’’ لڑکے بھی مظلوم ہیں۔۔۔‘‘
انھیں بھی رشتہ طے کرتے ہوئے ٹھکرائے جانے کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے
اب آپ کہیں گے کہ لڑکے مظلوم ہوتے ہیں تو ہوا کریں، یہ خواتین کے صفحے سے مرد حضرات یا لڑکوں کا کیا تعلق؟ تو جناب تعلق یہ ہے کہ ہم خواتین عموماً ایسا نہیں سمجھتیں اور اکثر ان کے مظلوم ہونے کا دوش بھی ہم خواتین پر کسی نہ کسی صورت آرہا ہوتا ہے۔
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ صرف لڑکیوں ہی کو ہر معاملے میں مظلوم تصور کیا جاتا ہے۔ کبھی لڑکیاں اس بات پر شور بھی کر رہی ہوتی ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں دیا جاتا، کبھی یہ گلہ کہ ان کو لڑکوں جیسی آزادی میسر نہیں، کبھی وہ اس بات پر شاکی رہتی ہیں کہ ان کو شادی کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح جانچا جاتا ہے۔
کبھی رنگ،کبھی قد، کبھی دبلے یا موٹے ہونے کی وجہ سے بے دردی سے مسترد کر دیا جاتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتیں کہ بہ ظاھر مضبوط نظر آنے والے لڑکے بھی تو مسترد کیے جاتے ہیں۔ جی ہاں ! مسترد صرف لڑکیوں ہی کو نہیں کیا جاتا، بلکہ لڑکے بھی 'مسترد' ہوتے ہیں اور وہ بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہیں، ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں، ان میں بھی روح ہوتی ہے۔
ان کے بھی احساسات ہوتے ہیں ، ان کا بھی دل دکھتا اور ٹوٹتا ہے ، لڑکوں کو بھی ان کی سانولی رنگت، کم آمدنی، قد، عمر، نوکری اور کاروبار کی وجہ سے مسترد کیا جاتا ہے، لیکن شور زیادہ لڑکیوں ہی کا زیادہ مچتا ہے کہ ہم کوئی بھیڑ بکریاں ہیں، جو ہماری نمائش کی جاتی رہتی ہے۔ جب جب کسی لڑکے کا رشتہ دیا جاتا ہے، تب تب وہ لڑکا بھی ایک دباؤ اور ٹینشن میں آ جاتا ہے، مختلف قسم کے چونکا دینے والے سوال اس کو حیران اور پریشان کر دیتے ہیں۔
رشتے کے معاملات کرنے والی خواتین جہاں اپنے بیٹے کی حیثیت اور شخصیت دیکھے بغیر بہت اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی خواہاں ہوتی ہیں، بالکل ایسے ہی لڑکوں کو رد کرنے والی بہت سی مائیں اور لڑکی کی بہنیں بھی کچھ ایسے ہی رویے اختیار کرنے لگتی ہیں۔
بالخصوص جب اللہ نے ذرا حُسن دیا ہوا ہو، عمر ابھی کم ہو، پھر روپیے پیسے کی فراوانی ہو تو آپ دیکھیے کیسے توقعات بلندترین ہوتی ہیں۔
یہاں بھی بالکل ایسے ہی کسی آسمان سے اترے شاہ زادے سے کم پر قبولیت نہیں ہوتی۔ بار بار جتایا جاتا ہے کہ ہماری بچی تو اتنی پڑھی لکھی ہے، یا اس میں فلاں فلاں گُن ہیں، ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے اور احساس دلایا جاتا ہے کہ آپ کے لڑکے کی اتنی مالی حیثیت نہیں، یا اس کا رنگ صاف نہیں یا قد چھوٹا ہے وغیرہ وغیرہ۔
'' اتنی جلدی کیا ہے شادی کی ؟'' یہ وہ سوال ہے کہ آدمی سوچتا ہے کہ جب اللّہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نکاح میں دیر مت کرو، تو اس سوال کی کیا تک بنتی ہے۔
اگر لڑکا 30 سال تک شادی نہ کرے، تو وہ کچھ لوگوں کی نظر میں زندگی انجوائے کر رہا ہوتا ہے اگر ایسے میں کوئی لڑکا چاہے کہ بائیس یا تئیس کی عمر میں اس کی شادی کر دی جائے، تاکہ وہ غلط صحبت سے بچا رہے، تو اکثر اس کے والدین ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
کہ پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو یا یہ کہ پہلے بیٹیوں کی شادی ہوگی پھر بیٹوں کی۔ اور اس انتظار میں نہ صرف یہ کہ لڑکے بری لتوں میں پڑ جاتے ہیں، بلکہ وہ رشتہ کراتے وقت پھر اسی طرح مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں جیسا کہ کوئی لڑکی ہوتی ہے۔گھر کے اخراجات پورے کرنا، معاشی کفالت اور خوشی وغمی کے تقاضاے نبھاتے نبھاتے شاید گھر والے ہی بھولنے لگتے ہیں کہ اس بیٹے کا بھی گھر بسنا ہے۔
''ماں باپ کے ساتھ رہو گے؟'' یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپ اپنے لیے کچھ اور، اور داماد کے لیے کچھ اور چاہیے۔ اپنے بیٹے اور بہو کو ہمیشہ ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور ہونے والے داماد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے الگ گھر لے۔ کبھی لڑکوں کی ملازمت یا کاروبار لڑکی والوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ملازمت کرتا ہے تو کاروبار کیوں نہیں کرتے؟ اور کاروبار کرتا ہے تو اتنا پڑھ لکھ کر کوئی اچھی بے فکری کی ملازمت کیوں نہیں کی؟ کبھی لڑکے کا خاندان بڑا لگتا ہے کہ ہماری بیٹی کیسے رہے گی؟ کتنا کام کرنا پڑے گا تو کبھی لڑکے کے اکلوتے ہونے پر اعتراض ہوتا ہے کہ ساری زندگی ہی ساس، سسر کی خدمت میں گزر جائے گی۔
کبھی زیادہ بہنیں سمجھ نہیں آتیں کہ اگر ایک طعنہ ایک بہن نے دیا ، ایک طعنہ ایک بہن نے تو چار یا پانچ طعنے ہو جائیں گے ۔ اور وہ لڑکا جو بڑے اعتماد کے ساتھ شادی کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ بار بار مسترد ہونے کی وجہ سے اپنا اعتماد کھو دیتا ہے۔ اور گھبرا جاتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایسے میں بزرگوں کو بہت سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یوں تو اللّہ تعالیٰ نے جہاں جوڑ لکھا ہے وہاں ہی شادی ہوتی ہے، مگر عجیب وغریب وجوہات جو انکار کا سبب بنتی ہیں ان سے لڑکے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے رشتے کرتے وقت صرف لڑکیوں کا ہی نہیں بلکہ لڑکوں کے دلوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ کیوں کہ مرد تو رو بھی نہیں سکتے۔ اس لیے ان کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
لڑکے ہوں یا لڑکیاں رشتے طے کرنے کا ہمارے ہاں یہ ایک نظام ہے، جسے سلیقے سے کیجیے تو ایک خوب صورت رواج بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اللّہ تعالیٰ نے سب کے جوڑے بنائے ہیں اور ان تک پہنچنے کا یہ ایک باعزت طریقہ ہے کہ گھر بیٹھے آپ لڑکیوں کو دیکھنے آتے ہیں، آپ بہت زیادہ انتظام نہ کیجیے، تھوڑی بہت خاطرمدارت کافی ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے لیے بہت لمبا چوڑا دسترخوان لگایا جائے اور اکثریت کا مقصد دل آزاری یا مسترد کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اکثر ہی سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے کہیں کوئی خامی نہیں ہوتی، مگر کبھی دل نہیں ٹُھکتا۔ عجیب بے چینی اور گھبراہٹ ہوتی ہے اور چاہ کر بھی رشتہ نہیں کر پاتے۔ یہ سب بہانے ہوتے ہیں، بس جب جوڑ مل جائے، تو نہ قد چھوٹا لگتا ہے اور نہ ہی کوئی خامی، خامی لگتی ہے سب کچھ بالکل مناسب لگتا ہے اور اللّہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے جوڑے مل جاتے ہیں۔
