بھارتی منور سلطانہ پاکستانی منور سلطانہ

اچھی فلمیں دیکھنا بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، کوئی بھی ایس آرٹ مووی نہیں ہے جو ہم نے نہ دیکھی ہو

fatimaqazi7@gmail.com

موسیقی میری بڑی کمزوری ہے، یعنی سیمی کلاسیکل موسیقی جس میں سُر تال اور الفاظ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ شوق بھی کتابوں کی طرح مجھے ورثے میں ملا ہے۔ کبھی کبھی اچانک کوئی گیت سن کر انسان ماضی کی خوبصورت وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔

اچھی فلمیں دیکھنا بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، کوئی بھی ایس آرٹ مووی نہیں ہے جو ہم نے نہ دیکھی ہو، شبانہ اعظمی اور نصیرالدین شاہ کی پار، ریکھا کی امراؤ جان ، شبانہ کی بھاؤنا، مینا کماری کی پاکیزہ، سمیتا پاٹل، نصیرالدین شاہ اور سریا پاٹھک کی بازار، سمیتا پاٹل اور نصیرالدین شاہ کی مرچ مسالہ وغیرہ بھلا کس کو یاد نہ ہوگی، لیکن کبھی کبھی کوئی پرانی فلم کا گانا کانوں میں پڑ جائے تو بہت کچھ یاد آ جاتا ہے۔

چند دن قبل ایک پرانی فلم بابل اور میری کہانی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو فلم کی ہیروئن منور سلطانہ کا خوبصورت چہرہ یاد آگیا، وہ بہت خوبصورت تھیں خاص کر ان کی آنکھیں بڑی پراسرار اور نشیلی تھیں، جن لوگوں نے انھیں دیکھا تھا ان کا کہنا تھا کہ وہ اصل زندگی میں زیادہ خوبصورت تھیں۔

میرے والد کو بھی موسیقی سے حد درجہ لگاؤ تھا۔ وہ وائلن اور ستار بہت اچھا بجاتے تھے ان کی زندگی بڑی بھرپور گزری تھی۔ زیڈ۔اے بخاری ان کے بچپن کے دوست تھے، پاکستان آ کر والد سول ایوی ایشن میں بہت بڑے عہدے پر فائز ہوئے اور بخاری صاحب ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں والدین کے ساتھ جو فلمیں دیکھیں وہ سب کی سب ایسی ہوتی تھیں کہ سب گھر والے ایک ساتھ فلمیں دیکھتے تھے۔

منور سلطانہ کی طرح پری چہرہ نسیم بانو جن پر منٹو نے ایک مضمون بھی لکھا ہے اور مدھوبالا بھی ان کے بارے میں بھی والد یہی بتاتے تھے کہ وہ پردے پر اتنی حسین نظر نہیں آتیں جتنی کہ ہیں، یہی بات وینا اور بینا رائے کے لیے بھی کہی جاتی ہے، نسیم بانو سے میرے والد کی ملاقات بمبئی میں مہاراجہ پٹیالہ کے ساتھ ہوئی تھی، وہ بتاتے تھے کہ نسیم بانو بالکل بے داغ سفید لباس پہنے تھیں، کانوں میں موتیوں کے ٹاپس، گلے میں موتیوں کی مالا اور بس، مہاراجہ پٹیالہ ان کا حسن دیکھ کر مبہوت رہ گئے تھے۔

مجھے آج یہ سب اس لیے یاد آ رہا ہے کہ فلم ''میری کہانی'' اور ''بابل'' جو میں بہت زمانہ ہوا سینما میں دیکھ چکی تھی، وہ جب چند دن قبل دیکھیں تو مجھے منور سلطانہ بے اختیار یاد آگئیں۔

