حاملہ خواتین کے لیے ورزش کے فوائد

تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد دورانِ حمل ورزش سے ہونے والے فوائد سے بالکل نا واقف ہے

فوٹو : فائل

آغا خان یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں 86 فی صد خواتین دوران حمل اپنا زیادہ تر وقت چہل قدمی یا ورزش کے بجائے ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتی ہیں۔

ادارے کی جانب سے وائس آف امریکا کو دی جانے والی معلومات کے مطابق اس تحقیق کے لیے 450 خواتین کے طرزِ زندگی کا مشاہدہ کیا گیا جس کی روشنی میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق: پاکستان میں ہر تین حاملہ خواتین میں سے ایک سے زائد عورت دورانِ حمل جسمانی طور پر متحرک رہی جب کہ ان میں سے صرف تین فی صد خواتین ایسی تھیں۔

جنہوں نے دورانِ حمل ورزش کی یا دن بھر میں کم از کم آدھا گھنٹہ مختلف کھیلوں کے لیے مختص کیا۔ مجموعی طور پر ان خواتین کی تعداد 36 فی صد بنتی ہے۔ جب کہ 86 فی صد خواتین نے بتایا کہ ان کا زیادہ وقت یا تو ٹی وی دیکھنے میں گزرتا ہے یا مستقل آرام میں۔

آرام طلبی کے ساتھ حاملہ خواتین قوت بخش ادویات کا استعمال کرتی ہیں۔ بے تحاشا ادویات کا استعمال انھیں پریشان کیے رکھتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد دورانِ حمل ورزش سے ہونے والے فوائد سے بالکل نا واقف ہے۔ ان کے ذہنوں میں ورزش کے بارے میں یہ انتہائی غلط تصور بیٹھا ہوا ہے کہ ورزش کرنے سے حمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دوران تحقیق جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق حاملہ خواتین کی بہت کم تعداد اس بات سے واقف ہے کہ کس طرح جسمانی سرگرمی ماں اور بچے دونوں کی صحت اور بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

تحقیق کاروں کے مطابق عمومی طور پر حاملہ خواتین کی اہم جسمانی سرگرمیوں میں گھر کے کام کاج اور گھر میں موجود معمر افراد کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ تمام جسمانی سرگرمیاں اہم ہیں تاہم حاملہ خواتین کو ورزش کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہیے اور انہیں ورزش کے لیے علاحدہ سے وقت نکالنا چاہیے۔کچھ خواتین کو گیس کا شدید مسئلہ ہو جاتا ہے۔


اکڑا ہوا جسم سانس لینے میں بھی دقت محسوس کرتا ہے۔ سبب یہی ہے کہ ناشتے کے بعد کچھ دیر کی چہل قدمی بھی نہیں کی جاتی اور خواتین بستر پر لیٹ جاتی ہیں۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ناشتے اور کھانے کے بعد دو گھنٹے تک بستر پر نہ لیٹا جائے بل کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے چاہیے، چاہے وہ بستر درست کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ حاملہ خواتین کو چاہیے کہ ناشتے کے بعد صفائی ستھرائی کا کام ضرور کریں تاکہ جسمانی اعضاء حرکت میں رہیں اور ان کا جسم چاق و چوبند رہے۔

عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق حاملہ خواتین کے لیے ضروری ہے وہ روزانہ تیس منٹ کی ورزش کریں۔کچھ خواتین یہ سوچ رہی ہوں گی کہ ورزش کس قسم کی ہونی چاہیے جو ان کے لیے اور بچے کے لیے فائدہ مند ہو۔ چہل قدمی خواتین کے لیے بہترین ورزش ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے ضرور جائیں۔

تازہ ہوا میں سانس لیں جو نہ صرف انھیں ہشاش بشاش رکھے گا بلکہ بچے کی صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ دوڑ یا کسی یوگا ورزشی سرگرمی سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ کر لیں کیوں کہ حمل کے سہ ماہی مرحلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

سہ ماہی میں بھاری وزن اٹھانا خطرناک ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ وزن اٹھانے کے عادی نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے اسکواٹس، وال پش اپس بہترین ورزشیں ہیں۔ اوسلو یونیورسٹی کی تحقیق میں 814 بچوں کو شامل کیا گیا۔

تحقیق میں حمل کے دوران ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں اور بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں تعلق کو دریافت کیا گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر غیر متحرک ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پھیپھڑوں کے افعال کی شرح کم ہونے کا امکان جسمانی طور پر سرگرم ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

حمل کے دوران وزن میں اضافہ ناگزیر ہوتا ہے، لیکن زیادہ وزن بڑھانا آپ کی صحت اور آپ کے غیر پیدائشی بچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حمل کے دوران ضرورت سے زیادہ وزن ہونے کی صورت میں ذیابیطس، بلند فشار خون جیسے مسائل اور سی سیکشن کی ضرورت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

روزانہ ورزش حمل کے دوران آپ کو متحرک رہنے اور تھکاوٹ سے لڑنے میں مدد فراہم کرے گی۔ چونکہ ورزش قلبی نظام کو تقویت بخشتی ہے ، لہذا آپ کو جلد تھکاوٹ نہیں ہوگی۔ حمل کے دوران تھکاوٹ کا ایک سبب بے چینی اور رات کو کم نیند ہونا ہے۔ تاہم ، باقاعدگی سے ورزش کرنے سے گہری نیند اور زیادہ آرام ملے گا۔
Load Next Story