کرتا، بلکہ جو کام کرتا ہے وہ بلاشبہ کسی دوسرے کی ذمے داری میں کھلی مداخلت کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً مولانا طاہر القادری کی تحریک سیاسی نہیں ہے۔ بلکہ وہ اسے دینی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور ان کا نقطہ نظر کچھ بھی ہو۔ ان کی دین سے متعلق اب تک کی سعی مستحسن ہے۔ لیکن فی الحال 11 مئی سے وہ موجودہ طرز حکومت سے لے کر سابقہ طرز انتخاب تک کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کر رہے ہیں۔ میری رائے میں ان کی شروع کی جانے والی مہم میری تحریر کے ابتدائی جملوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ عمران خان اسی سلسلے کی ایک درخشاں مثال قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اب الیکشن کے ایک سال بعد۔ وہ بھی 11 مئی سے ہی سابقہ الیکشن میں ''ان کے مطابق'' مبینہ دھاندلی کے خلاف جس تحریک کا آغاز کر رہے ہیں وہ بھی بے جا ہے۔ اس وقت ان کی جماعت ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور KPK میں ان کی صوبائی حکومت کے علاوہ، قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی میں بھی ان کے پاس معقول نشستیں موجود ہیں۔ اب ان کی ذمے داری KPK میں اپنی حکومتی کارکردگی کو الیکشن میں کیے گئے وعدوں کے مطابق بہتر سے بہترین کی طرف لانا ہے۔ جب کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے۔ نہ کہ ایک ایسی تحریک چلانا جو بظاہر بے مقصد اور بہ باطن لاحاصل نظر آ رہی ہے۔
میڈیا کو لے لیجیے۔ جس کا اصل کام خبر کو مشتہر کرنا ہے۔ خبر بننا یا بنانا نہیں ہے۔ ادھر میڈیا کے کچھ لوگ مست ہاتھیوں کے کسی غول کی طرح جسے چاہ رہے تھے روند رہے تھے کہ اچانک ان کا پیر ایک Bomb پر پڑ گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ جنگ شروع۔ ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، جس میں اب معافی کی دبی دبی سی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔
اور بعد میں ایک زوردار آواز میں کوئی کہتا ہے۔ ''معافی مشکل''۔ خواجہ سعد رفیق ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں ہمارا یہ نظام قریب قریب تباہ ہو چکا تھا۔ خواجہ صاحب کو ریلوے کی وزارت ملنے کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ اب اس میں بہتری کے آثار نمایاں ہوں گے۔ اور ایسا ہوا بھی۔ لیکن پچھلے چند ماہ سے خواجہ صاحب ریلوے کے سدھار کے بجائے سابق صدر پرویز مشرف کو فوری سزا دلوانے میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ الامان۔
بڑے خواجہ صاحب وزیر دفاع بھی ہیں اور وزیر پانی و بجلی بھی۔ پچھلے ایک سال کی مدت کے دوران میں نے ان کے تقریباً تمام پروگرام ملاحظہ کیے جن میں ٹی وی پر، ٹاک شوز پر، مباحثوں، مناظروں میں بولتے دکھائی دیے لیکن اپنی دونوں وزارتوں کے علاوہ اور اس ذمے داری سے ہٹ کر جس سے وفاداری کا انھوں نے باقاعدہ حلف لیا ہے۔ بڑے خواجہ صاحب عالم ہیں وہ ہر موضوع پر بے تکان گفتگو فرماتے ہیں۔ بس بجلی کی بحرانی صورتحال پر 2020ء کا مژدہ سناتے ہیں۔ باقی تو آپ ان سے مل کر دنیا بھر کی معلومات پر مبنی ایک کتاب تحریر کر سکتے ہیں۔
آپ نے بازار میں کسی حکیم صاحب کے مطب پر ''قبلہ بڑے حکیم صاحب'' کا لکھا ہوا بورڈ ضرور دیکھا ہو گا۔ تو ایسے ہی بہ زبان خود ایک بڑا اخبار کہلوانے والے اخبار کے معروف صحافی جن کی ذمے داری بھی صحافت ہی بننی چاہیے۔ لیکن وہ طالبان کے ہر گروہ سے رابطے میں رہنے کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ وہ صحافتی فرائض کے علاوہ ہر فرض بڑی دیانتداری سے ادا فرماتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی گفتگو فرماتے ہیں تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ صاحب موصوف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے کسی کم عہدے پر فائز ہیں۔
گویا داخلہ، خارجہ میں، تعلیم صحت میں، سیاست آمریت میں، آمریت جمہوریت میں، جمہوریت فسطائیت میں، دفاع دفعہ میں، ریلوے عدلیہ میں۔ بری طرح سے مداخل ہیں۔ اور یہ مداخلت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض اوقات تو یہ دھوکا ہونے لگتا ہے کہ فلاں شخص کے پاس فلاں ذمے داری ہی تھی یا وہ جس کی وہ بات کر رہا تھا۔
دراصل یہی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ دراصل اسی کو ملک کے لیے تنزلی کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک وہ کام کیوں نہیں کرنا چاہتا جو اسے سونپا گیا ہے۔ اگرچہ یہ کہہ دیا جائے تو بھی درست ہو گا کہ قدرت بھی اس سے کچھ مخصوص کام لینا چاہتی ہے۔ سب کام نہیں۔ آج اداروں کے درمیان جو تناؤ پایا جا رہا ہے۔ وہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ پر غور کرتے ہیں تو جس خرابی کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ اس رویے کے عقب میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہی ایک دوسرے کے اختیار اور ذمے داری میں مداخلت۔ ایک ایسی خواہش جو معاملات کو بگاڑ کر رکھ دے۔
ملک کو آن کی آن میں بدترین انارکی کی سمت دھکیل دے۔ کیا ہم کروڑوں لوگوں کے اپنے اوپر اعتماد کا جواب اسی انداز میں دینا چاہتے ہیں؟ کیا ہم سب اپنے ملک کے اچھے مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں اور اب بس کسی ہجرت، کسی تقسیم کے منتظر ہیں؟ کیا ہم میں سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی خو بو بالکل ختم ہو گئی ہے؟ کیا ہم صرف آفیسر ہیں؟ وزیر ہیں، مشیر ہیں، امیر ہیں، جاگیردار ہیں، انڈسٹریلسٹ ہیں؟ اور ہمارا تمام تر مطمع نظر اپنے ملک کو De-stablise کرنا ہے۔ روزانہ نت نئے نظام متعارف کروانے ہیں۔ جو محض تخیلاتی ہوں۔ یہ سوالات ہیں۔ وہ سوالات جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنے ہیں۔
گھروں پے نام تھے' ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
ایسی لڑائی جو لڑی جا رہی ہے۔ لیکن دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی کشیدگی جو موجود ہے۔ لیکن سنائی نہیں دیتی۔ غصہ ہے، گلہ ہے، شکوہ ہے۔ لیکن نہ تو زبان پر ہے نہ زبان زد عام ہے۔ بین الادارتی حدود بظاہر قائم ہیں اور آیندہ قائم رکھنے کا عزم مسلسل بھی ہے۔ لیکن تسلسل قائم نہیں رہ پاتا۔ چند روز گزرتے ہیں کہ کوئی ایک دوسرے کی حد میں جملہ حقوق کے ساتھ موجود ملتا ہے گویا یا تو نظام مستقل تضاد کا شکار ہے یا تضاد خود ایک نظام کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ جس کے ذمے جو کام ہے وہ۔۔۔۔وہ نہیں کرتا، بلکہ جو کام کرتا ہے وہ بلاشبہ کسی دوسرے کی ذمے داری میں کھلی مداخلت کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً مولانا طاہر القادری کی تحریک سیاسی نہیں ہے۔ بلکہ وہ اسے دینی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور ان کا نقطہ نظر کچھ بھی ہو۔ ان کی دین سے متعلق اب تک کی سعی مستحسن ہے۔ لیکن فی الحال 11 مئی سے وہ موجودہ طرز حکومت سے لے کر سابقہ طرز انتخاب تک کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کر رہے ہیں۔ میری رائے میں ان کی شروع کی جانے والی مہم میری تحریر کے ابتدائی جملوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ عمران خان اسی سلسلے کی ایک درخشاں مثال قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اب الیکشن کے ایک سال بعد۔ وہ بھی 11 مئی سے ہی سابقہ الیکشن میں ''ان کے مطابق'' مبینہ دھاندلی کے خلاف جس تحریک کا آغاز کر رہے ہیں وہ بھی بے جا ہے۔ اس وقت ان کی جماعت ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور KPK میں ان کی صوبائی حکومت کے علاوہ، قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی میں بھی ان کے پاس معقول نشستیں موجود ہیں۔ اب ان کی ذمے داری KPK میں اپنی حکومتی کارکردگی کو الیکشن میں کیے گئے وعدوں کے مطابق بہتر سے بہترین کی طرف لانا ہے۔ جب کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے۔ نہ کہ ایک ایسی تحریک چلانا جو بظاہر بے مقصد اور بہ باطن لاحاصل نظر آ رہی ہے۔
