نواز شریف کی واپسی ممکن ہوسکے گی
نواز شریف کو اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ایک مضبوط بیانیہ درکار ہے
نواز شریف کی سیاسی واپسی کے تین مناظر ہیں۔ اول، وہ واقعی 21اکتوبر کو پاکستان آرہے ہیں اور یہاں بغیر کسی ڈر اور خوف کے سیاسی طور پر آزادانہ بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
دوئم، کیا نواز شریف کی واپسی کسی سیاسی ڈیل کا نتیجہ ہے اور وہ کچھ نئی گارنٹی کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آرہے ہیں ۔
سوئم، کیا نواز شریف کی واپسی ان کی بھی اور ان کی جماعت کی بھی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کرے گی اور اس کا نتیجہ ہمیں انتخابی عمل میں کسی بڑی کامیابی کی صورت میں ملے گا۔
نواز شریف حقیقی طور پر ایک بڑے سیاسی راہنما ہیں اور یقینی طور پر ان کا اپنا ووٹ بینک بھی موجود ہے ۔لیکن سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے کیونکہ جب سیاست میں کوئی بھی قیادت خلا پیدا کرتی ہے اور خود وہ سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے کسی بھی مصلحت کے تحت باہر بیٹھ جاتا ہے تو اس کا اسے سیاسی طور پر نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے نواز شریف کی واپسی ان کے سیاسی مخالفین سے زیادہ خود ان کے لیے بھی ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگی ۔
پاکستان کی سیاست کے جو رموز یا طور طریقوں کو سمجھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہاں سیاسی قوتوں کے مقابلے میں دیگر غیر سیاسی قوتوں کو کئی معاملات میں برتری حاصل ہے۔
اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کسی سیاسی تنہائی میں ہو رہی ہے یا یہ ان کا اپنا ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے اور اس میں انھیں نادیدہ قوتوں کی کوئی حمایت حاصل نہیں تو شاید ایسا نہیں ۔ نواز شریف کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مزاحمتی سیاست کا استعارہ ہیں مگر یہ مکمل سچ نہیں ۔ مزاحمت کو انھوں نے مفاہمت کے لیے استعمال کیا اور اس میں ان کا سیاسی کارڈ شہباز شریف ہے اور مزاحمت کو بطور ہتھیار کے ہی استعمال کرتے ہیں ۔
وہ پاکستان سے بیماری کی بنیاد پر ایک معاہدے کے تحت باہر گئے تھے اور ان کی واپسی بھی اسی دائرہ کار میں ہی ہوگی ۔ انواز شریف کو اپنی واپسی کے تناظر میں کئی طرح کے سیاسی ، انتظامی اور قانونی بوجھ کا سامنا ہے ۔ ان کی سیاست کا بنیادی مرکز پنجاب ہی کی سیاست ہے اور یہاں ان کو سیاسی محاذ پر ایک بڑی پانی پت کی جنگ کا سامنا ہے ۔
ان کا سیاسی حریف چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہے اور اس کی مقبولیت بھی ہے ۔چیئرمین پی ٹی آئی کا سیاسی میدان بھی پنجاب ہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کو فتح کیے بغیر اسلام آباد کا اقتدار کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتا ۔ سیاسی محاذ پر ا ن کے سامنے ایک بڑا بوجھ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت ہے اور اس کے نتیجے میں جو بڑی معاشی بدحالی پیدا ہوئی ہے اس نے ان کے ووٹرز سمیت انتخابی امیدواروں کو بھی مایوس کیا ہے ۔
اسی طرح نوجوان ووٹرز کا جھکاو بھی ان کے مقابلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ اسی طرح نواز شریف کے لیے قانونی محاذ پر بھی کوئی مکمل لال کارپٹ موجود نہیں اور جب وہ یہاں آئیں گے تو ان کو قانونی محاذ پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ے گا ۔نیب کے مقدمات کا دوبارہ کھلنے کو بھی اسی تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے ۔
