سیاسی مسائل بمقابلہ سیاسی حکمت عملی
سیاسی قیادتوں کو سیاست ہی کی مدد سے غیر اہم یا ان کی مقبولیت کو ختم کیا جاسکتا ہے
سیاسی مسائل کا حل سیاسی حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔ جب بھی سیاسی مسائل کا علاج غیر سیاسی انداز کی بنیاد پر تلاش کیا گیا مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ سنگین یا پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم سیاسی او رجمہوری یا آئینی و قانونی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں اور کیونکر ہم وہی غلطیوں کو دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں جو ہم ماضی میں کررہے ہیں۔
غیرسیاسی حکمت عملیاں سیاسی نظام ، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی ناکامیوں جڑی ہوتی ہیں ۔ اگر فعال جمہوری نظام ہو تو ریاستوں کو جمہوری خطوط پر چلایا جاسکتا ہے۔ جمہوری ریاستوں کی بنیاد آئین اور قانون ہوتی ہے او ر اسی بنیاد پر سسٹم آگے بڑھایا جاتا ہے ۔
ہمارے داخلی، علاقائی اورخارجی معاملات سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہیں او ران مسائل نے ہمیں تنہائی میں کھڑا کردیا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک مضبوط ریاستی اور جمہوری نظام کی تلاش میں ہے ۔سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ غیر سیاسی قوتیں کو قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ۔ دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے خود کو '' ایک بڑے مسئلہ '' کے طور پر پیش کیا ہے۔
ہم بطور ریاست یا اپنی اہل دانش کی بنیاد پر دنیا میںموجود جدید جمہوری ریاستوں کے معاملات یا ان کے بہتر حکمت عملی سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ دنیا میں جدید جمہوریت کا نظام آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت ادارہ جاتی خود مختاری یا شفافیت کی بنیاد پر کھڑا ہے ۔ جہاں طبقاتی بنیادوں پر نظام کو استوار کرنے کے بجائے سب کو ایک ہی پیمانہ کی بنیاد پر پرکھا اور دیکھا جاتا ہے ۔ہمیں جو مسائل بطور ریاست درپیش ہیں ان کا علاج ہم وہی پرانے روائتی اور فرسودہ خیالات کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں یہ زعم ہے کہ عوام کے مقابلے میں اصل طاقت کا محور ہماری ذات یا ہمارا ادارہ ہے۔ ہمیں اس زعم سے باہر نکلنا ہے او رلوگوں کو بنیاد بنا کر اپنے مسائل کی درجہ بندی او ران کی ترجیحات کا تعین کرکے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ہمیں یہ حق ہر صورت عوام کو ہی دینا ہے کہ وہ اپنے سیاسی و سماجی شعور کی بنیاد پر انتخابات میں اپنی قیادت کا اپنی حکومت انتخاب کریں ۔اگر لوگ غلط فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اسی غلطی کا آزالہ اگلی بار اپنی اصلاح کے ساتھ نئی قیادت کے انتخاب کے طو رپر کریں گے۔
سیاسی انجینئرنگ، سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ، اسے اب ختم ہونا چاہیے۔ سیاسی نفرتوں اور دشمنی کے کھیل کو ترک کرنا ہوگا ۔ یہ تاثر کہ سیاسی جماعتیں او ران کی قیادتیں ہی غیر جمہوری قوتوں کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہیں اس کے آگے بھی بندھ باندھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ غیر سیاسی قوتوں کی سب سے بڑی کامیابی کا نقطہ سیاسی قوتوں کے درمیان سیاسی تقسیم کو پیدا کرنا یا پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو بنیاد بنا کر اپنی طاقت کے کھیل کو تقویت دینا ہے۔
اس لیے سیاسی جماعتیں خود جب تک اپنے داخلی معاملات کا تجزیہ او راس کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے آئینی , سیاسی , قانونی او رجمہوری راستہ تلاش نہیں کریں گی مسائل میں اور زیادہ خرابیاں جنم لیں گی۔
اس وقت ہم جن سیاسی , معاشی اور ریاستی بحران کے عمل سے گزررہے ہیں اس میں زیادہ تدبر اور فہم و فراست درکار ہے ۔ عام انتخابات کے تناظر میں ہماری حکمت عملی واضح ہونی چاہیے ۔ اول انتخابات کا فوری انعقاد، انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانا، نگران حکومت کا غیر جانبدار ہونا، انتخابی اور سیاسی عمل میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، تمام سیاسی فریقوں کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانا، انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کو قائم کرنا، کسی کی حمایت او رمخالفت پر مبنی پالیسیوں کے مقابلے میں شفاف پالیسی اور سب کو سیاسی عمل میں شرکت کے مواقع فراہم کرنا ہماری سیاسی ضرورت بنتے ہیں۔
