صرف پنجاب ہی میں بہتر حکمرانی کیوں
کے پی میں دس سال حکومت کرنے والی پی ٹی آئی حکومت میں ہونے والی کرپشن سامنے آ رہی ہیں
روزنامہ ایکسپریس کراچی کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ماہ گزر گیا، سندھ کی نگراں حکومت امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے میں ناکام۔ کراچی میں جہاں اسٹریٹ کرائم کا راج ہے تو اندرون سندھ ڈاکوؤں سے پریشان عوام عدم تحفظ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔
کراچی میں رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر 95 سے زائد افراد قتل کیے جا چکے ہیں اور نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کی حفاظت پر 90 پولیس اہلکار تعینات ہیں اور شہری غیر محفوظ چلے آ رہے ہیں اور نگراں وزیر اعلیٰ کو شاہانہ پروٹوکول دیا گیا ہے۔
چاروں صوبوں میں پنجاب سے سندھ، کے پی اور بلوچستان کو ہمیشہ متعدد شکایتیں رہی ہیں اور پنجاب کے بعض حکمرانوں خصوصاً سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہا بھی جاتا رہا ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف کی جو کارکردگی پنجاب میں تھی وہ وفاق میں بطور وزیر اعظم نظر نہیں آئی۔
صرف شہباز شریف ہی ہر جگہ نظر آئے جب کہ ان کے پنجاب میں عوامی انداز مختلف تھے مگر اپنی حکومت کے خاتمے پر انھوں نے بھی تسلیم کیا کہ پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی مجموعی کارکردگی ان سے بہتر رہی اور محسن نقوی نے میاں شہباز شریف جیسی اسپیڈ سے بھی تیزکام کیا۔
محسن نقوی میڈیا سے تعلق رکھنے والی غیر سیاسی شخصیت تھے مگر انھوں نے نگراں وزیر اعلیٰ بن کر جو تیز رفتار کارکردگی دکھائی، اس میں انھوں نے شہباز شریف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور صبح جلد اٹھ کر دیر گئے رات تک انھوں نے اپنی کارکردگی دکھا کر اپنے ناقدین کو بھی حیران کر دیا۔
محسن نقوی پنجاب کے دور افتادہ علاقوں تک کا دورہ کر چکے ہیں اور آئے دن مختلف شہروں کے اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور سرکاری اداروں کے اچانک دورے کرتے اور مختلف اجلاس منعقد کرتے اور اپنے دوروں میں عام لوگوں سے ملتے اور ان کے مسائل معلوم کرتے نظر آئے ہیں۔
آ کے پی کے، کے نگراں وزیر اعلیٰ اعظم خان نے بھی پنجاب کی نگراں حکومت قائم ہونے کے قریبی دنوں میں ہی حلف اٹھایا تھا اور ان پر پی ٹی آئی نے بھی اعتماد کا اظہارکیا تھا اور وہ پنجاب کے برعکس اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے باہمی فیصلے سے نگراں وزیر اعلیٰ بنے تھے مگر تقریباً 6 ماہ کی حکمرانی میں وہ ملک تو کیا کے پی میں بھی اپنا وجود ثابت نہیں کرسکے نہ انھوں نے کوئی کارکردگی دکھائی نہ محسن نقوی کی طرح وہ کے پی کے دورے کرتے نظر آئے بلکہ جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے گورنر کے پی ہی صوبے میں نمایاں نظر آئے جو پشاور کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔
کے پی میں دس سال حکومت کرنے والی پی ٹی آئی حکومت میں ہونے والی کرپشن سامنے آ رہی ہیں اور فنڈز نہ ملنے سے بی آر ٹی پشاور کسی بھی وقت بند ہو سکتی ہے جب کہ پنجاب میں لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان جب کہ کراچی میں چلنے والی میٹرو بسیں کامیابی سے چل رہی ہیں جب کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے تو کوئٹہ کے لیے میٹرو بسوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
بلوچستان ملک کا سب سے پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ صوبہ ہے جہاں ہمیشہ سرداروں کی حکومت رہی ہے جہاں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے متعدد حکومتیں ہٹائی گئیں۔
وہاں ہر برادری اور سردار کو خوش رکھنے کے لیے ماضی میں تعداد سے زیادہ کابینہ میں وزیر شامل کیے گئے جنھوں نے ہر حکومت میں عوام کو نظرانداز کرکے خود کو بنایا۔ اقربا پروری کی، اپنوں کو نوازا، مال بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
بلوچستان میں باپ پارٹی نے اپنے ہی وزیر اعلیٰ تحریک عدم اعتماد پیش کرکے ہٹائے۔ (ن) لیگ نے ڈھائی سال بی این پی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا باقی مدت کے لیے ثنا اللہ زہری کو مدت پوری کرنے نہیں دی گئی اور باپ پارٹی کو وجود میں لا کر اسی پارٹی کا وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کو لایا گیا تھا مگر 2018 میں اچھی شہرت کے حامل جام کمال کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا جن کے لیے مشہور تھا کہ وہ نہ خود کھاتے تھے نہ دوسروں کو کھانے دیتے تھے اس لیے ناپسندیدہ ٹھہرے اور انھیں ہٹا کر پھر قدوس بزنجو کو لایا گیا تھا جن کی مدت پوری ہوئی تو بمشکل نگراں وزیر اعلیٰ کی نامزدگی ہوئی جو کہیں نظر نہیں آ رہے۔
سندھ میں 15 سال حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کی مرضی کے برعکس سپریم کورٹ کے سابق جج مقبول باقر کو نگراں وزیر اعلیٰ تو بنایا گیا مگر ڈیڑھ ماہ میں ان کی کارکردگی سامنے نہیں آئی اور کراچی تک محدود ہوتے ہوئے بھی کراچی کے سب سے اہم اسٹریٹ کرائم کے مسئلے کو حل نہ کراسکے اور نہ ہی کراچی کی نااہل انتظامیہ کو خیال آیا کہ امن و امان بہتر بنائے اور عوام کو کھلے عام شہریوں کو لوٹنے والے ڈکیتوں یا ناجائز منافع خوروں سے نجات دلائے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکمرانی کے پانچ سال بھی ترقی کے سال تھے جس کا بیڑا غرق عثمان بزدار دور میں ہوا۔
شہباز شریف کے مقابلے پر عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا پی ٹی آئی وزیر اعظم کا احمقانہ فیصلہ تھا جس کی سزا پی ٹی آئی نے پنجاب و کے پی میں بھگتی اور دونوں صوبے ترقی سے محروم اور بدانتظامی اور کرپشن میں بدنام ہوئے۔
سندھ حکومت کی 15 سالہ کارکردگی صرف صحت کے میدان میں اندرون سندھ ہی نظر آئی جہاں آٹھ نو سال قائم علی شاہ دکھاؤے کے مگر بعد میں 6 سال مراد علی شاہ متحرک تو نظر آئے مگر حکمرانی کہیں اور سے ہوتی رہی اور کراچی میں دکھاؤے کے کام کرا کر اور منصوبہ بندی سے پی پی نے پہلی بار اپنا میئر منتخب کرا لیا مگر جان بوجھ کر انھیں مصطفیٰ کمال جیسے اختیارات نہیں دیے اور اب سندھ کی نگراں حکومت بھی ڈھیلی ڈھالی ہے اور چاروں صوبوں میں صرف پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ ہی اپنے صوبے کے لیے کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