عالمی اور ملکی معاشی سرگرمیاں
گزشتہ دہائی میں عالمی معاشی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ دیکھا گیا
گزشتہ دہائی میں عالمی معاشی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ 2008 کے عالمی بحران کے بعد بتدریج عالمی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ 2016 میں آکر ماہرین نے اندازہ لگا لیا کہ عالمی نشوونما میں اضافے کا آغاز ہو گیا ہے، لہٰذا 2017 کے دوران اس میں مزید 3.8 فیصد اور 2018 میں اور 2019 میں مزید 3.9 فیصد کا اضافہ ہوگا، لیکن یہ سارے اندازے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب کووڈ 19 نے اپنا سر اٹھایا۔ اس کے نمودار ہوتے ہی عالمی معاشی نشوونما گرتے گرتے نیچے آ لگی۔
ادھر پاکستان میں اس سے چند سال قبل ملکی صورت حال بہتر تھی۔ 2017 کی زرعی پالیسی معیشت کے لیے سہولت کا باعث تھی جس کی وجہ سے زرمبادلہ کی منڈی میں استحکام تھا۔ نجی شعبہ اور کاروباری افراد بتدریج آگے کی طرف رواں دواں تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2017 میں نجی شعبے کو دیا جانے والا اعتبار آر جی ڈی پی کے حوالے سے پانچ سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔
2017 میں پاکستان کی زرعی پالیسی اور معاشی پالیسی نے اس بات کو مدنظر رکھا کہ 2016 سے عالمی معاشی سرگرمیوں میں جو اضافہ نوٹ کیا گیا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے لہٰذا 2018 میں معاشی شرح نمو کی خاطر معیشت نے بلند ترقیاتی اخراجات، موثر زرعی پالیسی اور سی پیک سے متعلق کئی منصوبوں کو مزید تیز تر کرتے ہوئے عالمی معاشی بحالی کے ثمرات سمیٹنے کی راہ اپنائی۔ اس طرح سی پیک کے کئی تیز تر منصوبوں نے پاکستان کی معیشت کو 2019 تک بہتر پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔
2020 سے ہی کووڈ نے بہت سی باتوں کے ساتھ پاکستانی معیشت کو ڈس لیا تھا۔ اس سے سب سے زیادہ چھوٹا کاروباری طبقہ متاثر ہوا۔ اس سال آئی ایم ایف نے اپنا قرضہ موخر کر دیا تھا اسی طرح 2020 میں جی 7 کے ملکوں اور دیگر ترقیاتی ممالک نے بھی قرضوں کی وصولی میں سہولت دے دی تھی۔ 2020 عالمی معاشی تاریخ میں ایسے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب 21 ویں صدی کی تیل کے سب سے کم ترین نرخ تھے۔ پھر 2021 کے جولائی کے بعد سے تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔
عالمی معیشت اور دنیا بھر کے تقریباً سب ہی ممالک کووڈ 19 کے اثرات کے خاتمے کے بعد سنبھلتے چلے گئے۔ عالمی معیشت سے نکل کر اب ہم پاکستانی معیشت کی طرف آتے ہیں۔ کووڈ کے دوران بہتر انتظامی اور مالیاتی بہتری کے باعث پاکستان نے دیگر کئی ممالک کی نسبت اپنے آپ کو بہتری کی راہ پر گامزن کیے رکھا۔
ملک میں بہت سی اشیا کی قیمتوں میں اس طرح سے اضافہ نہیں ہو رہا تھا جیسا کہ آج کل ہے۔ ایک موقع پر دودھ 100 روپے پھر 120 روپے پھر 150 روپے فی لیٹر تک بھی تھا۔ آٹے کی قیمت 70 پھر 75، پھر 80 اور 90 روپے فی کلو تک تھی۔ چینی کی قیمت 50 سے 60 روپے سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ ڈالر ریٹ بھی 160 روپے فی ڈالر تک ہی پہنچ پائے تھے۔ اپریل 2022 تک ملک میں فی لیٹر پٹرول 150روپے تک مل رہا تھا۔ البتہ اس دوران یعنی 2021 کی ابتدا سے عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمت میں اضافے نے ملک بھر میں کوکنگ آئل کی قیمتوں کو بڑھا دیا تھا۔