ہمیں آگے بڑھنا ہے تو تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں کے درمیان سیاسی اہم آہنگی اور دوطرفہ تعاون جو آئینی یا سیاسی حدود یا دائرہ کار میں آتا ہے ، درکار ہے ۔محاز آرائی، تنا ؤ، ٹکراو اور نفرت یا دشمنی کے کھیل کی بنیاد پر ہم جدید جمہوری ریاستوں کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں بے شمار کمزوریاں ہیں اور یہ کمزوریاں خود سیاسی لوگوں کی بھی پیدا کردہ ہیں مگر جب تک سیاسی نظام کا تسلسل نہیں ہوگا اور سیاسی قیادتوں کا عمل ایک مخصوص فیکٹری سے نکلنے کے بجائے عوامی تائید و حمایت سے نہیں نکلے گا مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہمیں غیر مصنوعی انداز میں اپنے سیاسی سفر کو آگے نہیں بڑھانا بلکہ اس پر آئینی او رجمہوری رنگوں کو بھرنا ہوگا جو ہمیں سیاسی محاذ پر سرخرو کرسکے۔
سیاست دانوں کا احتساب ہونا چاہیے اور صرف سیاست دانوں کا ہی نہیں بلکہ دیگر طاقت ور طبقات کو بھی جوابدہی یا احتساب کے عمل میں لانا ہوگا ۔ لیکن احتساب کو بنیاد بنا کر سیاسی مفادات کا کھیل یا کسی کی حمایت کے حصول میں احتساب کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔جدید ریاستیں آزاد عدلیہ کی بھی مرہون منت ہوتی ہیں او رجب تک ہم اپنی اعلیٰ عدالتوں کو مکمل خود مختاری یا آزادی نہیں دیتے یا عدالتیں خود کو شفافیت کے اصول پر سامنے نہیں لاتیں تو غیر جمہوری قوتوں کو جو طاقت ملتی ہے وہ کھیل آگے بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیں گی۔
سیاسی قیادتوں کو سیاست ہی کی مدد سے غیر اہم یا ان کی مقبولیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں سیاسی قوتوں کو جو ظالم بنانے کا کھیل ہے وہ ان کو عوامی سطح پر مظلوم بنا کر پیش کرتا ہے ۔ سیاسی قیادتیں یا سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں اپنے عملی اقدامات یا اپنے طرز عمل یا اپنے فیصلوں سے اہم یا غیر اہم ہوتی ہیں ۔ لوگ ان کو ووٹ کی بنیاد پر اقتدار میں لاتے ہیں او رووٹ ہی کی بنیاد پر ان کو اقتدار سے باہرنکالتے ہیں ۔ یہ ہی حکمت اختیار کی جانی چاہیے او ریہ ہی حکمت عملی سیاسی و ریاستی نظام کے لیے کارگر بھی ہے اور رہے گی۔
غیرسیاسی حکمت عملیاں سیاسی نظام ، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی ناکامیوں جڑی ہوتی ہیں ۔ اگر فعال جمہوری نظام ہو تو ریاستوں کو جمہوری خطوط پر چلایا جاسکتا ہے۔ جمہوری ریاستوں کی بنیاد آئین اور قانون ہوتی ہے او ر اسی بنیاد پر سسٹم آگے بڑھایا جاتا ہے ۔
ہمارے داخلی، علاقائی اورخارجی معاملات سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہیں او ران مسائل نے ہمیں تنہائی میں کھڑا کردیا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک مضبوط ریاستی اور جمہوری نظام کی تلاش میں ہے ۔سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ غیر سیاسی قوتیں کو قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ۔ دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے خود کو '' ایک بڑے مسئلہ '' کے طور پر پیش کیا ہے۔
ہم بطور ریاست یا اپنی اہل دانش کی بنیاد پر دنیا میںموجود جدید جمہوری ریاستوں کے معاملات یا ان کے بہتر حکمت عملی سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ دنیا میں جدید جمہوریت کا نظام آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت ادارہ جاتی خود مختاری یا شفافیت کی بنیاد پر کھڑا ہے ۔ جہاں طبقاتی بنیادوں پر نظام کو استوار کرنے کے بجائے سب کو ایک ہی پیمانہ کی بنیاد پر پرکھا اور دیکھا جاتا ہے ۔ہمیں جو مسائل بطور ریاست درپیش ہیں ان کا علاج ہم وہی پرانے روائتی اور فرسودہ خیالات کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں یہ زعم ہے کہ عوام کے مقابلے میں اصل طاقت کا محور ہماری ذات یا ہمارا ادارہ ہے۔ ہمیں اس زعم سے باہر نکلنا ہے او رلوگوں کو بنیاد بنا کر اپنے مسائل کی درجہ بندی او ران کی ترجیحات کا تعین کرکے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ہمیں یہ حق ہر صورت عوام کو ہی دینا ہے کہ وہ اپنے سیاسی و سماجی شعور کی بنیاد پر انتخابات میں اپنی قیادت کا اپنی حکومت انتخاب کریں ۔اگر لوگ غلط فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اسی غلطی کا آزالہ اگلی بار اپنی اصلاح کے ساتھ نئی قیادت کے انتخاب کے طو رپر کریں گے۔
