سانحہ بلدیہ حماد صدیقی سمیت دیگر کا شناختی کارڈ پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے پیش نہ ہونے پر سیکریٹری فارن افئیرز کو نوٹس جاری کردیا
سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ کیس کے ملزم حماد صدیقی سمیت 3 ملزمان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو سانحہ بلدیہ کیس، اسٹیٹ لائف ریجنل چیف اور پولیس اہلکار کے قتل میں مفرور ملزمان کی وطن واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے مفرور ملزمان حماد صدیقی، تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عالیہ نے پیش نا ہونے پر سیکریٹری فارن افیئرز کو بھی شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری لیبر، سیکریٹری انڈسٹریز، وفاقی ایڈیشنل سیکریٹری، نمائندہ فاران آفس، ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا سمیت دیگر پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ بیرون ملک مفرور ملزمان کی وطن واپسی کی کوششیں نا کرنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ وزارت داخلہ نے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی درخواست پر ریڈ نوٹس جاری کرنے کا پروسیس کرتی ہے۔ سانحہ بلدیہ کیس میں سندھ حکومت کی درخواست پر 26 جنوری 2017 کو حماد صدیقی کا ریڈ وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔ ریڈ وارنٹ 5 سال کی مدت مکمل ہونے پر ختم ہوگیا تھا۔
ریڈ وارنٹ میں یکم ستمبر 2021 کو 5 سال کی توسیع کردی گئی تھی جو اب بھی فعال ہے۔ حماد صدیقی کی گرفتاری کیلئے 16 ستمبر 2023 کو یو اے ای سمیت تمام ممالک کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ ابو ظہبی حکومت نے بتایا کہ حماد صدیقی 2017 میں ابو ظہبی چھوڑ چکا ہے۔ انٹرپول کے زریعے حماد صدیقی کو گرفتار کرنے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔
وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ خرم نثار سوئیڈیش نیشنل ہے اور سوئیڈن کے ساتھ پاکستان کا قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستان کا 92 ممالک کے ساتھ قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا ملزم خرم نثار دوہری شہریت رکھتا ہے۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ سوئیڈن کی حکومت کو بتانا ہوگا کہ اس کے شہری نے پاکستان میں پولیس اہلکار کا قتل کیا ہے۔ وہ دہری شہریت رکھتا ہے تو سوئیڈن کے قانون کے تحت بھی اس کا ٹرائل ہوسکتا ہے۔ سوئیڈن حکومت کا مجسٹریٹ گواہوں کے بیانات قلم بند کرسکتا ہے۔ قتل پاکستانی حدود میں ہوا ہے۔
ملزم تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بلاک نا کرنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں ابھی تک دونوں مفرور ملزمان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک نہیں ہوئے؟ وفاقی ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ محکمہ داخلہ سندھ جب دونوں مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا کہا جائیگا تو بلاک کردیں گے۔
عدالت نے تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس کے کے آغا نے استفسارکیا کہ حماد صدیقی نے آخری بار پاکستان کب لینڈ کیا تھا؟ حماد صدیقی کی آخری بار پاکستان لینڈ کرنے کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ افسوسناک صورت حال ہے کراچی کی کئی فیکٹریوں میں فائر فائٹنگ آلات نہیں ہیں۔
چیف سیکریٹری نے بتایا کہ محکمہ لیبر کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں اس وقت 4 ہزار رجسٹرڈ فیکٹریاں کام کررہی ہیں۔ محکمہ انڈسٹریز اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی فیکٹریوں سے متعلق رپورٹ میں تضاد تھا۔ کے الیکٹرک کی رپورٹ کہ مطابق شہر میں 32 ہزار انڈسٹریل کنیکشن دیئے گئے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ بڑی تعداد میں فیکٹریاں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ اگر فیکٹریاں رجسٹرڈ نہیں ہیں، تو غیر رجسٹرڈ فیکٹریوں کو فوری رجسٹرڈ کیا جائے۔ شہر بھر کی فیکٹریوں میں دوبارہ انسپیکشن کرکے سرٹفکیٹ جاری کیئے جائیں۔ اگر سرٹفکیٹ کے اجراء کے بعد بھی کوئی حادثہ ہوا تو اس کی ذمہ دار سیکریٹری لیبر پر ہوگی۔ فیکٹریاں منافع کما رہی ہیں مگر ملازمین محفوظ نہیں ہیں۔
عدالت نے کراچی میں قائم فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات اور لیبر قوانین پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر نادرا اور سیکریٹری فارن افیئرز سے 2 اکتوبر تک رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے پیش نا ہونے پر سیکریٹری فارن افیئرز کو شوکاز نوٹس جاری کردئیے۔
پراسکیوٹر جنرل سندھ کو صوبے بھر کے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی فہرست پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