میڈیا کو لے لیجیے۔ جس کا اصل کام خبر کو مشتہر کرنا ہے۔ خبر بننا یا بنانا نہیں ہے۔ ادھر میڈیا کے کچھ لوگ مست ہاتھیوں کے کسی غول کی طرح جسے چاہ رہے تھے روند رہے تھے کہ اچانک ان کا پیر ایک Bomb پر پڑ گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ جنگ شروع۔ ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، جس میں اب معافی کی دبی دبی سی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔
اور بعد میں ایک زوردار آواز میں کوئی کہتا ہے۔ ''معافی مشکل''۔ خواجہ سعد رفیق ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں ہمارا یہ نظام قریب قریب تباہ ہو چکا تھا۔ خواجہ صاحب کو ریلوے کی وزارت ملنے کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ اب اس میں بہتری کے آثار نمایاں ہوں گے۔ اور ایسا ہوا بھی۔ لیکن پچھلے چند ماہ سے خواجہ صاحب ریلوے کے سدھار کے بجائے سابق صدر پرویز مشرف کو فوری سزا دلوانے میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ الامان۔
بڑے خواجہ صاحب وزیر دفاع بھی ہیں اور وزیر پانی و بجلی بھی۔ پچھلے ایک سال کی مدت کے دوران میں نے ان کے تقریباً تمام پروگرام ملاحظہ کیے جن میں ٹی وی پر، ٹاک شوز پر، مباحثوں، مناظروں میں بولتے دکھائی دیے لیکن اپنی دونوں وزارتوں کے علاوہ اور اس ذمے داری سے ہٹ کر جس سے وفاداری کا انھوں نے باقاعدہ حلف لیا ہے۔ بڑے خواجہ صاحب عالم ہیں وہ ہر موضوع پر بے تکان گفتگو فرماتے ہیں۔ بس بجلی کی بحرانی صورتحال پر 2020ء کا مژدہ سناتے ہیں۔ باقی تو آپ ان سے مل کر دنیا بھر کی معلومات پر مبنی ایک کتاب تحریر کر سکتے ہیں۔
آپ نے بازار میں کسی حکیم صاحب کے مطب پر ''قبلہ بڑے حکیم صاحب'' کا لکھا ہوا بورڈ ضرور دیکھا ہو گا۔ تو ایسے ہی بہ زبان خود ایک بڑا اخبار کہلوانے والے اخبار کے معروف صحافی جن کی ذمے داری بھی صحافت ہی بننی چاہیے۔ لیکن وہ طالبان کے ہر گروہ سے رابطے میں رہنے کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ وہ صحافتی فرائض کے علاوہ ہر فرض بڑی دیانتداری سے ادا فرماتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی گفتگو فرماتے ہیں تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ صاحب موصوف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے کسی کم عہدے پر فائز ہیں۔
گویا داخلہ، خارجہ میں، تعلیم صحت میں، سیاست آمریت میں، آمریت جمہوریت میں، جمہوریت فسطائیت میں، دفاع دفعہ میں، ریلوے عدلیہ میں۔ بری طرح سے مداخل ہیں۔ اور یہ مداخلت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض اوقات تو یہ دھوکا ہونے لگتا ہے کہ فلاں شخص کے پاس فلاں ذمے داری ہی تھی یا وہ جس کی وہ بات کر رہا تھا۔
دراصل یہی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ دراصل اسی کو ملک کے لیے تنزلی کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک وہ کام کیوں نہیں کرنا چاہتا جو اسے سونپا گیا ہے۔ اگرچہ یہ کہہ دیا جائے تو بھی درست ہو گا کہ قدرت بھی اس سے کچھ مخصوص کام لینا چاہتی ہے۔ سب کام نہیں۔ آج اداروں کے درمیان جو تناؤ پایا جا رہا ہے۔ وہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ پر غور کرتے ہیں تو جس خرابی کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ اس رویے کے عقب میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہی ایک دوسرے کے اختیار اور ذمے داری میں مداخلت۔ ایک ایسی خواہش جو معاملات کو بگاڑ کر رکھ دے۔
ملک کو آن کی آن میں بدترین انارکی کی سمت دھکیل دے۔ کیا ہم کروڑوں لوگوں کے اپنے اوپر اعتماد کا جواب اسی انداز میں دینا چاہتے ہیں؟ کیا ہم سب اپنے ملک کے اچھے مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں اور اب بس کسی ہجرت، کسی تقسیم کے منتظر ہیں؟ کیا ہم میں سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی خو بو بالکل ختم ہو گئی ہے؟ کیا ہم صرف آفیسر ہیں؟ وزیر ہیں، مشیر ہیں، امیر ہیں، جاگیردار ہیں، انڈسٹریلسٹ ہیں؟ اور ہمارا تمام تر مطمع نظر اپنے ملک کو De-stablise کرنا ہے۔ روزانہ نت نئے نظام متعارف کروانے ہیں۔ جو محض تخیلاتی ہوں۔ یہ سوالات ہیں۔ وہ سوالات جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنے ہیں۔
گھروں پے نام تھے' ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا