افغان پناہ گزین اور ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز
پاکستان کی پناہ گزین پالیسی کو معیاری بنانے کے لیے قانون سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
پاکستان بدستور پناہ گزینوں کو میزبانی کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کی تعداد37 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے جون 2023تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کی کل تعداد میں سے صرف تیرہ لاکھ تیس ہزار رجسٹرڈ ہیں جب کہ سات لاکھ پچھتر ہزار بغیر اندراج کے رہائش پذیر ہیں۔ اب تک چھ لاکھ نئے افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تاہم جب افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کی اپیل پر سوویت یونین کی فوج افغانستان میں داخل ہوئی تو اس کے بعد مہاجرین کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔
افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کا خاتمہ ہوا تو مجاہدین کی تنظیمیں آپس میں برسرپیکار ہوگئیں ، یوں افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہوا، اس دوران بھی افغانستان کے لاکھوں شہریوں نے جان بچانے کے لیے پاکستان کا رخ کیا۔
1994 میں طالبان کا ظہور ہوتا ہے، پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس حکومت کو تسلیم کیا لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے اس کا الزام القاعدہ کے سربراہ پر لگایا جو اس وقت افغانستان کی طالبان حکومت کی پناہ میں تھا۔
امریکا نے وارننگ دی کہ اگر طالبان حکومت نے القاعدہ کے سربراہ کو امریکا کے حوالے نہ کیا تو اس پر حملہ کردیا جائے گا، لیکن طالبان حکومت نے انکار کردیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا اور پاکستان کو جن بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر پناہ فراہم کی لیکن پاکستان کی کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی، سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہداف طے نہ کیے۔
یو این ایچ سی آر اور یو ایس ایڈ کے ہمراہ شراکت داری کے باوجود بھی پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے بارے میں قومی سطح پر ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو بین الاقوامی قوانین اور مقامی حکومتی ضروریات کو مد نظر رکھتی ہو۔
پاکستان قومی سطح پر پناہ گزین قانون کی غیر موجودگی کی وجہ سے پناہ گزینوں کی حیثیت کا تعین کرنے اور ان کی وطن واپسی کے لیے یو این ایچ سی آرکا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کی نااہلی، کم فہمی اور مفاد پرستی کا نتیجہ آج ایک عفریت بن کر سامنے کھڑا ہے۔
افغانستان سے پاکستان میں جو پناہ گزین آئے ہیں اور جو آرہے ہیں، ان میں تاجک بھی ہیں، ہزارہ منگول بھی ہیں، ازبک بھی ہیں ، وسط ایشیائی ریاستوں کے باشندے بھی ہیں ، شمالی افریقہ کے لوگ بھی ہیں ، یہ سب لوگ افغانستان کے باشندے بن کر پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔
یہ لوگ بتدریج اپنے لیے مقررہ کیمپوں سے باہر نکلتے رہے ، پاکستان میں ادارہ جاتی کرپشن اورمقامی عمائدین اور سیاسی کارکنوں کی موقع پرستی ، پیسے کا لالچ پناہ گزینوں کے کام آیا اورافغان مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بنانے میں کامیاب ہوگئے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان ان کے لانچنگ پیڈ بن گیا۔
پاکستان میں لاکھوں افراد کی آمد کے بعد سماجی و معاشی مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا، ملک میں ہتھیاروں اور منشیات کی بھرمار ہوئی، قتل، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا، اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوگیاجو اب تک جاری ہے۔
سیاسی رہنماؤں نے متشدد گروہوں، ہتھیاروں، باغیوں اور بنیاد پرست نظریات کی سرحد پار سے آمد پر اپنے خدشات ظاہرکیے ہیں۔ افغانستان سے ہجرت کو ضابطے کے تحت لانے میں پاکستان کی حکومتوں کی نا اہلی نے ملک کی معیشت تباہ کردی، پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کردیا جب کہ پورے معاشرے کو نفرت اور تشدد کے سپرد کردیا ہے۔