استغاثہ کے مطابق کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائیزز نامی فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو بھڑکنے والی آگ میں جھلس کر 260 مزدور ہلاک اور 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ آٹھ سال بعد 2020 میں عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو سانحہ بلدیہ کیس، اسٹیٹ لائف ریجنل چیف اور پولیس اہلکار کے قتل میں مفرور ملزمان کی وطن واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے مفرور ملزمان حماد صدیقی، تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عالیہ نے پیش نا ہونے پر سیکریٹری فارن افیئرز کو بھی شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری لیبر، سیکریٹری انڈسٹریز، وفاقی ایڈیشنل سیکریٹری، نمائندہ فاران آفس، ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا سمیت دیگر پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ بیرون ملک مفرور ملزمان کی وطن واپسی کی کوششیں نا کرنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ وزارت داخلہ نے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی درخواست پر ریڈ نوٹس جاری کرنے کا پروسیس کرتی ہے۔ سانحہ بلدیہ کیس میں سندھ حکومت کی درخواست پر 26 جنوری 2017 کو حماد صدیقی کا ریڈ وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔ ریڈ وارنٹ 5 سال کی مدت مکمل ہونے پر ختم ہوگیا تھا۔
ریڈ وارنٹ میں یکم ستمبر 2021 کو 5 سال کی توسیع کردی گئی تھی جو اب بھی فعال ہے۔ حماد صدیقی کی گرفتاری کیلئے 16 ستمبر 2023 کو یو اے ای سمیت تمام ممالک کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ ابو ظہبی حکومت نے بتایا کہ حماد صدیقی 2017 میں ابو ظہبی چھوڑ چکا ہے۔ انٹرپول کے زریعے حماد صدیقی کو گرفتار کرنے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔
وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ خرم نثار سوئیڈیش نیشنل ہے اور سوئیڈن کے ساتھ پاکستان کا قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستان کا 92 ممالک کے ساتھ قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا ملزم خرم نثار دوہری شہریت رکھتا ہے۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ سوئیڈن کی حکومت کو بتانا ہوگا کہ اس کے شہری نے پاکستان میں پولیس اہلکار کا قتل کیا ہے۔ وہ دہری شہریت رکھتا ہے تو سوئیڈن کے قانون کے تحت بھی اس کا ٹرائل ہوسکتا ہے۔ سوئیڈن حکومت کا مجسٹریٹ گواہوں کے بیانات قلم بند کرسکتا ہے۔ قتل پاکستانی حدود میں ہوا ہے۔
ملزم تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بلاک نا کرنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں ابھی تک دونوں مفرور ملزمان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک نہیں ہوئے؟ وفاقی ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ محکمہ داخلہ سندھ جب دونوں مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا کہا جائیگا تو بلاک کردیں گے۔
عدالت نے تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس کے کے آغا نے استفسارکیا کہ حماد صدیقی نے آخری بار پاکستان کب لینڈ کیا تھا؟ حماد صدیقی کی آخری بار پاکستان لینڈ کرنے کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ افسوسناک صورت حال ہے کراچی کی کئی فیکٹریوں میں فائر فائٹنگ آلات نہیں ہیں۔
چیف سیکریٹری نے بتایا کہ محکمہ لیبر کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں اس وقت 4 ہزار رجسٹرڈ فیکٹریاں کام کررہی ہیں۔ محکمہ انڈسٹریز اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی فیکٹریوں سے متعلق رپورٹ میں تضاد تھا۔ کے الیکٹرک کی رپورٹ کہ مطابق شہر میں 32 ہزار انڈسٹریل کنیکشن دیئے گئے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ بڑی تعداد میں فیکٹریاں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ اگر فیکٹریاں رجسٹرڈ نہیں ہیں، تو غیر رجسٹرڈ فیکٹریوں کو فوری رجسٹرڈ کیا جائے۔ شہر بھر کی فیکٹریوں میں دوبارہ انسپیکشن کرکے سرٹفکیٹ جاری کیئے جائیں۔ اگر سرٹفکیٹ کے اجراء کے بعد بھی کوئی حادثہ ہوا تو اس کی ذمہ دار سیکریٹری لیبر پر ہوگی۔ فیکٹریاں منافع کما رہی ہیں مگر ملازمین محفوظ نہیں ہیں۔
عدالت نے کراچی میں قائم فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات اور لیبر قوانین پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر نادرا اور سیکریٹری فارن افیئرز سے 2 اکتوبر تک رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے پیش نا ہونے پر سیکریٹری فارن افیئرز کو شوکاز نوٹس جاری کردئیے۔
پراسکیوٹر جنرل سندھ کو صوبے بھر کے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی فہرست پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
استغاثہ کے مطابق کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائیزز نامی فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو بھڑکنے والی آگ میں جھلس کر 260 مزدور ہلاک اور 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ آٹھ سال بعد 2020 میں عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