چائلڈ پرو ٹیکشن قوانین میں ابہام اور گھریلو ملازمین پر تشدد

بچوں کو گھریلو ملازمتوں کےلیے رکھنا جرم ہے

پاکستانی قوانین میں کم عمر بچوں کی ملازمت کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلام میں والدین پر بچوں کے حقوق کے بارے میں تاکید کی گئی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بچوں کے حقوق ادا کرنے کے بجائے والدین معاشی حالات کے باعث بچوں سے کم عمری میں ہی مزدوری کروانا شروع کردیتے ہیں۔


مغربی ممالک بچوں کو اسکول داخل ہونے سے قبل اور پھر تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی الاﺅنس دیتے ہیں تاکہ صحت مند، مہذب اور تعلیم یافتہ قوم پیدا ہو۔ ان ہی اقدامات کی وجہ سے مغربی ممالک نے ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر قوم بھی پیدا کی ہے۔ دوسری جانب ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے گھرانوں میں ذریعہ معاش ہمیشہ سے ہی بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر گھرانے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلانے کے بجائے انہیں روزگار کمانے میں لگادیتے ہیں جس کی وجہ سے ان بچوں کو تعلیم نہ ہونے کے باعث معاشرے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


پاکستان میں کم عمر بچوں سے مزدوری کروانا اور کم عمر گھریلو ملازمین پر تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر متعدد این جی اوز اور دیگر ادارے کام کررہے ہیں لیکن عملی طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کےلیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہورہے۔


اسلام آباد میں سول جج کی اہلیہ کی طرف سے گھریلو ملازمہ پر بدترین تشدد کا واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد ملک کے تمام قوانین بھی حرکت میں آگئے ہیں اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی میدان میں آچکی ہیں۔ گھریلو ملازمین پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی درجنوں ایسے واقعات ہوئے جن میں گھریلو ملازمین کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی ملازمین کی تو تشدد سے موت بھی واقع ہوگئی۔ ان واقعات میں تشدد کا نشانہ بننے والے زیادہ تر گھریلو ملازمین کمسن بچے ہیں اور ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ 2017 میں بھی اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف کمسن ملازمہ پر گھریلو تشدد کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔


دو سال پہلے آئی سی ٹی ڈومیسٹک ورکرز بل 2021 پاس کیا گیا تھا جس میں گھریلو ملازمین کو ریگولرائز کرنے اور بچوں کی گھریلو ملازمت کے حوالے سے تفصیلات درج تھیں۔ تاہم قانون بن تو گیا لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے وزارت انسانی حقوق نے گمشدہ یا مغوی بچوں کا سراغ لگانے کےلیے زینب الرٹ سٹیزنز پورٹل کا اجرا کیا، جس کا کام مقامی عہدیداروں کو واقعے سے آگاہ کرکے متعلقہ ریجنل اور ضلعی سطح پر ریاستی مشینری کو متحرک کرکے بچے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ حکومت نے 28 فروری 2020 کو نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ ایکٹ 2017 کے سیکشن 3(1) کے تحت اختیارات کے استعمال کےلیے بچوں کے حقوق پر قومی کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن کے پاس بین الاقوامی ذمے داریوں کے مطابق اور نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ ایکٹ 2017 میں بچوں کے حقوق کے فروغ، تحفظ اور تکمیل سے متعلق امور کےلیے ایک بڑا مینڈیٹ ہے۔



ماہرقانون بیرسٹر حسن رشید صدیقی نے کہا کہ نہ صرف بچوں کو گھریلو ملازمتوں کےلیے رکھنا جرم ہے بلکہ حقائق چھپانا بھی جرم ہے۔ لڑکی کو مبینہ طور پر جج کے گھر میں حراست میں رکھا گیا، اس پر تشدد کیا گیا لیکن جج نے اسے ریسکیو کرنے یا اپنی بیوی کے تشدد سے بچانے کےلیے کچھ نہیں کیا، جو کہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ ملکی قانون کے تحت بچوں کے ساتھ تشدد، برا سلوک، ان کے بنیادی حقوق نظرانداز کرنے یا انھیں جسمانی یا ذہنی طور پر نقصان پہنچانے کی صورت میں کم سے کم ایک سال جبکہ زیادہ سے زیادہ تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے، جبکہ اس ضمن میں 25 سے 50 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد کرنا اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو ملازمتوں پر رکھنا پاکستان میں ایک غیر رسمی شعبہ ہے۔