پھر بات دراصل یہ تھی کہ کووڈ کے معاشی نقصانات سے دنیا نکل کر معاشی استحکام کی جانب جا رہی تھی اور ہم کم سے کم معاشی نقصان اٹھا کر سیاسی عدم استحکام کی طرف جا رہے تھے۔ انھی سالوں میں سی پیک کے کئی منصوبوں کے بارے میں جہاں یہ بتایا جا رہا تھا کہ مکمل ہونے کے قریب ہیں وہاں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سست رفتاری کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کووڈ کے مراعاتی دور گزرنے کے بعد آئی ایم ایف کی جیسے ہی واپسی ہوئی اس کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے جسے دیکھ کر ڈالر اپنے آپے سے باہر ہو رہا تھا۔
ملکی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ مہنگائی نے عوام اور حکومت کو سیاست و معیشت میں الجھا دیکھ کر اپنے آپ کو مضبوط کر لیا تھا، پھر پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے جلتی پر آگ بھڑکائی۔ ڈالر کی صبح دوپہر شام بڑھتی ہوئی قدر نے اس آگ کی لو کو مزید تیز تر کر دیا۔ ایسے میں آئی ایم ایف نے ایسے نشتر چلائے کہ پاکستان دشمن طاقتیں عش عش کر اٹھیں۔ بجلی کے نرخ تھے کہ آج بڑھے تو کل پھر بڑھ گئے۔ گیس کے نرخ بڑھنے شروع ہوگئے۔
پاکستان میں مہنگائی کا بڑا اچھا ساتھ تو روس یوکرین جنگ نے دیا۔ دونوں دنیا کے بڑے غذائی برآمدی ممالک ہیں۔ عالمی منڈی میں اکثر اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل، گھی، آٹا، سبزی، فروٹ غرض ہر شے کی قیمت بڑھی۔ رہی سہی کسر درآمدی اشیا نے پوری کردی کیونکہ ڈالر ریٹ جیسے جیسے بڑھتا ان اشیا کی قیمت بھی اسی لحاظ سے بڑھتی چلی جاتی۔ اس سال ایک موقعہ ایسا آیا تھا جب ڈالر 320 روپے تک جا پہنچا پھر اس میں ماہ اگست میں کچھ کمی ہونے کے بعد پھر اضافہ ہوتے ہوئے دو ہفتے قبل تک 335 روپے فی ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مقتدر حلقوں کی طرف سے کارروائی کا آغاز ہوا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ ڈالر کے اسمگلرز کی کمر ٹوٹنے لگی ہے جس سے روپیہ تیزی سے تگڑا ہونے لگا ہے حتیٰ کہ گزشتہ روز 290 روپے تک جا پہنچا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ مختلف مافیاز، اسمگلروں، ذخیرہ اندوزوں اور دیگر ایسے عناصر جوکہ معیشت کو نقصان پہنچا رہے تھے ان کے خلاف کارروائی کے باعث بدھ کو سترہویں روز بھی ڈالر بیک فٹ پر ہی رہا۔ مثبت معاشی توقعات نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔
ان اچھی توقعات کے ساتھ ایک خدشے نے جنم لے لیا ہے وہ یہ کہ ملک میں گڈز ٹرانسپورٹ کا احتجاج جاری ہے۔ اگرچہ گزشتہ روز ٹرانسپورٹرز کی محکمہ ٹرانسپورٹ کے حکام سے میٹنگ بھی ہوئی ہے لیکن ناکامی کے نتیجے میں ہڑتال تاحال جاری ہے۔ ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ ایندھن کی سپلائی اور اشیائے خور ونوش لے جانے والی گاڑیوں سے ''کانٹے'' پر 5 ہزار روپے فی گاڑی وصول کیے جا رہے ہیں اور یہ دھرنا گزشتہ 7 روز سے جاری ہے۔ معلوم نہیں تادم تحریر کیوں حل نہیں کیا جاسکا ہے۔
ٹرانسپورٹرز نے قومی شاہراہ اور سپر ہائی وے کو ملانے والی سڑک کو بلاک کر رکھا ہے، اس کے علاوہ ایک خوش آیند بات یہ ہوئی کہ کریک ڈاؤن اور چھاپوں کے باعث کھاد کے بیگ کی قیمت 600 روپے تک کم ہوگئی ہے۔ صوبہ سندھ میں کارروائی کے دوران مختلف علاقوں سے کھاد کے 90 ہزار بیگ برآمد کر لیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں ہر موقع پر ایسا ہی ہوتا تھا کہ کھاد مہنگے داموں ہی دستیاب ہوتی رہی ہے۔
حکومت اکثر کھاد پر سبسڈی دے رہی ہوتی ہے جس سے غیر کاشتکار سرمایہ کار طبقہ مستفید ہوتے ہوئے ہزاروں بوریاں کھاد اور دیگر بوریاں اپنے گوداموں میں بھر لیتے پھر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ دنوں چینی وغیرہ کی قیمت کم ہوئی ہے اس طرح ملکی معیشت سے مافیاز کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے تو دوبارہ سے معاشی سرگرمیوں کے آغاز کی ابتدا کی جا سکتی ہے۔