ووٹ کو عزت دو کا نعرہ

میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے مکمل طور پر اختیارات استعمال کرنے شروع کیے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 28, 2023
[email protected]

'' ووٹ کو عزت دو '' کا نعرہ بلند کرنے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حتمی طور پر ملک واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میاں نواز شریف کا نیا بیانیہ ہے کہ جن لوگوں نے 2018میں تاریخ کا پہیہ پیچھے کرنے کی کوشش کی ان کا احتساب ہونا چاہیے۔

میاں نواز شریف کے نئے بیانیہ سے مسلم لیگ ن میں ہیجان پیدا ہوچکا ہے اور نیب نے مسلم لیگ ن کے تمام رہنماؤں کے مقدمات احتساب عدالتوں کو بھجوا دیے ہیں۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ اگر ان کی حکومت کا تسلسل برقرار رہتا تو جی 20 کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوتی۔

میاں نواز شریف کے قریبی حلیف میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ 2014 سے 2017 تک سازش کے تمام کرداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا۔

مسلم لیگ ن کے ایک رہنما رانا ثناء اﷲ کہتے ہیں کہ احتساب ضروری ہے۔ مریم نواز شریف نے اپنے والد کے شاندار استقبال کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کی ہوئی ہے اور مسلسل کہہ رہی ہیں کہ میاں صاحب وزیر اعظم بنیں گے تو مہنگائی کم ہو جائے گی۔

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے یہ بیانیہ آیندہ انتخابی مہم کا بیانیہ کہا جاسکتا ہے، اگرگزشتہ صدی کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو کچھ قوتوں نے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا۔

پنجاب کا تاجر طبقہ میاں صاحب کے ساتھ تھا مگر میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو حقیقی وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی، یوں غلام اسحاق خان نے انھیں اقتدار سے رخصت کر دیا، لیکن اس لڑائی میں غلام اسحاق خان کو بھی اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے مکمل طور پر اختیارات استعمال کرنے شروع کیے، یوں اس وقت کی قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے مخالف حریف سے تعاون کرتے ہوئے آئین میں دی گئی شق 58(2)B کو ختم کردیا۔ میاں صاحب نے اپنے دو ادوار میں بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بھارت کے وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے، دوستی بس چلی اور واجپائی نے مینارِ پاکستان پر حاضری دی، یوں بھارت سے تجارت کا تناسب بڑھا۔ بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے بھارت سے بجلی لینے کے امکانات پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔ ملک میں موٹروے کی تعمیر شروع ہوئی۔ پاکستان کے امریکا اور یورپ سے تعلقات بہتر ہوئے، اگرچہ مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ترقی کا پہیہ آگے بڑھا۔ کارگل پر چڑھائی سے ملک کا امیج دنیا بھر میں متاثر ہوا۔

میاں صاحب کی حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ میاں نواز شریف، ان کے بھائیوں اور دیگر رہنماؤں نے مہینوں قید خانوں میں گزارے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کئی ماہ اٹک قلعہ میں بند رہے۔ میاں نواز شریف کو سی 130 طیارے میں ہتھکڑیاں لگا کر اور زمین پر بٹھا کر لیا جاتا رہا۔ میاں صاحب کو طیارہ ہائی جیکنگ میں عمر قید کی سزا ہوئی مگر پھر شریف خاندان سمجھوتہ کر کے جدہ چلا گیا۔

میاں نواز شریف نے 2005میں بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے کر کے جمہوریت کلچر کو مستحکم کیا۔ میاں نواز شریف 2013 میں تیسری دفعہ ملک کے اہم ترین عہدے پر فائز ہوئے۔

میاں نواز شریف نے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور بھارت کے وزیر اعظم مودی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے، اگر میاں صاحب کی پالیسی برقرار رہتی تو پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوتا، مگر پھر پاناما لیکس میں پھنسا کر اور متنازعہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے '' ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ لگایا۔ اس نعرہ کی پنجاب میں خاص طور پر اور مجموعی طور پر پورے ملک میں پذیرائی ہوئی مگر میاں نواز شریف جیل کی مشکلات برداشت نہیں کرسکے۔

