حاضر سروس فوجی اہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہےاٹارنی جنرل

میجسٹریٹ کو فوجی اہلکاروں کی حوالگی سے متعلق وجوہات بیان کرنا ہوں گی، جستس جواد ایس خواجہ


ویب ڈیسک May 15, 2014
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا گیا تھا کہ کیا آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے، اگر ہاں تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی یا سول عدالت۔ فوٹو : فائل

RAMALLAH: اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان اسلم بٹ نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ ملک کے آئین اور پاکستان آرمی ریگولیشن کے مطابق حاضر سروس فوجی اہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ 35 لا پتا افراد کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آرکے اندراج سےمتعلق اٹارنی جنرل نےجواب جمع کرادیا، اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں کہا کہ ملک کے آئین اور پاکستان آرمی ریگولیشن کے مطابق آرمڈ فورسز اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال جواب طلب ہے کہ حاضر سروس اہلکاروں کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو یا سول میں، فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے کرنے سے متعلق بھی قواعد ہونے چاہئیں، میجسٹریٹ خود کو کمانڈنگ افسر کے ماتحت نہ سمجھے۔ اسے فوجی اہلکاروں کی حوالگی سے متعلق وجوہات بیان کرنا ہوں گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا گیا تھا کہ کیا آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے، اگر ہاں تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی یا سول عدالت۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں