آخر جے یو آئی دہشت گردی کا نشانہ کیوں

اکتوبر 2014ء میں مولانا پر کوئٹہ میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو افراد شہید ہوئے اور متعدد زخمی

ashfaqkhan@express.com.pk

پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ترین ملک، واحد ایٹمی قوت، عرف عام میں اسلام کا قلعہ ہے۔ اس وجہ سے روئے زمین پر جہاں کہیں مسلمان کسی مصیبت یا مشکل میں ہوں تو ان کی نگاہیں پاکستان کی طرف رہتی ہیں کہ یہ مملکت خداد داد مظلوموں کی داد رسی کرے گی، اور ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

اس وجہ سے امت مسلمہ کے تمام دشمنوں کا ہر وار سب سے پہلے پاکستان پر ہوتا ہے اور کسی بھی صورت میں پاکستان کو سنبھلنے نہیں دیتے۔ لمحہ موجود میں پاکستان کو جتنے بھی چینلجز کا سامنا ہے یہ سب ایک منظم بین الاقوامی سازش ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کی موجودہ لہر ہے، کئی مسائل اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔

آج پاکستان میں امن قائم ہوجائے تو کئی مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے اس عفریت کا شکار ہے۔ جس کا خاتمہ کرنے کی خاطر ریاست نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کا فیصلہ کیا۔

افواج پاکستان اور سلامتی کے دیگر اداروں نے بڑی جرات و بہادری سے دونوں آپریشنز کے دوران دہشت گردوں، ان کی کمین گاہوں اور ان کے سہولت کاروں کا صفایا کیا، پاک سرزمین کے دفاع کی خاطر لازوال قربانیاں پیش کیں جس کے نتیجے میں ملک میں کافی حد تک امن بحال ہوا۔ بیشتر دہشت گرد ان آپریشنز کے نتیجے میں مارے گئے جو بچ گئے وہ زیر زمین چلے گئے یا سرحد پار کرکے افغانستان بھاگ گئے۔

جہاں کالعدم تحریک طالبان، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں نے گٹھ جوڑ بنا لیا۔ اور پاکستان سمیت، امارت اسلامیہ افغانستان کے ذمے داران کو بھی اپنے نشانے پر رکھا۔امریکی اور نیٹو فورسز کے اچانک انخلا اوراشرف غنی کے فرار سے ان دہشت گرد گروہوں کو فائدہ پہنچا، نیٹو فورسز جو جدید ترین اسلحہ افغانستان چھوڑ کر گئیں ان میں سے کچھ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جسے اب پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور جب موقع ملے گا یہ افغانستان کے عبوری حکمرانوں کے خلاف بھی استعمال کرینگے۔

توقع تھی کہ غیر ملکی فورسز کے انخلاء اور امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام کے بعد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کا سلسلہ رک جائے گا مگر توقع کے برعکس پاکستان پر حملوں کے سلسلے میں شدت آگئی۔ کبھی افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی چوکیوں پر حملے ہورہے ہیں کبھی سیکیورٹی فورسز پر خود کش حملے، رواں برس دو مساجد کوبھی شہید کیا گیا۔ اس بار جو سب سے بڑی کامیابی ان دہشت گردوں نے حاصل کی وہ پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنا ہے' اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔

امارت اسلامیہ افغانستان کے دستور اور شریعت مطہرہ کے مطابق امیر کی اطاعت لازم اور امیر کا حکم حرف آخر ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے کئی احادیث میں امیر کی اطاعت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ''جو اطاعت سے نکل گیا اور اس نے جماعت چھوڑ دی اور اسی حال میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص کسی جھنڈے تلے اندھی تقلید میں لڑے یا تعصب کی بنا پر غصہ کرے یا تعصب کی دعوت دے یا اس میں تعاون کرے اور پھر قتل کر دیا جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور جو شخص میری امت کے خلاف بغاوت کرے اور نیک و بد ہر کسی کا قتل کرے، نہ تو کسی مومن سے ہاتھ روکے اور نہ کسی معاہدے کے عہد کا پاس رکھے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں''۔ اگر امارت اسلامیہ کے امیر مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کے واضح حکم اور فتویٰ جس میں انھوں پاکستان پر حملوں کو حرام قرار دیا ہے تو اس کے بعد اگر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے تو ان دہشت گردوں کو کیسے امارت اسلامیہ افغانستان آزادی سے نقل و حرکت کر رہے ہیں۔

جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان پر حملہ آور ہیں، بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، نہ انھیں مساجد کے احترام کا خیال ہے نہ انسانی جان کی حرمت کا۔ یہ اللہ کے بھی باغی ہیں، اللہ کے رسولﷺ کے بھی باغی ہیں اور افغانستان کے امیر المومنین ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے بھی باغی ہیں۔ یہ اللہ، رسول اور امیر کے باغی گروہ دو مسلمان ملکوں کے درمیان کشیدگی کا سبب بن رہے ہیں۔ انھیں کھلا چھوڑنے کے بجائے روکنا ہوگا۔


ستم ظریفی یہ کہ پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت جے یو آئی اس دہشت گردی کی زد میں ہے۔ جس کے رہنما اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد علماء و مشائخ، آئمہ و خطبائ، دینی مدارس کے اساتذہ و طلباء پر مشتمل ہے، ان پر اسلام کے نام پر خود کش حملے ہورہے ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں میں جے یو آئی پر دو بڑے حملے ہو چکے ہیں، پہلا حملہ باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن پر کیا گیا، جس میں 80سے زائد علماء و مشائخ اور رہنما شہید ہوئے، سیکڑوں شدید زخمی ہوئے جن میں سے کئی معذور ہوچکے ہیں اور کئی ابھی تک زیر علاج ہیں۔

ابھی اس خود کش دھماکے میں شہید ہونے والوں کے کفن بھی میلے نہیں ہوئے تھے کہ مستونگ میں جے یو آئی کے رہنما حافظ حمد اللہ کے قافلے پر حملہ کردیا گیا جس میں حافظ حمدللہ اور ان کے تمام ساتھیوں کی جان معجزانہ طور پر بچ گئی تاہم وہ اور ان کے گیارہ ساتھی اس حملے میں شدید زخمی ہوئے۔

مستونگ میں ہی چند سال قبل جے یو آئی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی حملہ کیا گیا تھا، اس دھماکے میں مولانا حیدری کے درجنوں ساتھی شہید ہوگئے تھے اور وہ خود بری طرح زخمی ہوئے تھے جب کہ ان کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی۔ مارچ 2011ء میں مولانا فضل الرحمن پر دو بڑے خود کش حملے ہوئے پہلا حملہ ضلع صوابی میں مولانا کے استقبالیہ جلوس پر ہوا جس میں سات افراد شہید ہوئے تھے اس کے فوراً بعد دوسرا حملہ چارسدہ میں ہوا۔

ان کے قافلے میں ہونے والے دھماکے میں کم سے کم دس افراد شہید اور تیس کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان ایک جلسے میں شرکت کرنے کے لیے سڑک پر جارہے تھے کہ اس دوران ان کے قافلے میں شامل پولیس موبائل کو بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔

اکتوبر 2014ء میں مولانا پر کوئٹہ میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو افراد شہید ہوئے اور متعدد زخمی۔ اس حملے میں بھی مولانا معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ دہشت گردی کا شکار بننے والے علماء کی ایک لمبی فہرست ہے۔

اس قدر شدید دہشت گردی کا شکار ہونے اور اتنی شہادتیں پیش کرنے کے باوجود قیادت کے پاؤں ڈگمگائے نہ کارکنان مایوسی کا شکار ہوئے۔ وہ آج بھی اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کا علم بلند کیے ہوئے ہیں، وہ آج بھی اپنے نظریات و افکار پر ثابت قدمی سے جمے ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایک جماعت جس کا اوڑھنا بچھونا اسلام ہے، جس کے قائدین کے لبوں سے ہمہ وقت قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں جاری رہتی ہیں، جو ہر وقت معطر و پاکیزہ ماحول، افکار و خیالات میں گم رہتے ہیں۔ جن کی جبینیں صرف رب کی بارگاہ میں جھکی رہتی ہیں، جو ہمیشہ مظلوموں کے حق میں کھڑے رہتے ہیں۔

جن کے آباؤاجداد نفاذ شریعت کی جدوجہد کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے جو خود نفاذ شریعت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، جن کی آنے والی نسل نفاذ شریعت کے لیے کوشاں ہیں، پھر اس جماعت کے قائدین و کارکنان کو دہشت گردی کا شکار کیوں بنایا جارہا ہے؟
Load Next Story