یوں انھیں لندن بھیج دیا گیا۔ جب میاں نواز شریف لندن گئے تو یہ تاثر دیا گیا کہ وہ علاج کرا کے واپس آجائیں گے مگر وہ یا تو جیل جانے سے خوفزدہ ہوگئے یا انھوں نے اپنا مستقبل اسٹیبلشمٹ کے فیصلوں سے منسلک کردیا۔

یوں میاں نواز شریف یورپ، دبئی اور سعودی عرب جاتے رہے اور برطانیہ میں ہوٹلوں میں کھانا کھاتے بھی دکھائی دیے مگر ا ن کی ٹیم کے اکابرین نے یہ بات محسوس نہیں کی کہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا استعمال کرنے والی ٹیم نے ان کی لندن، دبئی اور سعودی عرب کی سرگرمیوں کو اپنے پروپیگنڈہ کو تقویت دینے کے لیے خوبصورتی سے اس طرح وائرل کیا کہ پنجاب کے متوسط طبقے کے علاوہ پنجاب کی ایلیٹ کلاس متاثر ہوئی۔

میاں صاحب کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کا طالبان دوستانہ رویہ، خیبر پختون خوا میں استعمال ہوا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا اور تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوئی تھی۔

بعد ازاں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی آپس کی چپقلش اور پنجاب میں عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی کے نتائج سامنے آنے لگے اور پنجاب میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہونے لگے تو اچانک تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے اتفاق کا اظہار کیا۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے سائفر کا نعرہ لگا کر یہ تاثر دیا کہ امریکا ان کی حکومت کو گرا رہا ہے مگر پھر جب شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت کی کارکردگی سے فضاء تبدیل ہونا شروع ہوئی۔

میاں شہباز شریف نے 70 رکنی کابینہ بنائی، پھر جلدی میں نیب کے قانون میں تبدیلی کی، یوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے احتساب عدالت میں چلنے والے مقدمات ختم ہوئے۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد شروع ہوا، یوں مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

آئی ایم ایف نے شہباز شریف حکومت کو ناکوں چنے چبوائے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ بار بار اس بات پر زور دیتی رہیں کہ غریبوں کے بجائے امراء پر ٹیکس لگایا جائے مگر اتحادی حکومت اس بارے میں کوئی پالیسی نہ بنا سکی۔ اتحادی حکومت سابقہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی پالیسیوں کی طرح اخراجات میں کمی کی کوئی پالیسی نافذ نہ کرسکی۔

محمد خان جونیجو نے تو بیوروکریٹ کو چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور کیا تھا۔ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو پنجاب کو وزیر اعلیٰ بنا کر اس پروپیگنڈہ کو مزید مستحکم کیا گیا کہ مسلم لیگ ن نے اہم عہدے صرف شریف خاندان کے لیے ہی مختص کیے ہیں۔

کچھ مسلم لیگی رہنماؤں نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا اور اب تک انتخابات کی قطعی تاریخوں کے بارے میں کوئی اعلان نہیں ہوسکا۔ میاں شہباز شریف حکومت میں شہری آزادیوں پر مزید قدغنیں عائد ہوئیں۔ میڈیا پر ایک نیا دباؤ رہا۔

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب مسلسل کہتی رہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں شہری آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں مگر ان کی باتوں پر یقین نہیں کیا جاتاتھا۔

پارلیمنٹ میں ایسے قوانین منظور کیے گئے جن قوانین کے نفاذ سے انگریز دور کی یاد تازہ ہوئی، یوں مجموعی طور پر میاں نواز شریف کا '' ووٹ کو عزت دو '' کا نعرہ کہیں کھو گیا۔ میاں صاحب کو فورا پاکستان آنا چاہیے اور اپنے نئے بیانیہ کو جاری رکھنا چاہیے۔ یوں '' ووٹ کو عزت دو'' کے نعرہ کو کچھ حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