پاک افغان سرحد پر قوانین کا نفاذ نہ ہونا، روزانہ کی بنیاد پر پیدل کراس کی اجازت دینا، سرکاری دستاویزات میں آمد و رفت کے اندراج میں غفلت اور کوتاہی، سرحدوں پر کڑی نگرانی کا نظام نہ ہونا، پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔
ہیروئن جیسا خطرناک نشہ ہو یا کلاشنکوف کے ذریعے پاکستان بھر میں پھیلنے والا بدامنی کا وائرس، یہ سارے مسائل افغان مہاجرین کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ کراچی سے لے کر پشاور تک پاکستان کا کون سا شہر ہے جہاں افغان مہاجرین کاروبار نہ کر رہے ہوں۔
یہ لوگ حکومت پاکستان کو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے ہیں لیکن پاکستان کا انفرااسٹرکچر استعمال کررہے ہیں، روڈ، ریلوے کا نیٹ ورک استعمال کررہے ہیں، بجلی ، گیس کے نیٹ ورک کو استعمال کررہے ہیں، تعلیمی اور صحت کے نیٹ ورک کو استعمال کررہے ہیں لیکن بدلے میں کچھ نہیں دے رہے۔
پاکستان کے پالیسی سازوں، سیاستدانوں اور کاروباری طبقے نے افغان مہاجرین کی کاروباری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی کوشش کی نہ ہی انھیں یہاں سے دولت کما کر ڈالروں کی صورت افغانستان منتقل کرنے میں رکاوٹ بنے، بلکہ 5 اگست 2021 کو امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اورکابل پر افغان طالبان کے قبضہ کے بعد امریکا کی طرف سے تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔
پاکستان کے عوام مطمئن تھے کہ پاکستان کی طویل قربانیوں کا ادراک رکھنے والی افغان عبوری حکومت ان دہشت گرد عناصر کے خلاف بھر پورکارروائی عمل میں لائے گی جو پاکستان میں خودکش دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔
پاکستانیوں کی ان تمام امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے 2022 کا آغاز ہوتے ہی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اپنی سرحد ی پٹی سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے افغان عبوری حکومت نے پاکستان پر ٹی ٹی پی سے مذاکرات پرزور دیا۔ پاکستان نے اس پر بھی کھلے دل کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات بھی کیے لیکن ان کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ٹی ٹی پی نے زیادہ شدت کے ساتھ سیکیورٹی اداروں پر حملے شروع کر دیے۔
پاک افغانستان سرحد پر پناہ گزینوں کے انتظامات اور سلامتی سے جڑے خدشات، پاک امریکا تعلقات میں باہمی اتفاق کے اہم شعبے ہیں۔ پاکستان کو یو این ایچ سی آر سے موصول ہونے والی امداد میں امریکا سب سے زیادہ عطیات مہیا کرتا ہے جو افغانستان سے اس کے انخلاء کے باوجود بھی خطے میں اس کی دلچسپی کا عکاس ہے۔ افغانستان کی حکومت کی بیڈ گورننس، سخت گیر پالیسی اور غلط فیصلوں نے اس حکومت کو عالمی تنہائی سے دوچار کررکھا ہے۔
پاکستان کی پناہ گزین پالیسی کو معیاری بنانے کے لیے قانون سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سابق فاٹا میں داخلی و اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی سطح پر اہلیت، پروفیشنل ازم، ذہانت اور عزم کی مضبوطی کو بھی بہتر بنایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔
ایک جامع پناہ گزین پالیسی اور بے قاعدہ مہاجرت کو ضابطے کے تحت لانے کے لیے آمدورفت کے لائحہ عمل کی تشکیل، پناہ گزینوں کے لیے ضروری امداد اور دستاویزی کارروائی کے شعبوں میں امریکا، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے اور اس طرح آنے والے وقت میں سرحد پر شورش کے خطرات میں کمی اور مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
چیف کمشنر برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے لیے ملنے والا پیسہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے، یہ پاکستانی خزانے میں نہیں جاتا۔ پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود چالیس سال افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی اور اس کوشش میں اپنا بھی نقصان کیا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے عالمی قوتوں پر زور دینے والا پاکستان اگر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے دہشت گردوں کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے بجائے افغان عبوری حکومت سے بات کی جائے اور ان پر واضح کر دیا جائے کہ '' بس بہت ہوگیا '' پاکستان افغانستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے اپنے معصوم و بے گناہ شہریوں کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگا سکتا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے جون 2023تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کی کل تعداد میں سے صرف تیرہ لاکھ تیس ہزار رجسٹرڈ ہیں جب کہ سات لاکھ پچھتر ہزار بغیر اندراج کے رہائش پذیر ہیں۔ اب تک چھ لاکھ نئے افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تاہم جب افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کی اپیل پر سوویت یونین کی فوج افغانستان میں داخل ہوئی تو اس کے بعد مہاجرین کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔
افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کا خاتمہ ہوا تو مجاہدین کی تنظیمیں آپس میں برسرپیکار ہوگئیں ، یوں افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہوا، اس دوران بھی افغانستان کے لاکھوں شہریوں نے جان بچانے کے لیے پاکستان کا رخ کیا۔
1994 میں طالبان کا ظہور ہوتا ہے، پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس حکومت کو تسلیم کیا لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے اس کا الزام القاعدہ کے سربراہ پر لگایا جو اس وقت افغانستان کی طالبان حکومت کی پناہ میں تھا۔
امریکا نے وارننگ دی کہ اگر طالبان حکومت نے القاعدہ کے سربراہ کو امریکا کے حوالے نہ کیا تو اس پر حملہ کردیا جائے گا، لیکن طالبان حکومت نے انکار کردیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا اور پاکستان کو جن بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر پناہ فراہم کی لیکن پاکستان کی کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی، سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہداف طے نہ کیے۔
یو این ایچ سی آر اور یو ایس ایڈ کے ہمراہ شراکت داری کے باوجود بھی پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے بارے میں قومی سطح پر ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو بین الاقوامی قوانین اور مقامی حکومتی ضروریات کو مد نظر رکھتی ہو۔
پاکستان قومی سطح پر پناہ گزین قانون کی غیر موجودگی کی وجہ سے پناہ گزینوں کی حیثیت کا تعین کرنے اور ان کی وطن واپسی کے لیے یو این ایچ سی آرکا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کی نااہلی، کم فہمی اور مفاد پرستی کا نتیجہ آج ایک عفریت بن کر سامنے کھڑا ہے۔
افغانستان سے پاکستان میں جو پناہ گزین آئے ہیں اور جو آرہے ہیں، ان میں تاجک بھی ہیں، ہزارہ منگول بھی ہیں، ازبک بھی ہیں ، وسط ایشیائی ریاستوں کے باشندے بھی ہیں ، شمالی افریقہ کے لوگ بھی ہیں ، یہ سب لوگ افغانستان کے باشندے بن کر پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔
یہ لوگ بتدریج اپنے لیے مقررہ کیمپوں سے باہر نکلتے رہے ، پاکستان میں ادارہ جاتی کرپشن اورمقامی عمائدین اور سیاسی کارکنوں کی موقع پرستی ، پیسے کا لالچ پناہ گزینوں کے کام آیا اورافغان مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بنانے میں کامیاب ہوگئے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان ان کے لانچنگ پیڈ بن گیا۔
پاکستان میں لاکھوں افراد کی آمد کے بعد سماجی و معاشی مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا، ملک میں ہتھیاروں اور منشیات کی بھرمار ہوئی، قتل، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا، اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوگیاجو اب تک جاری ہے۔
سیاسی رہنماؤں نے متشدد گروہوں، ہتھیاروں، باغیوں اور بنیاد پرست نظریات کی سرحد پار سے آمد پر اپنے خدشات ظاہرکیے ہیں۔ افغانستان سے ہجرت کو ضابطے کے تحت لانے میں پاکستان کی حکومتوں کی نا اہلی نے ملک کی معیشت تباہ کردی، پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کردیا جب کہ پورے معاشرے کو نفرت اور تشدد کے سپرد کردیا ہے۔
پاک افغان سرحد پر قوانین کا نفاذ نہ ہونا، روزانہ کی بنیاد پر پیدل کراس کی اجازت دینا، سرکاری دستاویزات میں آمد و رفت کے اندراج میں غفلت اور کوتاہی، سرحدوں پر کڑی نگرانی کا نظام نہ ہونا، پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔
ہیروئن جیسا خطرناک نشہ ہو یا کلاشنکوف کے ذریعے پاکستان بھر میں پھیلنے والا بدامنی کا وائرس، یہ سارے مسائل افغان مہاجرین کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ کراچی سے لے کر پشاور تک پاکستان کا کون سا شہر ہے جہاں افغان مہاجرین کاروبار نہ کر رہے ہوں۔
یہ لوگ حکومت پاکستان کو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے ہیں لیکن پاکستان کا انفرااسٹرکچر استعمال کررہے ہیں، روڈ، ریلوے کا نیٹ ورک استعمال کررہے ہیں، بجلی ، گیس کے نیٹ ورک کو استعمال کررہے ہیں، تعلیمی اور صحت کے نیٹ ورک کو استعمال کررہے ہیں لیکن بدلے میں کچھ نہیں دے رہے۔
پاکستان کے پالیسی سازوں، سیاستدانوں اور کاروباری طبقے نے افغان مہاجرین کی کاروباری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی کوشش کی نہ ہی انھیں یہاں سے دولت کما کر ڈالروں کی صورت افغانستان منتقل کرنے میں رکاوٹ بنے، بلکہ 5 اگست 2021 کو امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اورکابل پر افغان طالبان کے قبضہ کے بعد امریکا کی طرف سے تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔
پاکستان کے عوام مطمئن تھے کہ پاکستان کی طویل قربانیوں کا ادراک رکھنے والی افغان عبوری حکومت ان دہشت گرد عناصر کے خلاف بھر پورکارروائی عمل میں لائے گی جو پاکستان میں خودکش دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔
پاکستانیوں کی ان تمام امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے 2022 کا آغاز ہوتے ہی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اپنی سرحد ی پٹی سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے افغان عبوری حکومت نے پاکستان پر ٹی ٹی پی سے مذاکرات پرزور دیا۔ پاکستان نے اس پر بھی کھلے دل کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات بھی کیے لیکن ان کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ٹی ٹی پی نے زیادہ شدت کے ساتھ سیکیورٹی اداروں پر حملے شروع کر دیے۔
پاک افغانستان سرحد پر پناہ گزینوں کے انتظامات اور سلامتی سے جڑے خدشات، پاک امریکا تعلقات میں باہمی اتفاق کے اہم شعبے ہیں۔ پاکستان کو یو این ایچ سی آر سے موصول ہونے والی امداد میں امریکا سب سے زیادہ عطیات مہیا کرتا ہے جو افغانستان سے اس کے انخلاء کے باوجود بھی خطے میں اس کی دلچسپی کا عکاس ہے۔ افغانستان کی حکومت کی بیڈ گورننس، سخت گیر پالیسی اور غلط فیصلوں نے اس حکومت کو عالمی تنہائی سے دوچار کررکھا ہے۔
پاکستان کی پناہ گزین پالیسی کو معیاری بنانے کے لیے قانون سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سابق فاٹا میں داخلی و اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی سطح پر اہلیت، پروفیشنل ازم، ذہانت اور عزم کی مضبوطی کو بھی بہتر بنایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔
ایک جامع پناہ گزین پالیسی اور بے قاعدہ مہاجرت کو ضابطے کے تحت لانے کے لیے آمدورفت کے لائحہ عمل کی تشکیل، پناہ گزینوں کے لیے ضروری امداد اور دستاویزی کارروائی کے شعبوں میں امریکا، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے اور اس طرح آنے والے وقت میں سرحد پر شورش کے خطرات میں کمی اور مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
چیف کمشنر برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے لیے ملنے والا پیسہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے، یہ پاکستانی خزانے میں نہیں جاتا۔ پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود چالیس سال افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی اور اس کوشش میں اپنا بھی نقصان کیا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے عالمی قوتوں پر زور دینے والا پاکستان اگر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے دہشت گردوں کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے بجائے افغان عبوری حکومت سے بات کی جائے اور ان پر واضح کر دیا جائے کہ '' بس بہت ہوگیا '' پاکستان افغانستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے اپنے معصوم و بے گناہ شہریوں کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگا سکتا۔