منور سلطانہ کا جنم 8 نومبر 1924 میں لاہور میں ہوا تھا، یہ ایک پنجابی فیملی تھی۔ والد ریڈیو پر اناؤنسر تھے، اور منور ایک ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، انھوں نے گریجویشن تک میڈیکل کی پڑھائی پڑھی لیکن پھر قسمت انھیں فلمی دنیا میں لے ائی، ان کی پہلی فلم ''خزانچی'' تھی جس میں ان کا ایک چھوٹا سا رول تھا، خزانچی کے تمام گانے ہٹ ہوئے، منور خود بھی گلوکارہ تھیں اور اپنی فلموں کے گیت ثریا کی طرح خود ہی گاتی تھیں۔ پھر اے۔آر۔کاردار کی نظر ان پر پڑی تو وہ ان کے حسن سے مبہوت ہوگئے اور اپنی نئی فلم ''شاہ جہاں'' میں انھیں ممتاز محل کا رول آفر کردیا۔

ان کے ساتھ ہیرو تھے اس زمانے کے مشہور ہیرو موتی لال۔ انھی دنوں بمبئی ٹاکیز میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس میں کئی جانیں چلی گئیں، منور سلطانہ کی والدہ نے انھیں فوری طور پر واپس لاہور بلا لیا۔ انھی دنوں لاہور کے ایک جانے مانے ڈائریکٹر مظہر خان نے ان سے دو سال کا کنٹریکٹ کرلیا، چار سے پانچ ہزار ماہانہ تنخواہ پر اور کرائے کا گھر بھی لے کر دیا۔ پھر دو سال بعد منور سلطانہ نے بمبئی کا رخ کیا اور 1945 میں فلم ''پہلی نظر'' میں کام کیا، ان کے ساتھی اداکار تھے موتی لال، بابو راؤ اور وینا۔ پہلی نظر بھی اے آر کاردار کی فلم تھی کہ وہ منور سلطانہ کو بھولے نہیں تھے۔

پھر انھوں نے فلم ''درد'' کے لیے بھی منور کو سائن کیا، اس میں ثریا بھی اداکاری کے جوہر دکھا رہی تھیں، دونوں اداکارائیں گلوکارہ بھی تھیں لیکن اس کا ایک گیت جو بہت زیادہ سپرہٹ ہوا ''افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا'' منور سلطانہ پر فلمایا گیا لیکن اسے گایا تھا اوما دیوی یعنی ٹن ٹن نے۔ فلم ''درد'' سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس فلم نے گولڈن جوبلی کی۔ ان کی فلم پہلی نظر میں ان کے ہیرو تھے موتی لال اور اسی فلم میں پہلی بار مکیش نے اپنا پہلا پلے بیک گیت دیا جو بہت مقبول ہوا۔


دل جلتا ہے تو جلنے دے آنسو نہ بہا فریاد نہ کر

اس گیت نے مکیش کو بھی ایک بڑا سنگر بنا دیا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکیش نے یہ گیت سہگل کی طرح گایا، اکثر لوگ اسے سہگل ہی کا گیت سمجھتے تھے۔ لیکن بعد میں مکیش نے اپنی علیحدہ شناخت بنائی اور ایک بہت بڑے گلوکار کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ منور سلطانہ کا فلمی سفر 1940 سے 1956 تک رہا، لیکن اس دوران انھوں نے جو کام کیا جو گیت گائے وہ اپنی جگہ امر ہیں۔ فلم بابل کا گیت ''ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا'' یہ ایک ڈوئیٹ ہے، درد کے بعد انھوں نے فلم ''اعلان''، ''اندھوں کی دنیا'' اور فلم ''ادھر'' میں کام کیا اور اپنی پہچان بنائی۔ ان فلموں میں ان کے ساتھ تھیں لیلہ چشتی اور مہی پال۔ جب کہ ''ادھر'' میں ہیرو تھے دیوآنند۔

منور سلطانہ نے بابل میں نرگس اور دلیپ کمار کے ساتھ کام کیا اور ''میری کہانی'' میں سریندر کے ساتھ۔ انھوں نے اپنے دور کے تمام بڑے اداکاروں اور اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا۔ 1949 میں ان کی سات فلمیں ریلیز ہوئیں۔ مشہور اداکارہ گیتا پالی بھی انھی دنوں اپنی پہچان بنا رہی تھیں، لیکن منور سلطانہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، انھوں نے فلم ''کنیز'' اور ''دل کی دنیا'' میں بھی ہیروئن کا رول ادا کیا۔ 1956 تک بے شمار فلمیں کیں اور داد پائی۔ وہ اپنی فلموں کے گانے بھی خود ہی گاتی تھیں۔