ان تمام حقائق کے باوجود ہم یہ نہ کریں کہ بے رخی سے ان معاملات کو دیکھتے رہیں کہ جہاں ہونا ہوگا، خود ہی ہوجائے گا۔ نہیں! اللہ نے آپ کو عقل بھی دی ہے۔ نیک نیتی اور خلوص سے جائزہ لیا کیجیے، بیٹا ہو یا بیٹی، داماد ہو یا بہو، ہر دو صورتوں میں فریقین کے جذبات کا خیال رکھنا ازخد ضروری ہے۔
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ صرف لڑکیوں ہی کو ہر معاملے میں مظلوم تصور کیا جاتا ہے۔ کبھی لڑکیاں اس بات پر شور بھی کر رہی ہوتی ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں دیا جاتا، کبھی یہ گلہ کہ ان کو لڑکوں جیسی آزادی میسر نہیں، کبھی وہ اس بات پر شاکی رہتی ہیں کہ ان کو شادی کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح جانچا جاتا ہے۔
کبھی رنگ،کبھی قد، کبھی دبلے یا موٹے ہونے کی وجہ سے بے دردی سے مسترد کر دیا جاتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتیں کہ بہ ظاھر مضبوط نظر آنے والے لڑکے بھی تو مسترد کیے جاتے ہیں۔ جی ہاں ! مسترد صرف لڑکیوں ہی کو نہیں کیا جاتا، بلکہ لڑکے بھی 'مسترد' ہوتے ہیں اور وہ بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہیں، ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں، ان میں بھی روح ہوتی ہے۔
ان کے بھی احساسات ہوتے ہیں ، ان کا بھی دل دکھتا اور ٹوٹتا ہے ، لڑکوں کو بھی ان کی سانولی رنگت، کم آمدنی، قد، عمر، نوکری اور کاروبار کی وجہ سے مسترد کیا جاتا ہے، لیکن شور زیادہ لڑکیوں ہی کا زیادہ مچتا ہے کہ ہم کوئی بھیڑ بکریاں ہیں، جو ہماری نمائش کی جاتی رہتی ہے۔ جب جب کسی لڑکے کا رشتہ دیا جاتا ہے، تب تب وہ لڑکا بھی ایک دباؤ اور ٹینشن میں آ جاتا ہے، مختلف قسم کے چونکا دینے والے سوال اس کو حیران اور پریشان کر دیتے ہیں۔
رشتے کے معاملات کرنے والی خواتین جہاں اپنے بیٹے کی حیثیت اور شخصیت دیکھے بغیر بہت اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی خواہاں ہوتی ہیں، بالکل ایسے ہی لڑکوں کو رد کرنے والی بہت سی مائیں اور لڑکی کی بہنیں بھی کچھ ایسے ہی رویے اختیار کرنے لگتی ہیں۔
بالخصوص جب اللہ نے ذرا حُسن دیا ہوا ہو، عمر ابھی کم ہو، پھر روپیے پیسے کی فراوانی ہو تو آپ دیکھیے کیسے توقعات بلندترین ہوتی ہیں۔
یہاں بھی بالکل ایسے ہی کسی آسمان سے اترے شاہ زادے سے کم پر قبولیت نہیں ہوتی۔ بار بار جتایا جاتا ہے کہ ہماری بچی تو اتنی پڑھی لکھی ہے، یا اس میں فلاں فلاں گُن ہیں، ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے اور احساس دلایا جاتا ہے کہ آپ کے لڑکے کی اتنی مالی حیثیت نہیں، یا اس کا رنگ صاف نہیں یا قد چھوٹا ہے وغیرہ وغیرہ۔
'' اتنی جلدی کیا ہے شادی کی ؟'' یہ وہ سوال ہے کہ آدمی سوچتا ہے کہ جب اللّہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نکاح میں دیر مت کرو، تو اس سوال کی کیا تک بنتی ہے۔
اگر لڑکا 30 سال تک شادی نہ کرے، تو وہ کچھ لوگوں کی نظر میں زندگی انجوائے کر رہا ہوتا ہے اگر ایسے میں کوئی لڑکا چاہے کہ بائیس یا تئیس کی عمر میں اس کی شادی کر دی جائے، تاکہ وہ غلط صحبت سے بچا رہے، تو اکثر اس کے والدین ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
کہ پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو یا یہ کہ پہلے بیٹیوں کی شادی ہوگی پھر بیٹوں کی۔ اور اس انتظار میں نہ صرف یہ کہ لڑکے بری لتوں میں پڑ جاتے ہیں، بلکہ وہ رشتہ کراتے وقت پھر اسی طرح مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں جیسا کہ کوئی لڑکی ہوتی ہے۔گھر کے اخراجات پورے کرنا، معاشی کفالت اور خوشی وغمی کے تقاضاے نبھاتے نبھاتے شاید گھر والے ہی بھولنے لگتے ہیں کہ اس بیٹے کا بھی گھر بسنا ہے۔
''ماں باپ کے ساتھ رہو گے؟'' یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپ اپنے لیے کچھ اور، اور داماد کے لیے کچھ اور چاہیے۔ اپنے بیٹے اور بہو کو ہمیشہ ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور ہونے والے داماد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے الگ گھر لے۔ کبھی لڑکوں کی ملازمت یا کاروبار لڑکی والوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ملازمت کرتا ہے تو کاروبار کیوں نہیں کرتے؟ اور کاروبار کرتا ہے تو اتنا پڑھ لکھ کر کوئی اچھی بے فکری کی ملازمت کیوں نہیں کی؟ کبھی لڑکے کا خاندان بڑا لگتا ہے کہ ہماری بیٹی کیسے رہے گی؟ کتنا کام کرنا پڑے گا تو کبھی لڑکے کے اکلوتے ہونے پر اعتراض ہوتا ہے کہ ساری زندگی ہی ساس، سسر کی خدمت میں گزر جائے گی۔
کبھی زیادہ بہنیں سمجھ نہیں آتیں کہ اگر ایک طعنہ ایک بہن نے دیا ، ایک طعنہ ایک بہن نے تو چار یا پانچ طعنے ہو جائیں گے ۔ اور وہ لڑکا جو بڑے اعتماد کے ساتھ شادی کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ بار بار مسترد ہونے کی وجہ سے اپنا اعتماد کھو دیتا ہے۔ اور گھبرا جاتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایسے میں بزرگوں کو بہت سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یوں تو اللّہ تعالیٰ نے جہاں جوڑ لکھا ہے وہاں ہی شادی ہوتی ہے، مگر عجیب وغریب وجوہات جو انکار کا سبب بنتی ہیں ان سے لڑکے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے رشتے کرتے وقت صرف لڑکیوں کا ہی نہیں بلکہ لڑکوں کے دلوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ کیوں کہ مرد تو رو بھی نہیں سکتے۔ اس لیے ان کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
لڑکے ہوں یا لڑکیاں رشتے طے کرنے کا ہمارے ہاں یہ ایک نظام ہے، جسے سلیقے سے کیجیے تو ایک خوب صورت رواج بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اللّہ تعالیٰ نے سب کے جوڑے بنائے ہیں اور ان تک پہنچنے کا یہ ایک باعزت طریقہ ہے کہ گھر بیٹھے آپ لڑکیوں کو دیکھنے آتے ہیں، آپ بہت زیادہ انتظام نہ کیجیے، تھوڑی بہت خاطرمدارت کافی ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے لیے بہت لمبا چوڑا دسترخوان لگایا جائے اور اکثریت کا مقصد دل آزاری یا مسترد کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اکثر ہی سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے کہیں کوئی خامی نہیں ہوتی، مگر کبھی دل نہیں ٹُھکتا۔ عجیب بے چینی اور گھبراہٹ ہوتی ہے اور چاہ کر بھی رشتہ نہیں کر پاتے۔ یہ سب بہانے ہوتے ہیں، بس جب جوڑ مل جائے، تو نہ قد چھوٹا لگتا ہے اور نہ ہی کوئی خامی، خامی لگتی ہے سب کچھ بالکل مناسب لگتا ہے اور اللّہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے جوڑے مل جاتے ہیں۔
ان تمام حقائق کے باوجود ہم یہ نہ کریں کہ بے رخی سے ان معاملات کو دیکھتے رہیں کہ جہاں ہونا ہوگا، خود ہی ہوجائے گا۔ نہیں! اللہ نے آپ کو عقل بھی دی ہے۔ نیک نیتی اور خلوص سے جائزہ لیا کیجیے، بیٹا ہو یا بیٹی، داماد ہو یا بہو، ہر دو صورتوں میں فریقین کے جذبات کا خیال رکھنا ازخد ضروری ہے۔