پریکٹس اینڈ پروسیجر بل وفاقی حکومت نے فل کورٹ کے پانچ سوالوں پر جواب جمع کرادیا
آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے قانون کا معطل کرنا غیر آئینی تھا، وفاقی حکومت کا فل کورٹ کو جواب
چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کے معاملے پر وفاقی حکومت نے فل کورٹ کے پانچ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے قانون کا معطل کرنا غیر آئینی تھا۔ مسلم لیگ ن کے تحریری جواب میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی حمایت کرتے ہوئے قانون کیخلاف دائر تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی۔
چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے قانون کو معطل کرکے بینچ تشکیل دے کر فیصلے کیے،عام قانون سازی سے آرٹیکل 184 کی شق3 میں اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے۔
وفاقی حکومت نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 184کی شق3 میں متاثرہ فرد کے پاس نظر ثانی کے سوا اپیل کا حق نہیں،توہین عدالت کا آرٹیکل 204 اپیل کا حق فراہم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے توہین عدالت کیسز میں اپیل کا حق فراہم کیا جبکہ پریکٹس قانون سے عدلیہ کی آزادی کو مزید یقینی بنایا گیا ہے۔
حکومت نے جواب دیا کہ قانون سے عدالتی معاملہ میں شفافیت اور بینچ تشکیل میں جموریت آئے گی، پریکٹس قانون چیف جسٹس کے صوابیدی اختیارات کو اسٹریکچر کرتا ہے،پریکٹس قانون کے تحت لارجر بینچ آرٹیکل 184کی شق3 کے مقدمات سنے گا،مفروضہ کے بنیاد پر قانون کا کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا،مستقبل کے کسی قانون سے عدلیہ کے قانون پر قدغن آئے تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ لامتناہی صوابیدی اختیار سے نظام تباہ ہوتاہے،قانون اس بنیاد پر کالعدم نہیں ہوسکتا ہے فل کورٹ فیصلہ پر اپیل کا حق نہیں ملے گا،فل کورٹ غیر معمولی مقدمات میں تشکیل دیا جاتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر ہوگا یہ کوئی طے شدہ قانون نہیں، ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح انڈین عدلیہ سے لی گئی ہے جس میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے،پارلیمنٹ قانون سازی سے عدالتی فیصلوں کا اثر ختم کر سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا مکمل اختیا رہے، قانون بننے سے پہلے سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی درخواستیں نہ ہی قابل سماعت ہیں اور نہ ہی اُن پر حکم جاری ہونا چاہیے، کسی درخواست نے یہ نہیں بتایا عدلیہ کی آزادی قانون سازی سے کیسے متاثر ہوئی،قانون سازی کیخلاف تمام درخواستیں خارج کی جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے قانون کو معطل کرکے بینچ تشکیل دے کر فیصلے کیے،عام قانون سازی سے آرٹیکل 184 کی شق3 میں اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے۔
وفاقی حکومت نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 184کی شق3 میں متاثرہ فرد کے پاس نظر ثانی کے سوا اپیل کا حق نہیں،توہین عدالت کا آرٹیکل 204 اپیل کا حق فراہم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے توہین عدالت کیسز میں اپیل کا حق فراہم کیا جبکہ پریکٹس قانون سے عدلیہ کی آزادی کو مزید یقینی بنایا گیا ہے۔
حکومت نے جواب دیا کہ قانون سے عدالتی معاملہ میں شفافیت اور بینچ تشکیل میں جموریت آئے گی، پریکٹس قانون چیف جسٹس کے صوابیدی اختیارات کو اسٹریکچر کرتا ہے،پریکٹس قانون کے تحت لارجر بینچ آرٹیکل 184کی شق3 کے مقدمات سنے گا،مفروضہ کے بنیاد پر قانون کا کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا،مستقبل کے کسی قانون سے عدلیہ کے قانون پر قدغن آئے تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ لامتناہی صوابیدی اختیار سے نظام تباہ ہوتاہے،قانون اس بنیاد پر کالعدم نہیں ہوسکتا ہے فل کورٹ فیصلہ پر اپیل کا حق نہیں ملے گا،فل کورٹ غیر معمولی مقدمات میں تشکیل دیا جاتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر ہوگا یہ کوئی طے شدہ قانون نہیں، ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح انڈین عدلیہ سے لی گئی ہے جس میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے،پارلیمنٹ قانون سازی سے عدالتی فیصلوں کا اثر ختم کر سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا مکمل اختیا رہے، قانون بننے سے پہلے سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی درخواستیں نہ ہی قابل سماعت ہیں اور نہ ہی اُن پر حکم جاری ہونا چاہیے، کسی درخواست نے یہ نہیں بتایا عدلیہ کی آزادی قانون سازی سے کیسے متاثر ہوئی،قانون سازی کیخلاف تمام درخواستیں خارج کی جائیں۔