شرح مبادلہ کو ایکسچینج کمپنیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا یونس ڈھاگا
متعدد ایکسچینج کمپنیاں حوالہ ڈیلرز کے فرنٹ آفس کا کردار ادا کرتی ہیں، نگراں صوبائی وزیر
نگران صوبائی وزیر تجارت یونس ڈھاگا نے کہا ہے کہ شرح مبادلہ کو ایکسچینج کمپنیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
گزشتہ روز عالمی بینک اور پائڈ (PIDE) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یونس ڈھاگا نے کہا کہ زرمبادلہ کی قیمتیں مقرر کرنے کا کام چند ایکسچینج کمپنیوں کے ہاتھوں میں دینے کی آئی ایم ایف کی شرط انتہائی غیر دانشمندانہ ہے۔ درآمدات کا موثر متبادل صنعتی پالیسی کا لازمی حصہ ہونا چاہئے جس کا بنیادی فوکس بر آمدات کی بنیاد پر نمو کا حصول ہو۔
انہوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ ریٹس کا انتظام چند فارن ایکسچینج ڈیلر کرتے ہیں جن میں سے اکثر حوالہ ڈیلرز کے فرنٹ آفس ہیں۔ ایسے حالات میں آئی ایم ایف کی جانب سے کرنسی کی قیمتوں کو ڈیلرز کے ہاتھ میں دینے کی شرط انتہائی نادانی ہے۔ یونس ڈھاگا نے تجویز پیش کی کہ اسٹیٹ بینک پاکستانی روپے کی عالمی طور پر قبول شدہ حقیقی موثر شرح تبادلہ کے مطابق وقتاً فوقتاً شرح مبادلہ طے کرے۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے لیے کوئی پرفیکٹ مارکیٹ نہیں جہاں مسابقتی مارکیٹ کی سرگرمیوں کے ذریعے فارن کرنسی کی قیمتوں کا تعین موثر طریقے سے کیا جا سکے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کی گئی انکوائریوں میں وہ چند بینک جو انٹربینک ریٹس کا انتظام کرتے ہیں، غیر منصفانہ طریقوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی پالیسیوں میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار کو نظر انداز کرکے ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بلند نمو کے حصول کیلئے چھوٹے اور درمیانے کاروبار کو بڑا کردار دیا جانا ضروری ہے۔ بلند نمو کی حکمت عملی کیلئے ہنر مند نوجوان، اعلیٰ پیداواری صلاحیت، زراعت، کان کنی، معدنی وسائل کی قدر میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ سرمایہ کاری ایسے ماحولیاتی نظام میں راغب ہوتی ہے جہاں سرمایہ کاری کیلئے جامع پالیسی کے ساتھ ساتھ صنعتی اور ٹیرف پالیسیوں کا طویل المیعاد تسلسل اور سیاسی استحکام موجود ہو۔ اس طرح کے پالیسی فریم ورک کو ترجیحی شعبوں میں مقامی سرمایہ کاروں کی شمولیت سے جانچا جائے گا جس میں اعلیٰ پیداواری زراعت، مشینی کان کنی ، قدر میں اضافہ (ویلیو ایڈیشن) اور انسانی وسائل کی ترقی ہو۔
یونس ڈھاگہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 'درآمدی متبادل' کو پاکستان جیسی جدوجہد کرنے والی معیشت کے لیے "برے لفظ" کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے جس کی صنعتی بنیاد اور مارکیٹ تک رسائی بہت محدود ہے، جب کہ اس کے حریفوں نے ایک مضبوط صنعتی بنیاد تیار کرنے کے بعد اپنی معیشتوں کو کھول دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان ایک معقول صنعتی بنیاد تیار نہیں کر لیتا اور ان منڈیوں تک رسائی حاصل نہیں کر لیتا جہاں اس کے تجارتی حریفوں کے آزاد تجارتی معاہدے موجود ہیں،اس وقت تک یکطرفہ تجارتی لبرلائزیشن کی طرف جانا فضول ہوگا۔ انہوں نے اس دور کو یاد کیا جب پاکستان کے پالیسی سازوں نے 2002 سے 2009 کے درمیان اوسط کسٹم ٹیرف کو 18 فیصد سے کم کر کے 8 فیصد کردیا تو ہم نے دیکھا کہ تجارتی خسارے کے مسئلے نے معیشت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک کہ پالیسی کی بڑی توجہ برآمدات کی بنیاد پر حاصل ہونے والی نمو پر ہے اس وقت تک محدود مدت کے لئے چند اہم شعبوں جیسے آئل ریفائننگ، پیٹرو کیمیکلز، اسٹیل سازی، انجینئرنگ وغیرہ کے لیے محدود تحفظ کی اجازت دی جانی چاہیے۔ عام پالیسی کے طور پر درآمدی متبادل کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔ دفتر خارجہ اور وزارت تجارت کو برآمد کنندگان کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے تجارتی معاہدوں پر گفت و شنید اور حتمی شکل دینے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