سیاسی انجینئرنگ، سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ، اسے اب ختم ہونا چاہیے۔ سیاسی نفرتوں اور دشمنی کے کھیل کو ترک کرنا ہوگا ۔ یہ تاثر کہ سیاسی جماعتیں او ران کی قیادتیں ہی غیر جمہوری قوتوں کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہیں اس کے آگے بھی بندھ باندھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ غیر سیاسی قوتوں کی سب سے بڑی کامیابی کا نقطہ سیاسی قوتوں کے درمیان سیاسی تقسیم کو پیدا کرنا یا پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو بنیاد بنا کر اپنی طاقت کے کھیل کو تقویت دینا ہے۔
اس لیے سیاسی جماعتیں خود جب تک اپنے داخلی معاملات کا تجزیہ او راس کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے آئینی , سیاسی , قانونی او رجمہوری راستہ تلاش نہیں کریں گی مسائل میں اور زیادہ خرابیاں جنم لیں گی۔
اس وقت ہم جن سیاسی , معاشی اور ریاستی بحران کے عمل سے گزررہے ہیں اس میں زیادہ تدبر اور فہم و فراست درکار ہے ۔ عام انتخابات کے تناظر میں ہماری حکمت عملی واضح ہونی چاہیے ۔ اول انتخابات کا فوری انعقاد، انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانا، نگران حکومت کا غیر جانبدار ہونا، انتخابی اور سیاسی عمل میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، تمام سیاسی فریقوں کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانا، انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کو قائم کرنا، کسی کی حمایت او رمخالفت پر مبنی پالیسیوں کے مقابلے میں شفاف پالیسی اور سب کو سیاسی عمل میں شرکت کے مواقع فراہم کرنا ہماری سیاسی ضرورت بنتے ہیں۔
ہمیں آگے بڑھنا ہے تو تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں کے درمیان سیاسی اہم آہنگی اور دوطرفہ تعاون جو آئینی یا سیاسی حدود یا دائرہ کار میں آتا ہے ، درکار ہے ۔محاز آرائی، تنا ؤ، ٹکراو اور نفرت یا دشمنی کے کھیل کی بنیاد پر ہم جدید جمہوری ریاستوں کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں بے شمار کمزوریاں ہیں اور یہ کمزوریاں خود سیاسی لوگوں کی بھی پیدا کردہ ہیں مگر جب تک سیاسی نظام کا تسلسل نہیں ہوگا اور سیاسی قیادتوں کا عمل ایک مخصوص فیکٹری سے نکلنے کے بجائے عوامی تائید و حمایت سے نہیں نکلے گا مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہمیں غیر مصنوعی انداز میں اپنے سیاسی سفر کو آگے نہیں بڑھانا بلکہ اس پر آئینی او رجمہوری رنگوں کو بھرنا ہوگا جو ہمیں سیاسی محاذ پر سرخرو کرسکے۔
سیاست دانوں کا احتساب ہونا چاہیے اور صرف سیاست دانوں کا ہی نہیں بلکہ دیگر طاقت ور طبقات کو بھی جوابدہی یا احتساب کے عمل میں لانا ہوگا ۔ لیکن احتساب کو بنیاد بنا کر سیاسی مفادات کا کھیل یا کسی کی حمایت کے حصول میں احتساب کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔جدید ریاستیں آزاد عدلیہ کی بھی مرہون منت ہوتی ہیں او رجب تک ہم اپنی اعلیٰ عدالتوں کو مکمل خود مختاری یا آزادی نہیں دیتے یا عدالتیں خود کو شفافیت کے اصول پر سامنے نہیں لاتیں تو غیر جمہوری قوتوں کو جو طاقت ملتی ہے وہ کھیل آگے بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیں گی۔
سیاسی قیادتوں کو سیاست ہی کی مدد سے غیر اہم یا ان کی مقبولیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں سیاسی قوتوں کو جو ظالم بنانے کا کھیل ہے وہ ان کو عوامی سطح پر مظلوم بنا کر پیش کرتا ہے ۔ سیاسی قیادتیں یا سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں اپنے عملی اقدامات یا اپنے طرز عمل یا اپنے فیصلوں سے اہم یا غیر اہم ہوتی ہیں ۔ لوگ ان کو ووٹ کی بنیاد پر اقتدار میں لاتے ہیں او رووٹ ہی کی بنیاد پر ان کو اقتدار سے باہرنکالتے ہیں ۔ یہ ہی حکمت اختیار کی جانی چاہیے او ریہ ہی حکمت عملی سیاسی و ریاستی نظام کے لیے کارگر بھی ہے اور رہے گی۔