نواز شریف کو اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ایک مضبوط بیانیہ درکار ہے۔ اب وہ اگر اینٹی اسٹیبلیشمنٹ بیانیہ بناتے ہیں تو ان کو اپنی ہی جماعت میں سے ایک بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا ۔کیونکہ مسلم لیگ ن کا مجموعی مزاج مفاہمت کی سیاست اور کچھ لواور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔
مسلم لیگ ن کے اندر ایک بڑا طبقہ نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کے مقابلے میں شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کو پسند کرتا ہے اور اسی بنیاد پر ان کو سولہ ماہ کی حکومت بھی ملی تھی۔ نواز شریف نے حالیہ دنوں میں سابق جرنیلوں اور سابق ججز سمیت مستقبل کے چیف جسٹس کے احتساب کی بات کرکے اپنے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ نواز شریف کو پاکستان واپس آنے میں ابھی بھی کچھ مسائل کا سامنا ہے اور جو ان کو گارنٹی درکار ہے وہ نہیں مل رہی۔ اسی بنیاد پر ان کے حالیہ بیانات کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس بار شہباز شریف نے اپنی جادوئی گورننس اور معاشی جادوگری نہیں دکھاسکے اور معیشت کی بری حالت بھی درد سر بنی ہوئی ہے ۔
اگر بعض سیاسی پنڈتوں کی یہ تھیوری بھی مان لی جائے کہ نواز شریف کی کوئی ڈیل ہوگئی ہے اور وہ ہی ملک کے چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔اگر ایسا ہے تو مزید تنقید کا ماحول بنے گا اور یہ سوچ اجاگر ہوگی کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے وہ کسی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ نواز شریف کی واپسی خود چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے گی ۔
کیونکہ سیاسی حرکیات کے طور پر یہ ممکن نہیںچیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہوں اور ان کو انتخابات میں حصہ لینے کی کوئی اجازت نہ ہو اور نواز شریف تن تنہا سیاسی میدان میں ہوں ۔ اس لیے نواز شریف کی واپسی چیئرمین پی ٹی آئی کی واپسی کو بھی ممکن بنائے گی ۔
البتہ نواز شریف کے لیے سیاسی میدان خالی نہیں ۔ ایک طرف پنجاب کی سطح پر استحکام پاکستان جہانگیر ترین اور دوسری طرف کے پی کے میں نئی جماعت پرویز خٹک کی اور اب پنجاب میں ایک اور نئی مسلم لیگ کی تیاری کا کھیل بھی نواز شریف کے کھیل کو مشکل بنائے گا ۔
نواز شریف کو یہ گلہ ہے کہ ان کی جماعت کو مضبوط بنانے کے بجائے نئی جماعتوں کی تشکیل کیونکر کی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے کیا سیاسی ایجنڈا ہے ۔ کیونکہ یہ لگتا ہے کہ مقصد نواز شریف کو تن تنہا میدان دینا مقصود نہیں بلکہ ان کو ان کی آمد پر ایک حد تک ہی رکھا جائے گا۔
نواز شریف کی واپسی کے امکانات موجود ہیں یا نہیں اگرچہ اس کا اصل فیصلہ تو نواز شریف نے خود کرنا ہے کہ ان کی آمد سیاسی طور پر ان کو اقتدار کے کھیل میںکیا کچھ دے گی ۔کیونکہ اگر ان کو لگتا ہے کہ اس کھیل سے فوری طو رپر اقتدار میں ان کو کچھ نہیں ملے گا تو ایسے میں وہ کیونکر یہاں آکر مزاحمت یا اپنے لیے مشکلات کی سیاست کو پیدا کریں ۔
جو لوگ نواز شریف کی محبت میں ان کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ماضی کے تجربات کو بھی مدنظر رکھیں کہ وہ کب اور کیسے اس ملک کی سیاست اور ریاست کے مسائل میں خود کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرسکے۔ ان کو اقتدار ملا یا ان کو دیا گیا مگر انھوںنے بھی اپنی سیاسی مہم جوئی اور ٹکراؤ کو پیدا کرکے حالات کو درست نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ دیا ۔