ڈالر اوپن مارکیٹ میں 11 ہفتوں کی کم ترین سطح پر آ گیا روپیہ 168 فیصد مضبوط
غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث مشکوک شعبوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے رواں ہفتے ڈالر تنزلی کا شکار رہا
ڈالر کی روپے کے مقابلے میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں ہفتے امریکی ڈالر کرنسی ایکسچینج کی دونوں مارکیٹوں میں ریورس گیئرمیں رہا اور روپیہ کو استحکام ملا۔
ہفتہ وار کرنسی رپورٹ کے مطابق غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث مشکوک شعبوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے رواں ہفتے ڈالر تنزلی کا شکار رہا جب کہ ہفتہ وار کاروبار میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید 1.38فیصد مضبوط ہوا۔ ڈالر کے انٹربینک و اوپن ریٹ میں فرق مزید گھٹ کر 0.09فیصد رہ گیا۔
رواں ہفتے کریک ڈاؤن سے خوفزدہ عناصر نے ڈالر کی فروخت کے لیے مارکیٹوں سے رجوع کیا، جس کی وجہ سے سٹہ بازی ختم ہونے سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 7ہفتے کی کم ترین سطح پر آگئے جب کہ اوپن ریٹ 11ہفتے کی کم ترین سطح پر ہیں۔ نتیجتاً ڈالر کے انٹربینک ریٹ 288روپے سے نیچے اور اوپن ریٹ 288روپے کی سطح پر ہیں۔
منی چینجرز، ایکسچینج کمپنیوں کی سخت نگرانی اور کاروائیوں سے روپیہ مضبوط ہوگیا۔ ہفتہ وار کاروبار میں ڈالر پاؤنڈ، یورو، درہم اور ریال کی قدر میں کی کمی کا سلسلہ برقرار رہا اور ڈالر کے انٹربینک و اوپن ریٹ میں فرق مزید گھٹ کر 27پیسے رہ گیا۔
رواں ہفتے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 4.03روپے گھٹ کر 287.73روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 3.50روپے کی کمی سے 288 روپے ہوگئی ۔ برطانوی پاؤنڈ کے انٹربینک ریٹ 8.06روپے گھٹ کر 349.86 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 18روپے کی کمی سے 353روپے ہو گئے۔
انٹربینک میں یورو کرنسی کی قدر 8.17روپے گھٹ کر 302.44روپے ہوگئی جب کہ اوپن مارکیٹ میں 9روپے کی کمی سے 306روپے ہوگئی ۔ انٹربینک میں ریال کی قدر 1.08روپے گھٹ کر 76.70روپے پر بند ہوئی جب کہ اوپن مارکیٹ میں ریال 2.50روپے گھٹ کر 76.20روپے پر بند ہوا۔
درہم کی قدر انٹربینک میں 1.10روپے گھٹ کر 78.33روپے ہوگئی جب کہ اوپن مارکیٹ میں 3روپے گھٹ کر 79.80روپے ہوگئی۔
دریں اثنا روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں نئے انفلوز سے سپلائی میں اضافہ ہوا۔ امپورٹڈ گاڑیوں، سونے کے بیوپاریوں پر چھاپوں سے بھی روپیہ تگڑا ہوا ۔ ڈالر 250روپے پر آنے کی پیشگوئی بھی کارآمد ثابت ہوئی۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سخت نگرانی سے ڈالر میں سرمایہ کاری منجمد رہی۔ کریک ڈاؤن سے حوالہ ہنڈی آپریٹرز روپوش رہے اور ڈالر کے طلبگار غائب جب کہ فروخت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