خاندان میں شادی کی صدیوں پرانی رسم دم توڑنے لگی

دیہات میں بھی اب والدین بیٹیوں کے لیے خاندان سے باہر پڑھے لکھے اور معاشی مضبوط نوجوانوں کے رشتے کو ترجیح دینے لگے ہیں

فوٹو : فائل

بدلتے حالات، ضرورتوں اور تعلیمی شعور کے باعث پنجاب کے دیہی علاقوں میں'' خاندان میں ہی شادی '' کی صدیوں پرانی روایت دم توڑنے لگی ہے، دیہات میں بھی اب والدین اپنی بیٹیوں کے لیے پڑھے لکھے اور معاشی طور پر مضبوط نوجوانوں کے رشتے کو ترجیح دیتے ہیں۔


لاہور کے مضافاتی علاقہ منہالہ کی رہائشی 60 سالہ حمیداں بی بی کو لوگ رشتے کروانے والی ''وچولن '' کے نام سے جانتے ہیں۔ حمیداں بی بی اب تک سیکڑوں رشتے کرواچکی ہیں۔ ان کے پاس درجنوں چاندی اور سونے کی انگوٹھیاں ہیں جوانہیں رشتے کرانے کے عوض انعام کے طور پر ملتی رہی ہیں۔


حمیداں بی بی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خاندان میں ہی بیٹے، بیٹی کی شادی کرنے کی روایت اب ختم ہورہی ہے، لوگ اب خاندان سے باہر اچھے رشتے تلاش کرتے ہیں تاہم دیہات میں ذات، برادری کی شرط اب بھی عام ہے، چند دہائیاں قبل جب کوئی فیملی ان سے اپنی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کرنے کا کہتی تو ان کی سب سے پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ لڑکے والوں کے پاس زمین، جائیداد ہونی چاہیے، مال مویشیوں کی زیادہ تعداد کو بھی اہمیت دی جاتی تھی، اسی طرح خاندانی پس منظر اورشرافت کو بھی مدنظر رکھا جاتا تھا لیکن اب وقت بدل گیا ہے اب یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا اور خوبصورت ہونا چاہیے، سرکاری نوکری والے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر لڑکا شادی کے بعد والدین سے علیحدہ رہے گا تو یہ تو سب سے بہترین آپشن ہوتا ہے۔


راؤ عبدالرحمن بھی لاہور کے ایک سرحدی گاؤں کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، سب بہن، بھائیوں کی شادیاں خاندان میں ہی ہوئی ہیں خود ان کی اہلیہ ان کی خالہ زاد ہیں لیکن اب وہ اپنی بیٹیوں کے لئے خاندان سے باہر رشتہ تلاش کررہے ہیں۔



راؤعبدالرحمن نے بتایا ان کی تین بیٹیاں اور دوبیٹے ہیں، تمام بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی ہے لیکن خاندان میں ایسا کوئی لڑکا نہیں ہے جو ان کی بیٹیوں کی طرح اعلی تعلیم یافتہ ہو، اس لئے وہ اپنی بیٹیوں کو خاندان سے باہر بیاہنا چاہتے ہیں، قریبی رشتہ داروں کی وجہ سے وہ ایک بیٹے کا رشتہ اپنی بہن کی بیٹی اور اپنی ایک بیٹی کا رشتہ بھائی کے بیٹے سے کرچکے ہیں لیکن وہ باقی بچوں کی شادیاں خاندان سے باہرکرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ان کے خاندان کے لوگ ناراض بھی ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقتی ناراضی کو تو برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اولاد کی بے جوڑ شادی سے جو مسائل ہوں گے وہ زندگی بھر برداشت کرنا پڑیں گے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے چند بچوں کی مثال دی جن کی باہم شادیاں ہوئی ہیں لیکن وہ لوگ لڑتے جھگڑتے اور شکوے ، شکایتوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔


پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کی ڈائریکٹر اور ماہر پبلک ہیلتھ سیکٹر ڈاکٹر روبینہ ذاکر نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا خاندان میں شادی یعنی کزن میرج کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں، خاندان میں ہی شادی کے حوالے سے والدین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی ان کا اپنا ہی خون ہے وہ یہ سمجھتےہیں کہ '' اگر کوئی اپنا مارے گا تو سائے میں ہی پھینکے گا''۔


ڈاکٹر روبینہ نے کہا کہ اس کے علاوہ خاندان میں شادی کی ایک وجہ معاشی حالات بھی ہوتے ہیں کیونکہ اپنوں میں شادی پر زیادہ دکھاوے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر جہیز زیادہ نہ بھی دیا جائے تو گزارہ ہوجاتا ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کے نام اگر کافی جائیداد ہو تو اس وجہ سے شادی خاندان میں کردی جاتی ہے کہ دولت باہر نہیں جائے گی، خاندان کے حوالے سے، چھان بین اور تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی، ہونے والے شوہر اور بیوی بچپن سے ہی ایک دوسرے کے طبیعت، مزاج اور فطرت سے واقف ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ماں باپ کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں سو ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی، انڈر اسٹینڈنگ ہونے کے چانسز بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن اگر ان چند فوائد کے مقابلے میں نقصانات دیکھیں تو وہ زیادہ ہیں۔


خاندان میں شادی کے نقصان پر انہوں ںے کہا کہ خاندانوں میں عموما لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کو زچگی کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ کزن میرج میں کئی بیماریاں ایسی ہیں جو نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں، کزن میرج سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے، جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر ہوتا ہے اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلیسیمیا، امراض قلب، ڈاؤن اسٹریم اور شوگر دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں اوران کی شرح بھی بڑھتی جاتی ہے۔


ڈاکٹرروبینہ کاظم کہتی ہیں اب تو جدید تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ کزن میرج سے بڑھ کر ایک ہی خاندان، برادری میں شادیوں سے بھی موروثی بیماریاں ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر کسی ایک فرد کو 50 سال کی عمر میں دل کا عارضہ لاحق ہوا یا شوگر ہوئی تو اس کے بچوں کو یہ امراض 40 سال کی عمر میں ہوسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب عوام میں یہ آگاہی پیدا ہورہی ہے کہ وہ خاندان سے باہر شادیاں کریں تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کو فروغ مل سکے۔

Load Next Story