گوادر کی سیاست ماضی اور مستقبل

گوادر کی سیاسی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی کا امکان ہے


ظریف بلوچ October 02, 2023
گزشتہ دو سال سے گوادر کی سیاست کافی حد تک بدل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

جزیرہ نما شہر گوادر قدرتی بندرگاہ اور پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور عالمی دنیا کی نظریں اس خطے پر مرکوز ہیں۔ سیاسی حوالے سے بلوچستان کا مغربی شہر قوم پرستوں کا گڑھ رہا ہے مگر وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ اب اس علاقے میں الیکشن کے وقت ووٹ اور نوٹ لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔


اس خطے میں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام نہیں مگر میر و معتبر اور مذہبی شخصیات کا ماضی میں الیکشن میں اہم کردار رہا ہے، اور گزشتہ دو سال سے گوادر کی سیاست کافی حد تک بدل چکی ہے۔


1985 کے ضیا دور کے غیر جماعتی الیکشن سے لے کر 2018 کے عام انتخابات تک ضلع گوادر کے صوبائی اسمبلی کی نشست پر تین خاندان براجمان رہے ہیں اور گزشتہ پندرہ سال سے لگاتار میر حمل کلمتی تخت گوادر کے بے تاج بادشاہ رہے ہیں۔ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں گوادر دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل تھا، پسنی اور اورماڑہ سے ذکری فرقے کے مذہبی پیشوا سید داد کریم مرحوم جبکہ گوادر جیوانی کی نشست پر میر عبدالغفور کلمتی منتخب ہوگئے۔


1988 کے عام انتخابات میں پی این پی کے امیدوار میر حسین اشرف 14000 سے زائد ووٹ لےکر ایم پی اے گوادر منتخب ہوئے اور اس کے مدمقابل آئی جے آئی کے امیدوار میر عبدالغفور کلمتی چھ ہزار ووٹ لے سکے۔ اسی سال پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تھیں اور پیپلز پارٹی کے مخالفین نے آئی جے آئی بنائی تھی اور یہ اسمبلیاں صرف دو سال بعد توڑ دی گئی تھیں۔


1990 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر گوادر سے میر حسین اشرف بارہ ہزار سے زائد ووٹ لے کر جیت گئے اور مخالف امیدوار عابد رحیم سہرابی ساڑھے پانچ ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔ یہ اسمبلی بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکی اور یوں میر حسین اشرف اپنے دونوں ادوار میں پانچ سال پورے نہ کرسکے۔ اس کے بعد میر حسین اشرف اور ان کے صاحبزادے میر اشرف حسین گوادر کی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔


1993 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید شیر جان بلوچ نے معمولی ووٹوں کے فرق سے بی این ایم کے میر عبدالغفور کلمتی کو ہرایا جبکہ میر حسین اشرف چھ ہزار کے قریب ووٹ حاصل کرپائے۔ یہ اسمبلی بھی حسب روایت اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔


1997 کے الیکشن میں بی این پی متحدہ کے میر عبدالغفور کلمتی دس ہزار سے زائد ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ مدمقابل بی این ایم کے عابد رحیم سہرابی چھ ہزار کے قریب اور آزاد امیدوار حسین اشرف چار ہزار سے کم ووٹ حاصل کرسکے۔ میر عبدالغفور کلمتی سردار اختر جان مینگل کے کابینہ میں وزیر کھیل و ثقافت مقرر ہوئے۔ بی این پی اندورنی اختلاف کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، اور اپنی مدت پوری نہ کرسکی اور پھر 12 اکتوبر 1999کو پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا کر ملک کی تمام اسمبلیاں تحلیل کردیں۔ بی این پی متحدہ کئ دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور میر عبدالغفور کلمتی بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن گئے۔


2002 پرویز مشرف دور حکومت میں جب انتخابات ہوئے تو وفاق کی طرح بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ق کو اقتدار ملا۔ اس وقت گوادر کی نشست پر آزاد امیدوار سید شیر جان بلوچ کامیاب ہوئے اور بی این ایم کے عابد رحیم سہرابی ساڑھے نو ہزار ووٹ جبکہ سید شیر جان نے بارہ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ سید شیر جان بلوچ الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے اور صوبائی وزیر کے منصب پر فائز رہے۔


