نگران حکومت نے ملکی معیشت کی بحالی کیلیے منصوبہ تیار کرلیا
بڑے اور مقتدر حلقوں پر ٹیکسوں میں اضافہ، اخراجات میں کمی ،نجکاری پر توجہ دی جائیگی
نگران حکومت نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے منصوبہ تیار کرلیاہے جس کے تحت بڑے اور مقتدر حلقوں پر ٹیکسوں میں اضافہ، اخراجات میں کمی اور توانائی کے شعبے میں بے انتظامی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نج کاری پر بھی توجہ دی جائے گی۔
ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے تیار کیے گئے منصوبے کے مطابق مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد مساوی اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی جو 3 ہزار 200ارب روپے کے حجم کے برابرہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ معیشت بحالی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے 13سو ارب روپے کے مساوی دی گئی ٹیکس مراعات کو ختم کیا جائے گا اور اخراجات میں بچت کے زمرے میں 1900 ارب روپے مرکزی بینک کے اکائونٹ میں جمع کرائی جائے گی۔ اس کے علاوہ نگراں حکومت کی جانب سے قابل انتقال اثاثہ جات پر دولت ٹیکش عائد کیے جانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
درمیانی مدت کے لیے وفاقی ادارہ برائے محصولات (ایف بی آر) کا ہدف ہے کہ ٹیکس محصولات کو دو سال کے دوران بڑھا کر 13ہزار ارب کی سطح پر لے جایا جائے اور 2025 کے مالی سال کے اختتام تک محصولات کے حجم کو مجموعی قومی پیداوار کے 15 فیصد تک لایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستانی معیشت کا مشکل دور گزر گیا؟
نگراں حکومت کی تجویز کے مطابق آئندہ دو برسوں کے دوران 5ہزار 600 ارب روپے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہوں گے اور تخمینہ ہے کہ سیلز ٹیکس کی مد میں 3 ہزار ارب روپے، انکم ٹیکس کی مد میں 1800ارب روپے اور کسٹم اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں مزید 800 ارب روپے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے معاشی بحالی کا یہ منصوبہ کابینہ کمیٹی برائے معاش بحالی کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جسے کمیٹی نے منظور کرلیا اور اب سے سینت کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کرنے کے علاوہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو بھی پیش کیا جائے گا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی نے زرعی شعبے پر مزید ٹیکس اور ایف بی آر کے جانب سے قابل انتقال اثاثہ جات پر ویلتھ ٹیکس کے نفاذ کی بھی تجویز پیش کی گئی۔
واضح رہے کہ ان تمام ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے عالمی بینک پہلے بھی زور دیتا رہا ہے، تاہم آئینی مشکلات کے باعث نگراں حکومت صرف قابل انتقال اثاثہ جات پر بھی ٹیکس نفاذ کرسکتی ہے۔ کابینہ کمیٹی نے حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کے علاوہ سبسڈی اور صوبوں کو دی جانے والی زر اعانت میں کٹوتی کی تجویز کی بھی حمایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن سے پاکستانی معیشت سنبھل سکتی ہے، مہنگائی 25 فیصد ہوجائے گی، اے ڈی بی
ذرائع کے مطابق حکومتی آمدنی میں 460 ارب روپے کا متوقع اضافہ نج کاری کی صورت میں ممکن ہوگا اگر نقصان میں چلنے والے 14 سرکاری اداروں کی فوری طور پر نج کاری کردی جائے، اس کے علاوہ بے مصرف وزارتوں کے خاتمے کے نتیجے میں مزید 330 ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔
نگراں حکومت کی تجویز کے مطابق حکومتی اخرات میں دس فیصد تک کٹوتی کی جائے گی۔معاشی بحالی منصوبے میں پیش کردہ تجاویز کے مطابق سرکاری ترقیاتی پروگرام میں بھی کٹوتی کی جائے گی جس کا حجم اس وقت 950 ارب روپے ہے، تاہم اس ترقیاتی رقم میں کتنی کٹوتی ہوگی اس حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
وزارت خزانی کی تجویز ہے ہے اس میں 315 ارب روپے کی کٹوتی کی جائے تاہم نگراں وزیر اعظم کی رائے تھی کہ اس کے نتیجے میں معاشی ترقی پر اثر پڑے گا جو اس وقت عالمی بینک کے مطابق پہلے ہی دو فیصد سے بھی کم کی سطح پر ہے۔ معاشی بحالی منصوبے میں اس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ عالمی مالیاتی فنڈز کے معاہدے کے تحت تمام شرائط پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق کابینہ کمیٹی نے برآمدکنندگان کو کم قیمت پر بجلی فراہمی کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا نہ ہی مقامی صارفین کے مقابلے میں صنعتی صارفین کو ترجیح دینے کی تجویز کی حمایت کی۔
کمیٹی اجلاس میں یہ تجویز بھی زیر غور آئے کہ سامان کی ترسیل پر چارجز میں کمی کی جائے، بندرگاہ کی توسیع کا منصوبہ تیار کیا جائے اور ماہی گیری کے شعبے کو ترقی دی جائے۔ کابینہ کی کمیٹی برائے معاشی بحالی نے نجی بجلی کمپنیوں سے کیے گئے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کی بھی منظوری دی۔
ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے تیار کیے گئے منصوبے کے مطابق مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد مساوی اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی جو 3 ہزار 200ارب روپے کے حجم کے برابرہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ معیشت بحالی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے 13سو ارب روپے کے مساوی دی گئی ٹیکس مراعات کو ختم کیا جائے گا اور اخراجات میں بچت کے زمرے میں 1900 ارب روپے مرکزی بینک کے اکائونٹ میں جمع کرائی جائے گی۔ اس کے علاوہ نگراں حکومت کی جانب سے قابل انتقال اثاثہ جات پر دولت ٹیکش عائد کیے جانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
درمیانی مدت کے لیے وفاقی ادارہ برائے محصولات (ایف بی آر) کا ہدف ہے کہ ٹیکس محصولات کو دو سال کے دوران بڑھا کر 13ہزار ارب کی سطح پر لے جایا جائے اور 2025 کے مالی سال کے اختتام تک محصولات کے حجم کو مجموعی قومی پیداوار کے 15 فیصد تک لایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستانی معیشت کا مشکل دور گزر گیا؟
نگراں حکومت کی تجویز کے مطابق آئندہ دو برسوں کے دوران 5ہزار 600 ارب روپے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہوں گے اور تخمینہ ہے کہ سیلز ٹیکس کی مد میں 3 ہزار ارب روپے، انکم ٹیکس کی مد میں 1800ارب روپے اور کسٹم اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں مزید 800 ارب روپے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے معاشی بحالی کا یہ منصوبہ کابینہ کمیٹی برائے معاش بحالی کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جسے کمیٹی نے منظور کرلیا اور اب سے سینت کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کرنے کے علاوہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو بھی پیش کیا جائے گا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی نے زرعی شعبے پر مزید ٹیکس اور ایف بی آر کے جانب سے قابل انتقال اثاثہ جات پر ویلتھ ٹیکس کے نفاذ کی بھی تجویز پیش کی گئی۔
واضح رہے کہ ان تمام ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے عالمی بینک پہلے بھی زور دیتا رہا ہے، تاہم آئینی مشکلات کے باعث نگراں حکومت صرف قابل انتقال اثاثہ جات پر بھی ٹیکس نفاذ کرسکتی ہے۔ کابینہ کمیٹی نے حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کے علاوہ سبسڈی اور صوبوں کو دی جانے والی زر اعانت میں کٹوتی کی تجویز کی بھی حمایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن سے پاکستانی معیشت سنبھل سکتی ہے، مہنگائی 25 فیصد ہوجائے گی، اے ڈی بی
ذرائع کے مطابق حکومتی آمدنی میں 460 ارب روپے کا متوقع اضافہ نج کاری کی صورت میں ممکن ہوگا اگر نقصان میں چلنے والے 14 سرکاری اداروں کی فوری طور پر نج کاری کردی جائے، اس کے علاوہ بے مصرف وزارتوں کے خاتمے کے نتیجے میں مزید 330 ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔
نگراں حکومت کی تجویز کے مطابق حکومتی اخرات میں دس فیصد تک کٹوتی کی جائے گی۔معاشی بحالی منصوبے میں پیش کردہ تجاویز کے مطابق سرکاری ترقیاتی پروگرام میں بھی کٹوتی کی جائے گی جس کا حجم اس وقت 950 ارب روپے ہے، تاہم اس ترقیاتی رقم میں کتنی کٹوتی ہوگی اس حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
وزارت خزانی کی تجویز ہے ہے اس میں 315 ارب روپے کی کٹوتی کی جائے تاہم نگراں وزیر اعظم کی رائے تھی کہ اس کے نتیجے میں معاشی ترقی پر اثر پڑے گا جو اس وقت عالمی بینک کے مطابق پہلے ہی دو فیصد سے بھی کم کی سطح پر ہے۔ معاشی بحالی منصوبے میں اس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ عالمی مالیاتی فنڈز کے معاہدے کے تحت تمام شرائط پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق کابینہ کمیٹی نے برآمدکنندگان کو کم قیمت پر بجلی فراہمی کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا نہ ہی مقامی صارفین کے مقابلے میں صنعتی صارفین کو ترجیح دینے کی تجویز کی حمایت کی۔
کمیٹی اجلاس میں یہ تجویز بھی زیر غور آئے کہ سامان کی ترسیل پر چارجز میں کمی کی جائے، بندرگاہ کی توسیع کا منصوبہ تیار کیا جائے اور ماہی گیری کے شعبے کو ترقی دی جائے۔ کابینہ کی کمیٹی برائے معاشی بحالی نے نجی بجلی کمپنیوں سے کیے گئے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کی بھی منظوری دی۔