ترکی میں کوئلے کی کان میں دھماکے کے خلاف ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے

انقرہ، استنبول، ازمیراوردیگر شہروں میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسوگیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا


ویب ڈیسک May 15, 2014
سانحے کا ذمہ دار حکومت کو قرار نہیں دیا جاسکتا، ترک وزیراعظم فوٹو؛اے ایف پی

ترکی میں کوئلے کی کان میں دھماکے کے نتیجے میں 282 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔


غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دارالحکومت انقرہ سمیت استنبول ، ازمیر اور دیگر شہروں میں کوئلے کی کان کے سانحہ کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر آگئے جس میں ہلاک افراد کے لواحقین اور تاجر برادری کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ صرف مغربی شہر ازمیر میں 20 ہزار سے زائد مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کرحکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سانحہ کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لا کر کڑی سزا دی جائے۔


پولیس اور مظاہرین کے درمیان انقرہ ، استنبول اور ازمیر میں شدید جھڑپیں ہوئی تاہم مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا جس سے کئی مظاہرین زخمی ہوگئے جبکہ ترکی کی سب سے بڑی تاجروں کی تنظیم ''کانی بیکو '' کے 60 سالہ سربراہ کو پولیس سے جھڑپ کے دوران زخمی ہونے پر تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔


دوسری جانب صدر عبداللہ گل نے کوئلے کی کان کا دورہ کیا اور حادثے کے متاثرہ افراد کے خاندانوں سے دلی ہمدری کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ کوئلے کی کان میں شارٹ سرکٹ کے باعث دھماکا قدرتی فعل ہے تاہم اس قسم کے حادثات کی روک تھام کے لئے عالمی معیار کے مطابق حکمت عملی مرتب کی جائیں گی لیکن حادثے کے بعد لوگوں کا قانون ہاتھ میں لینا مایوس کن ہے۔


ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ سانحے کا ذمہ دار حکومت کو قرار نہیں دیا جاسکتا، حکومت متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہے جبکہ اس قسم کے واقعات برطانیہ میں بھی 2 مرتبہ رونما ہوچکے ہیں جس میں بالترتیب 204 اور 361 کان کن ہلاک ہوئے۔


واضح رہے کہ 13 مئی کو ترکی کے مغربی شہر میں کوئلے کی کان میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑک اٹھی تھی جس میں اب تک 284 کان کنوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ اب بھی متعدد مزدور کان میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کے لئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں