2018 کا سیاسی تجربہ کیوں ہوا تھا
نواز شریف کی تیسری حکومت کے خلاف سازشیں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے دھرنے سے 2014 میں ہی شروع ہو گئی تھیں
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ جب 2018ء تک ملک ترقی کر رہا تھا، لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی تھی، ڈالر، پٹرول اور بجلی وگیس کی قیمتیں مناسب تھیں، مہنگائی ناقابل برداشت نہیں تھی تو پی ٹی آئی کو غیر حقیقی طور پر اقتدار میں کیوں لایا گیا تھا اور 2022 ء میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے حلقے پوچھ رہے ہیں کہ جب ملک معاشی ترقی کر رہا تھا اور مہنگائی بھی زیادہ نہیں تھی تو رجیم کیوں تبدیل کی گئی؟
1988 سے 1999 کے گیارہ سالوں اور 2008سے 2018کے دس سالوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ باری باری اقتدار میں آتی رہیں اور انھیں مدت پوری کرنے نہیں دی گئی مگر 2002 میں جنرل پرویز مشرف دور کی قومی اسمبلی کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دور کی تین قومی اسمبلیوں نے اپنی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔
2002 سے 2023 کے بیس سالوں میں کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے نہیں دی گئی اور ایک بار جنرل پرویز مشرف نے اور تین بار سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے چاروں قومی اسمبلیوں نے نئے وزیر اعظم منتخب کیے۔
اپریل 2022 میں آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پہلی بار وزیر اعظم کو ہٹایا گیا جب کہ 2008 اور 2013 میں جو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف منتخب ہوئے تھے انھیں چیف جسٹس افتخار چوہدری اور میاں ثاقب نثار نے ہٹوایا جس کے بعد کچھ مدت کے لیے راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور چار قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی تھی۔
2023 کو ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور 2007 میں مسلم لیگ (ق) کی قومی اسمبلی نے مدت مکمل کیں اور توڑی نہیں گئیں جب کہ ان سے قبل 1988سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دو بار حکومتیں قبل از وقت کرپشن کے سنگین الزامات کے برطرف دو سویلین صدور اور ایک جنرل مشرف نے برطرف کی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے (ن) لیگ اور پی پی کی حکومتوں پر کرپشن اور ملک لوٹنے کے الزامات لگائے تھے اور دونوں وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو تیسری بار اقتدار میں نہ آنے دینے کا اعلان کیا تھا۔ 1977 کے بعد 1985 میں جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کی حکومتیں ضرور برطرف کیں مگر دونوں وزرائے اعظم پر کرپشن کے الزامات نہیں لگائے گئے تھے دیگر وجوہات کے باعث دونوں ہٹائے گئے۔
سیاسی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات پر ہٹانے کا سلسلہ 1990 میں شروع ہوا۔ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر اور نواز شریف کی دو حکومتیں اور صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت برطرف کیں۔
1988 میں بے نظیر بھٹو حکومت میں ہی ان کے شوہر آصف زرداری پر سیاسی مخالفین کی جانب سے کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے ۔ وہ کرپشن الزامات میں گرفتار بھی ہوئے اور سب سے زیادہ جیل میں رہے مگر ان پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہ ہوا۔ آصف زرداری پر لندن میں سرے محل بنانے اور سوئٹزرلینڈ میں بھاری رقم جمع کرانے کا الزام تھا۔ جنرل پرویز مشرف بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو کرپٹ قرار دیتے تھے۔
آصف زرداری جنرل پرویز مشرف دور میں ضمانت پر رہا ہو کر باہر چلے گئے تھے جب کہ بے نظیر خود جلاوطن ہوئی تھیں اور میاں نواز شریف پر جہاز کے اغوا کا جھوٹا مقدمہ بنا کر انھیں سزا دلوائی گئی اور پھر بیرونی ضمانت پر نواز شریف اور ان کی فیملی کو ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جانے دیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کو توڑ کر سرکاری طور پر مسلم لیگ (ق) بنوائی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بنائے گئے مگر ان پر بھی محمد خان جونیجو کی طرح کرپشن کا الزام نہیں تھا اور وہ جنرل پرویز مشرف کو اپنا باس قرار دیتے تھے مگر ان کی فرماں برداری بھی جنرل پرویز مشرف کو پسند نہ آئی تو انھیں ہٹا کر ایک غیر سیاسی شوکت عزیز کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا جو ملک سے باہر رہتے تھے اور مدت پوری کرکے باہر چلے گئے مگر بعد کی حکومتوں میں جنرل پرویز مشرف یا شوکت عزیز پر کرپشن کے الزامات میں کیس نہیں بنے تھے۔