1950 میں ان کی ملاقات شرف علی سے ہوئی جو فلموں کے لیے فرنیچر سپلائی کیا کرتے تھے، انھوں نے بھی دو فلمیں منور سلطانہ کو لے کر بنائیں، ''پیار کی منزل'' اور ''میری کہانی''۔ اور پھر مشرف علی نے منور سلطانہ سے شادی کرلی۔ بدقسمتی سے 1966 میں ان کے شوہر مشرف علی کا انتقال ہو گیا اور وہ فلمی دنیا سے دور ہوگئیں، کیونکہ انھیں کاروبار پر بھی توجہ دینی تھی، انھوں نے بہت سے گیت گائے، ایک گیت ''پینے کے دن آئے پئے جا'' بہت مشہور ہوا، یہ گیت فلم ''خزانچی'' کا تھا یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اسی فلم سے مشہور گلوکارہ شمشاد بیگم نے بھی فلم نگری میں قدم رکھا تھا۔

فلم ''کنیز'' منور سلطانہ کی فلم اس لیے بھی یاد رکھی جائے گی کہ اس فلم سے مشہور موسیقار اوپی نیئر نے فلم نگری میں قدم رکھا تھا اور فلم ''کنیز'' کا بیک گراؤنڈ میوزک انھوں نے ہی دیا تھا۔

منور سلطانہ کی آخری فلم تھی ''جلاد'' اور اس کے بعد وہ اپنے بچوں کی پرورش میں اور کاروبار میں ایسی مگن ہوئیں کہ فلمی دنیا کی طرف مڑ کے بھی نہ دیکھا، لوگ انھیں بھول گئے، لیکن وہ زندہ تھیں البتہ الزائمر کے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں، ان کا رشتہ ان کی اپنی ذات سے بھی چھوٹ گیا تھا، ان کے بچوں نے ان کی بہت نگہداشت کی ان کا ہر طرح خیال رکھا، وہ وہیل چیئر پہ بیٹھی خلاؤں میں گھورتی رہتی تھیں، وہ کسی کو بھی نہ پہچانتی تھیں، آخر کار پندرہ ستمبر 2007 میں ان کا انتقال ممبئی میں امبیڈکر روڈ پالی کے مکان میں ہوا۔

ایک پاکستانی گلوکارہ بھی تھیں جن کا نام بھی منور سلطانہ تھا، انھوں نے مشہور پاکستانی نغمہ ''چاند روشن چمکتا ستارہ رہے'' اور فلم ''بیداری'' کا گانا ''یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران'' گایا تھا اور اختر شیرانی کی مشہور غزل ''میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو'' بڑی خوبصورتی سے گائی تھی۔ اکثر فرمائشی پروگرام میں ان کی اس غزل کی بار بار فرمائشیں آتی تھیں۔ انھوں نے پنجابی فلموں کے لیے بھی بہت سے گیت گائے۔

1948 میں بننے والی پہلی پاکستانی فلم ''تیری یاد'' میں انھوں نے کام بھی کیا جس کا مشہور گیت تھا ''دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا'' 1949 میں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ کام کیا۔ فلم کا نام تھا ''پھیرے'' جس میں سورن لتا نے بھی کام کیا تھا۔ 1950 میں ''لارے'' میں کام کیا، مشہور فلم ''گمنام'' کا گیت ''چاندی کی ایک جھنکار پر'' گیت قتیل شفائی نے لکھا تھا۔ فلم ''نوکر'' جو 50 ہفتے تک چلی تھی، اس کا گیت ''راج دلارے میری آنکھوں کے تارے'' بہت مقبول ہوا۔

1956 میں چار فلموں نے گولڈن جوبلی منائی اس کا منافع اتنا تھا کہ اس کی آمدنی سے ایورنیو اسٹوڈیو کی ازسر نوتعمیر کی گئی۔ فلم ''قسمت'' کے گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ ''سرفروش'' کا یہ گیت بھی اپنے زمانے کا مشہور گیت ہے ''ایک چور ایک لٹیرا'' منور سلطانہ ماضی کی مقبول اداکارہ و گلوکارہ تھیں۔
Load Next Story