بیرسٹر حسن رشید صدیقی نے مزید بتایا کہ گھریلو ملازمین کے حوالے سے قوانین 18 برس سے زیادہ عمر کےلیے ریگولرائز کرنا مشکل ہے تو پھر بچوں کےلیے تو یہ اور بھی مشکل ہے۔ پاکستان کے کچھ قوانین میں تو 18 سال سے کم عمر بچے کو جووینائل قرار دیا جاتا ہے تاہم پاکستان کے لیبر قوانین اس بارے میں ابہام کا باعث بنتے ہیں۔ اس وجہ سے گھریلو ملازمت یا بچوں سے مزدوری کروانے کے حوالے سے اکثر اوقات گنجائش نکل آتی ہے۔ اگر موجودہ قوانین کا جائزہ لیا جائے تو خیبرپختونخوا کے قوانین کے مطابق کم سے کم عمر جس پر ایک بچے کو ملازمت دی جاسکتی ہے وہ 12 سال سے زیادہ ہے اور پنجاب میں یہ عمر 15 سال سے زیادہ ہے۔ کچھ قوانین کے تحت 14 سال سے زیادہ عمر کے بچے کو کام پر لگایا جاسکتا ہے۔ جب تک پاکستان کے لیبر قوانین میں بچے کی تعریف یکساں نہیں ہوگی تو انھیں کام پر رکھنے کی گنجائش نکالی جاتی رہے گی۔ بلوچستان نے اپنے 2016 کے چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ میں بچے کی تعریف 18 سال سے کم عمر کے طور پر کی ہے۔


پاکستان کے قوانین میں گھریلو ملازمت کے حوالے سے بہت ابہام بھی پایا جاتا ہے اور اس ضمن میں موجود قوانین میں متعدد مسائل موجود ہیں۔ کچھ لیبر قوانین میں کمسن بچوں سے خطرناک نوعیت کے کام کروانے کی تو ممانعت ہے لیکن اس کے علاوہ کاموں کی نوعیت کے حوالے سے قانون خاموش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمسن بچوں کو گھریلو ملازمت پر رکھنے کے حوالے سے گنجائش نکل آتی ہے۔


اسلام آباد کے ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 میں گھریلو کام کو بھی خطرناک نوعیت کا کام قرار دیا گیا تھا، تاہم باقی صوبوں میں فی الحال ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 بھی موجود ہے جس میں 15 سال سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازمت پر رکھنے کی ممانعت ہے۔ تاہم اس قانون میں بھی ایک گنجائش موجود ہے، جب اس میں 18 سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازمت میں لائٹ ورک کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لائٹ ورک وہ گھریلو کام ہے جو پارٹ ٹائم نوعیت کا ہوتا ہے اور اس سے صحت کو نقصان، جان کا خطرہ اور پڑھائی متاثر نہیں ہوتی۔ خیبرپختونخوا میں بھی 14 سال سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازمت یا زبردستی کام کرنے پر پابندی ہے، اس پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہ شعبہ ریگولرائز نہیں اور مکمل طور پر انفارمل ہے۔


2018 میں سندھ میں گھریلو ملازمین کے تحفظ کے حوالے سے قانون پاس ہوا تھا جس میں بچے کی تعریف 14 برس اور اس سے کم بتائی گئی ہے اور بل کا مقصد بچوں کی گھریلو کام میں شرکت کی حوصلہ شکنی کرنا بتایا گیا تھا۔ سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی گھریلو ملازمت کےلیے بچے کی کم سے کم قانونی عمر 14 سال سے زیادہ ہے۔ اس طرح کے واقعات باضمیر معاشروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس واقعے کو مثال بناتے ہوئے ذمے داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے یا پھر یہ طاقتور طبقہ بچی کے والدین کو دباﺅ میں لاکر صلح پر مجبور کرلیتا ہے۔ رضوانہ تشدد کیس جہاں ریاست کےلیے امتحان ہے وہیں بااثر طبقے کے منہ پر ایک طمانچہ بھی ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story