میاں نواز شریف دو بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور دو بار 1999 تک وزیر اعظم رہے۔ بے نظیر بھٹو بھی دو بار وزیر اعظم رہیں اور ان کی دونوں حکومتوں میں بے نظیر بھٹو سے زیادہ کرپشن کے الزامات آصف زرداری پر لگے اور 2008 میں آصف زرداری صدر مملکت اور 2013 میں نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنے کا موقعہ ملا۔ شہباز شریف دو بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
نواز شریف کی تیسری حکومت کے خلاف سازشیں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے دھرنے سے 2014 میں ہی شروع ہو گئی تھیں جنھیں پی پی نے ناکام بنانے میں نواز شریف کا ساتھ دیا تھا۔میثاق جمہوریت کے بعد بے نظیر شہید کردی گئی تھیں۔
پی پی کی گیلانی حکومت اور نواز شریف کی تیسری حکومت کسی سویلین صدر نے نہیں سپریم کورٹ نے ختم کرائی تھی اور دونوں کو نااہل کیا گیا تھا۔ گیلانی کو خط نہ لکھنے پر 5 سال اور نواز شریف کو پاناما میں ثبوت نہ ملنے پر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سپریم کورٹ کے ذریعے تاحیات نااہل کرایا گیا تھا۔
2013 ہی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کی کوشش شروع کر دی گئی تھی ۔ چیئرمین پی ٹی آئی 15 سال سے سیاسی طاقت نہیں بن سکے تھے انھیں ایماندار سمجھ کر پی پی اور (ن) لیگ کی باریاں ختم کرانے کے لیے کچھ قوتوں نے ان پر ہاتھ رکھا، 2011 میں ان کے بڑے جلسے کے بعد انھیں اقتدار میں لانے کی کوشش شروع ہوگئی تھی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے انھیں صادق و امین قرار دیا اور 2018 میں آرٹی ایس بٹھا کر انھیں وزیر اعظم بنوایا گیا جن کی سیاست ہی زرداری اور شریف فیملی کی مبینہ کرپشن پر تھی اور وہ دونوں کو چور ڈاکو قرار دیتے تھے مگر چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں عدلیہ کی سرپرستی کے باوجود دونوں کو کرپشن پر سزا نہ دلائی جا سکی۔ کچھ لوگ (ن) لیگ اور پی پی حکومتوں کے ذمے داروں کو اب بھی کرپشن سے پاک قرار نہیں دیتے ہیں اور یہ لوگ اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات میں اپنی بے گناہی کے ثبوت دے سکے نہ ہی الزامات لگانے والوں پر عدالتوں سے حکم امتناعی لے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ دونوں ہی حکومتوں میں کرپشن، من مانیاں، غیر قانونی فیصلے، اقربا پروری تھی جس کے خاتمے کے لیے نئی قیادت لانے کا تجربہ کیا گیا جس کے ذمے دار بالاتر ہی نہیں دونوں پارٹیوں کے متنازع حکمران خود بھی تھے۔
1988 سے 1999 کے گیارہ سالوں اور 2008سے 2018کے دس سالوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ باری باری اقتدار میں آتی رہیں اور انھیں مدت پوری کرنے نہیں دی گئی مگر 2002 میں جنرل پرویز مشرف دور کی قومی اسمبلی کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دور کی تین قومی اسمبلیوں نے اپنی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔
2002 سے 2023 کے بیس سالوں میں کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے نہیں دی گئی اور ایک بار جنرل پرویز مشرف نے اور تین بار سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے چاروں قومی اسمبلیوں نے نئے وزیر اعظم منتخب کیے۔
اپریل 2022 میں آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پہلی بار وزیر اعظم کو ہٹایا گیا جب کہ 2008 اور 2013 میں جو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف منتخب ہوئے تھے انھیں چیف جسٹس افتخار چوہدری اور میاں ثاقب نثار نے ہٹوایا جس کے بعد کچھ مدت کے لیے راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور چار قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی تھی۔
2023 کو ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور 2007 میں مسلم لیگ (ق) کی قومی اسمبلی نے مدت مکمل کیں اور توڑی نہیں گئیں جب کہ ان سے قبل 1988سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دو بار حکومتیں قبل از وقت کرپشن کے سنگین الزامات کے برطرف دو سویلین صدور اور ایک جنرل مشرف نے برطرف کی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے (ن) لیگ اور پی پی کی حکومتوں پر کرپشن اور ملک لوٹنے کے الزامات لگائے تھے اور دونوں وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو تیسری بار اقتدار میں نہ آنے دینے کا اعلان کیا تھا۔ 1977 کے بعد 1985 میں جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کی حکومتیں ضرور برطرف کیں مگر دونوں وزرائے اعظم پر کرپشن کے الزامات نہیں لگائے گئے تھے دیگر وجوہات کے باعث دونوں ہٹائے گئے۔