2008 کے الیکشن میں گوادر سے میر عبدالغفور کلمتی کے صاحبزادے میر حمل کلمتی پہلی بار میدان میں آئے۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، جب کہ گوادر میں بائیکاٹ کے باوجود نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ ق کے امیدوار میر حمل کلمتی کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ انتخابی مہم میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے ق لیگ کے امیدوار کےلیے کام بھی کیا۔ میر حمل کلمتی 15000 سے زائد ووٹ لے کر ممبر صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر ماہی گیری بن گئے۔ ان کے مدمقابل آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے میر اشرف حسین نے 8 ہزار سے زائد اور سید معیار جان نوری نے سات ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے تھے۔ سید معیار جان تحصیل ناظم پسنی بھی رہ چکے ہیں اور یہ عام انتخابات میں ان کی پہلی اور اہم انٹری تھی۔ اس وقت سید معیار جان ضلعی چیئرمین گوادر کے منصب پر فائز ہیں۔


2013 میں بلوچستان میں انسرجنسی کا ماحول تھا اور تحصیل پسنی کے زیادہ تر پولنگ میں ووٹرز نظر نہیں آئے۔ جبکہ ماضی کے حریف نوری فیملی اور کلمتی فیملی اب حلیف بن گئے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر میر حمل کلمتی جبکہ گوادر کم کیچ کے قومی اسمبلی کی نشست پر سید عیسیٰ نوری الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ بی این پی کے امیدوار میر حمل کلمتی چودہ ہزار کے قریب ووٹ لے کر دوسری مرتبہ کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل نیشنل پارٹی کے میر یعقوب بزنجو چھ ہزار اور مسلم لیگ ن کے میر اشرف حسین تین ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔ قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار ضلع گوادر کے سید عیسیٰ نوری کامیاب ہوئے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ گوادر کو قومی اسمبلی کی نشست ملی۔


2018 کے الیکشن میں بھی یہ اتحاد برقرار رہا اور بی این پی کے امیدوار میر حمل کلمتی 31000 سے زیادہ ووٹ لے کر گوادر کی نشست جیت گئے جبکہ ان کے مدمقابل بلوچستان عوامی پارٹی کے میر یعقوب بزنجو سولہ ہزار سے زیادہ اور نیشنل پارٹی کے میر اشرف حسین سات ہزار سے زائد ووٹ لے سکے اور گوادر کی انتخابی تاریخ میں اسی الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ پڑے اور ٹرن آؤٹ پچاس فیصد سے زائد رہا۔


2013 کی نسبت اس مرتبہ گوادر کے حالات بھی بہتر تھے کیونکہ 2013 میں انسرجنسی کی وجہ سے زیادہ تر پولنگ ویران تھے۔ اس مرتبہ انتخابی مہم میں کافی جوش و خروش رہا اور گوادر کے نوجوان ووٹرز نے پولنگ بوتھ کا رخ کیا تھا۔


2024 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے گوادر کی سیاست کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اس وقت گوادر میں جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمٰن کی سربراہی میں ایک نئی تحریک 'حق دو تحریک' ابھر کر سامنے آئی ہے اور ضلع بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد اس وقت 'حق دو تحریک' کے ساتھ ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں گوادر شہر میں آل پارٹیز اتحاد کے نام پر گوادر کی متعدد سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی جبکہ پسنی اور اورماڑہ شہر میں بھی ''حق دو'' ایک بڑی تحریک بن کر ابھری ہے۔


بی این پی مینگل البتہ اپنے اتحادیوں نوری پینل اور سید مہیم جان پینل کے ساتھ مل کر پسنی، اورماڑہ اور جیوانی کی تحصیل چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ ضلعی چیئرمین لانے میں کامیاب ہوگئی، جبکہ نیشنل پارٹی کو ضلع بھر میں عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔


الیکشن میں ابھی چند ماہ باقی ہیں اور امکان ہے اس مرتبہ نئے اتحاد بن سکتے ہیں اور گوادر کی سیاسی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے حریف اس مرتبہ حلیف بن جائیں گے۔ جبکہ ذکری فرقے کے مذہبی پیشواؤں کی حمایت حاصل کرنے کےلیے سرتوڑ کوششیں کریں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