ڈالر کی گراوٹ کا رجحان جاری انٹربینک میں مزید سستا ہوگیا
ڈالر کے انٹربینک ریٹ 6 ہفتوں کی کم ترین سطح پر آگئے
امریکی ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں گراوٹ کا رجحان مسلسل جاری ہے۔
ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث پیر کو پندرہویں دن بھی ڈالر ریورس گئیر میں رہا جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 6 ہفتوں کی کم ترین سطح پر آگئے، 6 ہفتوں بعد ڈالر کے انٹربینک ریٹ 291 روپے سے بھی نیچے آگئے جبکہ اوپن ریٹ 4 ماہ کے وقفے کے بعد 293 روپے پر آگیا۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ڈالر کی قدر ایک موقع پر ایک روپے 21 پیسے کی کمی سے 290 روپے 55 پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن وقفے وقفے سے درآمدی نوعیت کی ڈیمانڈ آنے سے ڈالر اتارچڑھاؤ کا شکار رہا جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے انٹربینک ریٹ 90 پیسے کی کمی سے 290 روپے 86 پیسے پر بند ہوئے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 50 پیسے کی کمی سے 293 روپے پر بند ہوا۔
نگراں وزراء کا ڈالر کی نسبت روپے کی قدر کو بہرصورت مستحکم رکھنے کے بیانات سے ڈالر کی نسبت روپیہ کی قدر ہر آنے والے دن بتدریج نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ مارکیٹ سینٹیمنٹس بھی بہتر ہوتے جارہے ہیں، نگراں حکومت کی معاشی ٹیم تاجر وصنعتکاروں اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے متحرک نظر آرہی ہے۔
سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر ترغیبات کے فیصلوں سے قانونی چینلز سے ترسیلات کی آمد بھی بڑھ رہی ہے اس طرح سے مارکیٹ ڈالر کی قلت بتدریج گھٹتی جارہی ہے، حکومت کا بیرون ملک روکے گئے ڈالر ملک میں لاکر دھن کو سفید کرنے کے مشورے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی نگرانی سخت کیے جانے اور نئی اے ٹی ٹی پالیسی متعارف کراتے ہوئے ڈالر کی اسمگلنگ پر قابو پانے جیسے عوامل ڈالر میں سرمایہ کاری اور بلاضرورت خریداری کی حوصلہ شکنی کا سبب بن رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف جاری کریک ڈاون کی وجہ سے حوالہ ہنڈی کی سرگرمیاں معطل ہونے سے قانونی چینل سے ترسیلات بتدریج بڑھ رہی ہیں اور اس ضمن میں ایک بڑے بینک نے اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی آمد میں 35 سے 40 فیصد بڑھنے کا بھی دعوی کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دیگر مشکوک شعبوں کی طرح سونے کے بیوپاریوں کے خلاف جاری کاروائیوں سے مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تسلسل سے کمی کی خبریں زیرگردش ہیں جس کی وجہ سے ناصرف ایکسپورٹرز اپنی ذرمبادلہ میں موصول ہونے والی برآمدی آمدنی بھنارہے ہیں بلکہ ہولڈ شدہ ڈالرز بھی مارکیٹ میں فروخت کے لیے آرہے ہیں جو مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی بڑھانے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔
ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث پیر کو پندرہویں دن بھی ڈالر ریورس گئیر میں رہا جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 6 ہفتوں کی کم ترین سطح پر آگئے، 6 ہفتوں بعد ڈالر کے انٹربینک ریٹ 291 روپے سے بھی نیچے آگئے جبکہ اوپن ریٹ 4 ماہ کے وقفے کے بعد 293 روپے پر آگیا۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ڈالر کی قدر ایک موقع پر ایک روپے 21 پیسے کی کمی سے 290 روپے 55 پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن وقفے وقفے سے درآمدی نوعیت کی ڈیمانڈ آنے سے ڈالر اتارچڑھاؤ کا شکار رہا جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے انٹربینک ریٹ 90 پیسے کی کمی سے 290 روپے 86 پیسے پر بند ہوئے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 50 پیسے کی کمی سے 293 روپے پر بند ہوا۔
نگراں وزراء کا ڈالر کی نسبت روپے کی قدر کو بہرصورت مستحکم رکھنے کے بیانات سے ڈالر کی نسبت روپیہ کی قدر ہر آنے والے دن بتدریج نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ مارکیٹ سینٹیمنٹس بھی بہتر ہوتے جارہے ہیں، نگراں حکومت کی معاشی ٹیم تاجر وصنعتکاروں اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے متحرک نظر آرہی ہے۔
سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر ترغیبات کے فیصلوں سے قانونی چینلز سے ترسیلات کی آمد بھی بڑھ رہی ہے اس طرح سے مارکیٹ ڈالر کی قلت بتدریج گھٹتی جارہی ہے، حکومت کا بیرون ملک روکے گئے ڈالر ملک میں لاکر دھن کو سفید کرنے کے مشورے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی نگرانی سخت کیے جانے اور نئی اے ٹی ٹی پالیسی متعارف کراتے ہوئے ڈالر کی اسمگلنگ پر قابو پانے جیسے عوامل ڈالر میں سرمایہ کاری اور بلاضرورت خریداری کی حوصلہ شکنی کا سبب بن رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف جاری کریک ڈاون کی وجہ سے حوالہ ہنڈی کی سرگرمیاں معطل ہونے سے قانونی چینل سے ترسیلات بتدریج بڑھ رہی ہیں اور اس ضمن میں ایک بڑے بینک نے اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی آمد میں 35 سے 40 فیصد بڑھنے کا بھی دعوی کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دیگر مشکوک شعبوں کی طرح سونے کے بیوپاریوں کے خلاف جاری کاروائیوں سے مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تسلسل سے کمی کی خبریں زیرگردش ہیں جس کی وجہ سے ناصرف ایکسپورٹرز اپنی ذرمبادلہ میں موصول ہونے والی برآمدی آمدنی بھنارہے ہیں بلکہ ہولڈ شدہ ڈالرز بھی مارکیٹ میں فروخت کے لیے آرہے ہیں جو مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی بڑھانے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