سیاسی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات پر ہٹانے کا سلسلہ 1990 میں شروع ہوا۔ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر اور نواز شریف کی دو حکومتیں اور صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت برطرف کیں۔
1988 میں بے نظیر بھٹو حکومت میں ہی ان کے شوہر آصف زرداری پر سیاسی مخالفین کی جانب سے کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے ۔ وہ کرپشن الزامات میں گرفتار بھی ہوئے اور سب سے زیادہ جیل میں رہے مگر ان پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہ ہوا۔ آصف زرداری پر لندن میں سرے محل بنانے اور سوئٹزرلینڈ میں بھاری رقم جمع کرانے کا الزام تھا۔ جنرل پرویز مشرف بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو کرپٹ قرار دیتے تھے۔
آصف زرداری جنرل پرویز مشرف دور میں ضمانت پر رہا ہو کر باہر چلے گئے تھے جب کہ بے نظیر خود جلاوطن ہوئی تھیں اور میاں نواز شریف پر جہاز کے اغوا کا جھوٹا مقدمہ بنا کر انھیں سزا دلوائی گئی اور پھر بیرونی ضمانت پر نواز شریف اور ان کی فیملی کو ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جانے دیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کو توڑ کر سرکاری طور پر مسلم لیگ (ق) بنوائی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بنائے گئے مگر ان پر بھی محمد خان جونیجو کی طرح کرپشن کا الزام نہیں تھا اور وہ جنرل پرویز مشرف کو اپنا باس قرار دیتے تھے مگر ان کی فرماں برداری بھی جنرل پرویز مشرف کو پسند نہ آئی تو انھیں ہٹا کر ایک غیر سیاسی شوکت عزیز کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا جو ملک سے باہر رہتے تھے اور مدت پوری کرکے باہر چلے گئے مگر بعد کی حکومتوں میں جنرل پرویز مشرف یا شوکت عزیز پر کرپشن کے الزامات میں کیس نہیں بنے تھے۔
میاں نواز شریف دو بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور دو بار 1999 تک وزیر اعظم رہے۔ بے نظیر بھٹو بھی دو بار وزیر اعظم رہیں اور ان کی دونوں حکومتوں میں بے نظیر بھٹو سے زیادہ کرپشن کے الزامات آصف زرداری پر لگے اور 2008 میں آصف زرداری صدر مملکت اور 2013 میں نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنے کا موقعہ ملا۔ شہباز شریف دو بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
نواز شریف کی تیسری حکومت کے خلاف سازشیں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے دھرنے سے 2014 میں ہی شروع ہو گئی تھیں جنھیں پی پی نے ناکام بنانے میں نواز شریف کا ساتھ دیا تھا۔میثاق جمہوریت کے بعد بے نظیر شہید کردی گئی تھیں۔
پی پی کی گیلانی حکومت اور نواز شریف کی تیسری حکومت کسی سویلین صدر نے نہیں سپریم کورٹ نے ختم کرائی تھی اور دونوں کو نااہل کیا گیا تھا۔ گیلانی کو خط نہ لکھنے پر 5 سال اور نواز شریف کو پاناما میں ثبوت نہ ملنے پر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سپریم کورٹ کے ذریعے تاحیات نااہل کرایا گیا تھا۔
2013 ہی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کی کوشش شروع کر دی گئی تھی ۔ چیئرمین پی ٹی آئی 15 سال سے سیاسی طاقت نہیں بن سکے تھے انھیں ایماندار سمجھ کر پی پی اور (ن) لیگ کی باریاں ختم کرانے کے لیے کچھ قوتوں نے ان پر ہاتھ رکھا، 2011 میں ان کے بڑے جلسے کے بعد انھیں اقتدار میں لانے کی کوشش شروع ہوگئی تھی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے انھیں صادق و امین قرار دیا اور 2018 میں آرٹی ایس بٹھا کر انھیں وزیر اعظم بنوایا گیا جن کی سیاست ہی زرداری اور شریف فیملی کی مبینہ کرپشن پر تھی اور وہ دونوں کو چور ڈاکو قرار دیتے تھے مگر چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں عدلیہ کی سرپرستی کے باوجود دونوں کو کرپشن پر سزا نہ دلائی جا سکی۔ کچھ لوگ (ن) لیگ اور پی پی حکومتوں کے ذمے داروں کو اب بھی کرپشن سے پاک قرار نہیں دیتے ہیں اور یہ لوگ اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات میں اپنی بے گناہی کے ثبوت دے سکے نہ ہی الزامات لگانے والوں پر عدالتوں سے حکم امتناعی لے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ دونوں ہی حکومتوں میں کرپشن، من مانیاں، غیر قانونی فیصلے، اقربا پروری تھی جس کے خاتمے کے لیے نئی قیادت لانے کا تجربہ کیا گیا جس کے ذمے دار بالاتر ہی نہیں دونوں پارٹیوں کے متنازع حکمران خود بھی تھے۔